راولپنڈی سانحہ۔ محرکات و اثرات
ہم اندرونی طورپرایک ٹائم بم کی کیفیت کاشکارہیں ہمارےاردگرد سےحملہ آورقوتیں مزیدبارودبھرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہی
www.facebook.com/syedtalathussain.official
راولپنڈی میں ہونے والے سانحہ سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ ہم اندرونی طور پر ایک ٹائم بم کی کیفیت کا شکار ہیں۔ ہمارے اردگرد سے حملہ آور قوتیں مزید بارود بھرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہی۔ آپ اس سانحہ کی تفصیلات پڑھیں تو خود ہی سمجھ جائیں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ ریاست کے مختلف اداروں نے ماضی میں ایسی پالیسیاں اپنائیں جن کی وجہ سے ملک میں اسلحہ بردار گروپوں کو کھلی چھوٹ ملی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلام جیسے محبت بھرے دین کو سیاسی ایجنڈوں کے تابع کر کے تشدد اور خون خرابے کو بطور لائحہ عمل اپنایا گیا۔ مگر ان خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ موجودہ حالات میں ماضی کا حصہ بھی اُتنا ہی ہے جتنا کہ حال میں موجود مختلف بین الاقوامی و علاقائی مفادات اور پاکستان مخالف اہداف کا۔ راولپنڈی میں قتل و غارت گری اتفاقیہ نہیں لگتی۔
عاشورہ کے روز نکمی ترین انتطامیہ بھی اُن خاص جگہوں سے واقف ہوتی ہے جہاں ٹکرائو یا خلفشار پھیلنے کی وجوہات موجود ہوتی ہیں کہ جلوس کو کس جگہ سے گزرنا ہے، اُس میں کتنے افراد ہوںگے، کون اسلحہ اُٹھائے ہوئے ہوںگے اور کن کے پاس انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کے وسائل موجود ہوں گے، جلوس کو کہاں پر رکنا ہے اور کہاں سے جلدی گزر جانا ہے۔ یہ سب سو چ بچا ر انتظامیہ کی عمومی احتیاطی تدابیر کا بنیادی حصہ ہے۔ اسی طرح دوسر ے گروپ جن سے تصادم کا احتمال ہوتا ہے اُن کے ساتھ بھی رابطے پہلے سے استوار کر لیے جاتے ہیں۔ اس تمام منصوبہ بندی میں ایک زاویہ ایسا ہے جس کے بار ے میں آخری وقت تک کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، وہ ہے خودکش حملہ آوروں کا جو کہیں سے بھی نمودار ہو کر بربادی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کے لیے عاشورہ کے جلوسوں کو بغیر کسی لڑائی جھگڑ ے کے منزل و مقصود تک پہنچانا کوئی بڑا کام نہیں سمجھا جاتا۔
راولپنڈی میں جو کچھ ہوا اُس میں سے سب سے حیرت انگیز امر خوفناک اشتعال تھا۔ ایسے مواقعے میں جب بپھرے ہوئے ہجوم آمنے سامنے کھڑ ے ہو جاتے ہیں تو یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ بدمزگی کا آغاز کہاں سے ہوا۔ لیکن بدمزگی اور قتل و غارت گری میں زمین و آسمان کا فر ق ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ ان کے محرکات علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اور قانون میں دونوں کے لیے سزا بھی مختلف تجویز کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر کسی کو اپنے مذہبی نظریات یا مسلک کے نقطہ نظر کو آزادانہ طریقے سے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ پاکستان کا آئین آرٹیکل 20 کے ذریعے ہر شخص کو مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔ مگر تین شرائط اس آزادی پر حاوی ہیں۔
1۔ ایک ایسی قانون سازی جو حکومت وقت ضروری سمجھے
2۔ امن و امان کو برقرار رکھنے کی ضرورت
3۔ بنیادی اخلاقی معیار کا تحفظ
