حقائق سے صرفِ نظر
میرے وطن کے لوگ ایک دن عالمی حقیقتوں کو تسلیم کرنے پرضرور مجبور ہوں گے، مگر شاید اس وقت تک وقت کافی آگے جا چکا ہو گا۔
گزشتہ ماہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی پاک امریکا تعلقات میں موجود غلط فہمیوں پر لکھی گئی نئی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ جس کا نامMagnificent Delusions: Pakistan, the United States, and an Epic History of Misunderstanding اس کتاب میں ایک جگہ حسین حقانی لکھتے ہیں کہ ''دو برس قبل امریکی صدر اوباما نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو خط بھیجا۔ جس میں انھوں نے پاکستان کو طویل المدتی تزویراتی (Strategic) شراکت داری کی پیش کش کی، بشرطیکہ پاکستان اس خطے میں امریکی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے دہشت گردوں کے تمام گروپوں کی سرکوبی اور ان کے خاتمے میں تعاون کرے۔ مگر پاکستانی حکومت نے خطے کے بارے میں اپنی روایتی سوچ اور مشرقی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کا بہانہ کر کے یہ اہم موقع گنوا دیا۔'' ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ''پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی جنوبی ایشیاء کی سیاست میں قائدانہ کردار کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی، جب تک کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتی اور مذہبی شدت پسندوں کے لیے موجود نرم گوشہ کو ختم نہیں کرتی۔'' آگے چل کر دکھ کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ''میرے وطن کے لوگ ایک دن عالمی حقیقتوں کو تسلیم کرنے پر ضرور مجبور ہوں گے، مگر شاید اس وقت تک وقت کافی آگے جا چکا ہو گا۔''
حسین حقانی کو پسند یا ناپسند کرنا لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اور جن مسائل کی نشاندہی کی ہے، وہ قابل غور ہیں۔ کیونکہ وہ تین برس تک امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اس کے علاوہ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں اور طاقت کے سرچشموں سے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ اس لیے بہت سے اندرونِ خانہ حقائق سے واقفیت رکھتے ہیں۔ حسین حقانی نے پاکستان کو درپیش مسائل کے حل میں رکاوٹ بنے جسMindset کی نشاندہی کی ہے، اس کے مظاہر اکثر و بیشتر نظر آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار اور جنرل (ر) حمید گل ویڈیو لنک کے ذریعے پیدا ہونے والی نئی صورتحال اور شدت پسندوں سے مذاکرات پر اپنی رائے دے رہے تھے۔ جرنیل صاحب اپنی غیر منطقی باتوں کو منوانے کے لیے بار بار موضوع سے ہٹنے کی کوشش کرتے رہے۔ خاص طور پر جب نفاذِ اسلام کے حوالے سے ان سےModus Operandi بیان کرنے کی بات کی گئی۔ اس موقعے پر ڈاکٹر فاروق ستار نے انتہائی تحمل اور بردباری کا ثبوت دیا۔
متذکرہ بالا ٹیلی ویژن مذاکرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کے بعض طاقتور حلقے آج بھی اس خوش فہمی یا فریبِ نظر(Illusion) میں مبتلا ہیں کہ وہ ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اپنی سابقہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth)کی پالیسی کو جاری رکھ سکیں گے۔ اسی خوش فہمی کی بنیاد پر وہ زمینی حقائق کو جھٹلانے پر تلے رہتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ امریکا کو افغانستان میں شکست فاش ہو رہی ہے اور وہ وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ جو کہ ایک انتہائی غلط اور گمراہ کن مفروضہ ہے۔ کیونکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اول تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا مکمل طور پر افغانستان سے نہیں جا رہا، بلکہ ایساف افواج کا ایک حصہ جو ناٹو افواج پر مشتمل ہے، وہ دسمبر 2014ء تک افغانستان سے چلا جائے گا۔ جب کہ امریکی فوج کی ایک خاطر خواہ تعداد وہاں موجود رہے گی۔ اس کے علاوہ جدید خطوط پر عسکری تربیت سے آراستہ اور حساس اسلحے سے لیس افغان فوج بھی تیار کر لی گئی ہے، جو جانے والی افواج کی جگہ لینے کے لیے مکمل طور پر مستعد ہو چکی ہے۔ اس عمل کے لیے امریکا نے 8 ارب ڈالر کا خطیر بجٹ مختص کیا ہے۔ لہٰذا وہ حلقے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں 9/11 سے پہلے والی صورتحال بحال ہو جائے گی، وہ شدید نوعیت کی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہیں۔
یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ 12 برسوں کے دوران افغانستان اور پاکستان کے اطراف میں دنیا خاصی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ چین کے بعد بھارت بھی تیزی سے معاشی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ روسی فیڈریشن جو سوویت یونین کی تحلیل کے بعد قدرے گہنا گئی تھی، ایک بار پھر خطے میں فیصلہ ساز قوت کے طور پر سامنے آ چکی ہے۔ ایران جس کے تعلقات امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ گزشتہ 34 برس سے کشیدہ چلے آ رہے تھے، ان میں تبدیلی آ رہی ہے اور مکالمے کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ برطانیہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ آیندہ برس تک امریکا اور ایران کے درمیان بھی برف پگھل جائے گی اور تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ دوسری طرف قدرتی وسائل سے مالامال وسط ایشیائی ممالک کی سرحدیں بھی افغانستان سے ملتی ہیں۔ یوں خطے کی تزویراتی سیاست میں دور رس تبدیلیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں، جن کے اثرات بہر حال اس خطے کے تمام ممالک پر پڑنے کے قوی امکانات ہیں۔ اس صورتحال میں تمام ممالک کی خواہش ہو گی کہ افغانستان ایک پر امن اور خطے کی ترقی کے لیے معاون ملک ثابت ہو۔ عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان افغانستان میں شدت پسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہو کر خطے کے ممالک کے ساتھ اخلاص کے ساتھ تعاون کرے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو اپنی روایتی سوچ اور خارجہ پالیسی کے سابقہ اہداف سے چھٹکارا پانا ہو گا۔
اب جہاں تک مذہبی شدت پسند عناصر یعنی طالبان کا تعلق ہے تو ان کی عسکری طاقت خاصی حد تک ٹوٹ چکی ہے اور ان کی سریع الاثر ردعمل ظاہر کرنے کی قوت میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ یہی کچھ صورتحال پاکستانی طالبان کی ہے۔ ڈرون حملوں کی عالمی اخلاقی حیثیت متنازع ہونے کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی سرکردہ قیادت انھی حملوں کے نتیجے میں ماری گئی اور ان کی عسکری قوت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا عالمی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں اب طالبان کا اقتدار میں آنا بعید از قیاس ہو چکا ہے۔ بشرطیکہ پاکستان طالبان کے لیے نرم گوشہ اور ہمدردانہ روش سے دست کش ہو جائے۔ افغانستان میں آزادانہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ایک لبرل اور وسیع البنیاد حکومت کا قیام پاکستان کے تعاون ہی سے ممکن ہے۔ جس کے بعد اس ملک میں امن اور استحکام کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے، جو خود پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ہو گا۔
پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے ایک نمایاں حصے کو مغربی سرحد کی دوسری جانب رونماء ہونے والی تبدیلیوں اور اپنے ملک پر پڑنے والے گہرے اثرات کا ادراک ہے۔ مگر پالیسی سازی پر حاوی روایتی سوچ کا حامل طبقہ ہنوز مشرقی سرحد کو اہمیت دینے پر مصر ہے۔ جس کی وجہ سے گو کہ پالیسی سازی میں تبدیلیاں لانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نئی صف بندیوں میں بھی مصروف ہے۔ جس کی واضح مثال 43 برس بعد جماعت اسلامی کی عسکری اسٹیبلشمنٹ سے پیدا ہونے والی دوری ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادتیں اور منصوبہ ساز خطے کے تبدیل ہوتے منظر نامے کو یا تو سمجھنے سے قاصر ہیں یا دانستہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکمران اس Status quo کو ختم کرنے سے ہچکچا رہے ہوں، جو سرد جنگ کے زمانے میں مسلط کیا گیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی منصوبہ ساز اور سیاسی قیادتیں اس عزم و بصیرت سے عاری ہیں، جو سخت اور تلخ فیصلے کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ان کی نااہلی اور کنفیوزڈ سوچ کے باعث رائے عامہ کو منقسم ہو چکی ہے اور صائب اور حقیقت پسندانہ فیصلوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں۔
یہ طے ہے کہ سبب کچھ ہی کیوں نہ ہو، یہ خطہ جس صورتحال سے دوچار ہے، اس میں اگر دانشمندانہ فیصلے نہ کیے گئے تو افغانستان سے ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد صورتحال انتہائی مخدوش ہو سکتی ہے۔ جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑیں گے اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں اس خوش فہمی سے نکلنا ہو گا کہ افغانستان میں9/11 سے پہلے والی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔ البتہ افغانستان میں جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں پاکستان کے لیے وسط ایشیائی ممالک تک تجارتی تعلقات کو پھیلانے کا نادر موقع مل سکتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو ماضی کے سحر یا Myth سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