منور حسن کابیان پس منظر

افغان جنگ کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے استاد ربانی اور دوسرے رہنماؤں کو ترجیح دی۔

tauceeph@gmail.com

''امریکا کا ساتھ دینے والے فوجی شہید نہیں ہیں'' جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے یہ بیان دے کے سیاسی منظر نامے پر تہلکہ مچادیا۔ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے ترجمان نے اس بیان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ہزاروں سپاہیوں اور شہیدوں کی توہین قرار دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سینیٹر زاہد خان نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ منور حسن پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے جماعت اسلامی پر فی الفور پابندی عائد کرنے پر زور دیا۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے تحریری بیان میں اپنے امیر کے مؤقف کی حمایت اور فوج کے لیے قربانیوں کا ذکر کیا ہے مگر فوج اور جماعت اسلامی کے اختلافات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

سید منور حسن اکتوبر 2008ء میں جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے امیر ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کے انتقال کے بعد پنجاب سے میاں طفیل محمد اور خیبرپختون خواہ سے قاضی حسین احمد امیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا افغان جنگ سے گہرا تعلق رہا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کے حکمراں سردار داؤد کے دور میں سب سے پہلے افغان منحرفین حکمت یار، استاد ربانی اور احمد شاہ مسعود سے رابطہ کیا تھا اور انھیں پاکستان مدعو کیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں افغانستان میں کمیونسٹ استاد امیرکبیر کے قتل کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا اور نور محمد ترکئی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے کسانوں میں زمینیں بانٹیں، سود اور عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی تو افغان مجاہدین کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ افغان مجاہدین کا مرکز تھا۔

جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جماعت اسلامی کی مدد حاصل کی۔ جماعت اسلامی اور اس کے ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے افغان جہاد میں شرکت کے لیے نوجوانوں کو متحرک کیا۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختون خواہ کے نوجوانوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر جان محمد عباسی کا بیٹا بھی اس جنگ میں جاں بحق ہوا مگر سوویت افواج کی واپسی کے بعد حالات تبدیل ہوگئے۔ جماعت اسلامی حکمت یار گروپ کی حمایت سے محدود ہوگئی۔ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے استاد ربانی اور دوسرے رہنماؤں کو ترجیح دی۔ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی میں جماعت اسلامی کا اہم کردار رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے بھی نوجوانوں کو کشمیر کے جہاد میں حصہ لینے کے لیے متحرک کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں علی گیلانی جماعت اسلامی کی حمایت کرنے لگے۔ پروفیسر حافظ محمدسعید اور ان کے ساتھی بھی کشمیر کے جہاد میں سرگرم ہوئے۔ لشکر طیبہ کے نام سے ایک نئی تنظیم معرضِ وجود میں آئی۔ اس تنظیم نے ہزاروں رضاکار جمع کرلیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جہادی سرگرمیوں میں لشکر طیبہ کا نام سامنے آنے لگا۔ پھر درجنوں تنظیمیں سامنے آئیں۔ مولانا مسعود اطہر کی تنظیم حرکت الانصار نے بھارت کا جہاز اغواء کر کے تہلکہ مچادیا۔


عراق جنگ میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے سعودی عرب کے مؤقف کی مخالفت کی۔ یوں جماعت اسلامی اپنے قیام کے بعد پہلی دفعہ سعودی عرب سے دور ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ اقتدار میں وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے پاکستانی مدرسوں سے افغان طالب علموں کو جمع کر کے طالبان کی فوج بنائی اور اس نے پہلے قندھار پر قبضہ کیا۔ پھر طالبان کابل پر قابض ہوگئے۔ یوں ملا عمر کی خلافت قائم ہوئی۔ ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی ڈاکٹرائن کو قبول کیا اور اسلامی سلطنت قائم کرنے کا اعلان کیا۔ 70ء کی دھائی میں افغان جہاد شروع کرنے والی جماعت اسلامی اب تنہا رہ گئی۔ جماعت اسلامی کے رہنما طالبان حکومت کی بعض پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے مگر دائیں بازو کے دباؤ پر وہ ذرایع ابلاغ میں طالبان کی مخالفت نہیں کرتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے اس دورِ حکومت میں جب پیپلز پارٹی، تحریک استقلال، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی وغیرہ نے ایم آر ڈی بنا کر 1973ء کے آئین کی بحالی کے لیے جدوجہد شروع کی تو جماعت اسلامی کے رہنماؤں خاص طور پر پروفیسر غفور نے ضیاء حکومت پر تنقید کرنا شروع کی تاکہ عوام میںجماعت اسلامی کا جمہوری تشخص برقرار رہے۔ پروفیسر غفورکے ایک قریبی معاون کہتے ہیں کہ پروفیسر غفور ایم آر ڈی میں شامل ہونے کے لیے تیار تھے مگر میاں طفیل محمد نے یہ کوشش ناکام بنادی۔ یہی وجہ تھی کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں سید منور حسن کراچی کے ایک معمولی سیاسی کارکن کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے۔ جماعت اسلامی پھر مسلم لیگ ن کی اتحادی بن گئی۔ مگر میاں نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی کوششوں سے جماعت اسلامی کو مایوسی ہوئی۔ پھر صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کی میاں صاحب سے ناراضگی نے مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے راستے جدا کردیے۔

قاضی حسین احمد کی طرف سے جماعت اسلامی کی علیحدہ پرواز کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ۔قاضی حسین احمد کے دور میں جماعت اسلامی کی پالیسی تبدیل ہوئی، اب جماعت اسلامی مزدوروں اور کسانوں کے مؤقف کی حمایت کرنے لگی۔ کراچی میں تو بعض عوامی مسائل پر جماعت کے کارکن بائیں بازو کی تنظیموں کے کارکنوں کے ساتھ جدوجہد میں مصروف نظر آئے مگر دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے اثرات بڑھنے کی بناء پر جماعت اسلامی لبرل رویہ سے دور ہوتی چلی گئی۔ 2002ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ خیبر پختون خواہ کی حکومت میں شامل ہوئی، اسی دور میں نیٹو فورسز کے لیے سپلائی لائن قائم ہوئی مگر جماعت اسلامی نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ جب سید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر بنے تو بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ متوسط طبقے کے رجحانات کو تقویت دیں گے۔

منور حسن ذاتی طور پر مخالف نظریات رکھنے والے رہنماؤں سے دوستی اور تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور گفتگو کے ماہر ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ دائیں بازو کی دوسری انتہاپسند تنظیموں کے دباؤ کی بناء پر انتہاپسندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو عوامی سطح پر دائیں بازو کی انتہاپسند تنظیموں سے نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس بناء پر منور حسن نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ منور حسن انتہاپسندوں سے مقابلے میں دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے یا وہ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی پیروی کرسکیں گے۔ ترکی کے وزیر اعظم طیب اردوان اپنی لبرل پالیسیوں کی بناء پر نہ صرف ترکی کے مزدور طبقے کی ترجمانی کررہے ہیں بلکہ متوسط طبقے کی آواز بھی بن گئے ہیں۔
Load Next Story