دوسرے الفاظ میں کسی کو کسی کے مسلک یا عقائد کو برا کہنے کی اجازت نہیں ۔ راولپنڈی میں چند عناصر نے اسلحہ کے استعمال سے احتیاط کی ہر تاریخ تبدیل کر دی۔ ہنگامہ آرائی، گھیراؤ جلائو اور فساد برپا کرنے والے چاہتے ہی یہ تھے کہ اس ملک کا ہر کونہ بارود کا ڈھیر بن جائے۔
کوئی ایسا کیوں کرے گا۔ اس کا اندازہ آپ کو پاکستان میں مختلف حیلوں کے ذریعے مرکزی علاقوں میں فساد برپا کرنے کی کوششوں پر نظر دوڑا کر بھی ہو سکتا ہے۔ اور مشرق وسطیٰ میں فرقہ ورانہ فسادات کے ذریعے اچھے بھلے فعال اور مضبوط ممالک کو توڑنے کی انتہائی کامیاب پالیسی کو دیکھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے فرقہ واریت کی مختلف اشکال کو عدم سنجیدگی کے ساتھ نپٹ کر خود کو ایک الائو کے بیچ یقیناً کھڑا کیا ہے مگر جلتی پر اس وقت تیل چھڑکنے والے پنجاب میں ایک ایسی جنگ کی شروعات کرانا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ عراق اور شا م جیسی صورت حال کی صورت میں نکلے۔
اس انتشار کو پھیلانے کے لیے راولپنڈی کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔ اس کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک میں اول یہ کہ راولپنڈی میں آرمی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہاں پر پھیلنے والے ہنگامے آرمی کی طرف سے فوری ردعمل سامنے لاتے ہیں۔ فی الحال اس ردعمل نے مزید خرابی کو روک دیا مگر آپ ذرا یہ سوچئے کہ آرمی ان حالات میں کیا کرے گی، جب ہزاروں کی تعداد میں مشتعل افراد سڑکوں پر دندنانے لگیں گے۔ ہنگاموں کا پھیلانا فورسز کو اندرونی خلفشار میں ملوث کرنے کا ایک ایسا رستہ بھی بن سکتا ہے جس پر سے واپسی ناممکن ہو مگر جو سیدھا تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہا ہو۔ دوسرا ممکنہ جواب راولپنڈی اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے آپس میں تعلق سے ہے، وہ شہر جہاں پر پاکستان کی بہترین مگر بہت سی آنکھوں کو کھٹکنے والی جوہری تنصیبات اور تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ فرقہ واریت کی آگ سے متاثر ہونے کے بعد ہمارے دشمن کو پرانا الزام نئے طریقے سے دہرانے کا موقعہ فراہم کر سکتاہے۔ اور وہ یہ کہ اس ملک میں جوہری ہتھیار محفوظ نہیں ہے۔ شام میں بشار الاسد پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگنے کی ایک وجہ اندرونی انتشار اور سول جنگ کی کیفیت تھی جس نے جھوٹ اور سچ کو ملا جلا کر پیش کیا۔ ان ہتھیاروں سے متعلق شام کے ہمسایہ ممالک نے شور مچا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شام کی حکومت نہ صرف ان ہتھیاروں کا غلط استعمال کر رہی ہے بلکہ ان کی موجودگی سے علاقے کو شدید خطرہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ میں راولپنڈی کے واقعے کے ممکنہ اثرات کو بیان کرتے ہوئے مبالغہ سے کام لے رہا ہوں۔ یا وقتی ذہنی کوفت کو تجزیے کے ذریعے بیان کر رہا ہوں۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ملک میں بیسیوں ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جن سے متعلق کسی زمانے میں بات کرنے والے کو منحوس کہہ کے محفل سے رخصت کر دیا جاتا تھا۔ پنڈی میں جو کچھ ہوا وہ ہے تو مقامی لیکن اس کو سمجھنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی معاملات سے نظر نہ ہٹایئے۔