جن برف اور کنٹینر
اہل اقتدار کی مسند کی کیلیں اب عوام کے کندھوں کو اتنا زخمی کر چکی ہیں کہ وہ درد کی شدت سے ہِل بھی نہیں سکتے
طویل عرصے کی مسلسل اطاعت اور نمائشی وفاداری ہمارے خطے کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں ہمارے مسائل ہمارے سامنے مہیب صورت لیے کھڑے ہیں اور ہمارے پاس ان کا کوئی حل نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم اب تقریبا بے بس ہو چکے ہیں۔ اہل اقتدار کی مسند کی کیلیں اب عوام کے کندھوں کو اتنا زخمی کر چکی ہیں کہ وہ درد کی شدت سے ہِل بھی نہیں سکتے۔ عام آدمی اور اس کے خاندان کے مسائل کا قد زمین اور آسمان کے درمیان فاصلے سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ خود بالشت بھر کا ہو کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف جھوٹ اور عامیانہ باتوں کا ایک سیلاب ہے جو ہر ایک کو یقین دلا رہا ہے کہ ہر چیز ٹھیک ہے اور تمام مسائل حل ہونے کے قریب ہیں۔ ہمارے ملک میں جھوٹ ایک آرٹ یا کامل فن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جو اس فن میں ماہر ہے اس کے لیے یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر برزخ میں ہیں تو صرف اور صرف ہمارے عام لوگ ہیں۔ جو کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے ساتھ کیے گئے وعدوں کو؟ اسی تگ و دو میں مبتلا وہ بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہم لوگوں کی اوسط عمر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں سے کافی کم ہے۔
مقصود اور سکندر دونوں بھائی تھے۔ لاہور میں شاہدرہ کے نزدیک ایک معمولی سی آبادی میں رہتے تھے۔ ان کا والد سلیم لاہور ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتا تھا۔ اسے قلی کا کام کرتے ہوئے تقریباََ تیس سال ہو چکے تھے۔ لیکن عمر بڑھنے کی بدولت اب وہ زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ دونوں بھائی اپنے والد کو روز کام پر جاتے دیکھتے تھے۔ شام کو 200 یا 300 روپے ملنے سے چولہا جلتا تھا۔ دوپہر کا کھانا گھر میں سالہا سال سے نہیں بنا تھا۔ مقصود اور سکندر واجبی سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کے والد کا خیال تھا کہ ان دونوں کو قلی بھرتی کرانے سے ان کا مستقبل بن جائے گا اور پھر وہ اپنا بڑھاپا آرام سے گزار سکے گا۔ سلیم کا خاندان مسلسل محنت کرنے کے باوجود بدحالی اور غربت میں سالوں سے پس رہا تھا۔
سلیم اپنے دونوں بیٹوں کی نوکری کی درخواست لے کر ہر طرف پھرتا رہا مگر ان کو کہیں بھی کام نہ مل سکا۔ ان کے محلے میں ایک نائی نصیرالدین کی بہت پرانی دوکان تھی۔ نصیرالدین کسی طریقے سے امریکا پہنچ گیا اور اباس کے گھر کے حالات بالکل بدل چکے تھے۔ دو سال میں اس کا گھر پکا ہو گیا تھا۔ اس کے والد نے موٹر سائیکل بھی خرید لی تھی۔ مقصود نے ایک دن اسے فون کیا اور بتایا کہ وہ پاکستان سے باہر روزگار کے لیے جانا چاہتا ہے۔ نصیرالدین نے اسے گلبرگ میں ایک ایجنٹ کا پتہ دیا اور بتایا کہ وہ اس کی مدد کرے گا۔ دونوں بھائی اُس ایجنٹ سے ملے۔ انھیں بتایا گیا کہ ان کو یورپ بھجوانا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ایک آدمی کو یورپ بھجوانے کی فیس سات لاکھ روپے بنتی تھی۔ دونوں بھائیوں کی فیس چودہ لاکھ روپے بنتی تھی۔ دونوں بھائیوں نے یہ رقم خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔
مسلسل بے روزگاری نے دونوں بھائیوں کو پاگل کر دیا تھا۔ قرضہ، اپنے حصے کا مکان اور پتہ نہیں کس کس طریقے سے ان لڑکوں نے تیرہ لاکھ جمع کر کے ایجنٹ کو دیے۔ یہ تیرہ لاکھ ان کے لیے کیا معنی رکھتے تھے، یہ بات صرف سوچی جا سکتی ہے شاید بیان نہیں کی جا سکتی۔ مقررہ دن پر ایک ویگن کے ذریعے ان دونوں کو بسوں کے اڈے پر لا کر کوئٹہ جانے والی بس میں بٹھایا گیا۔ وہ لاہور سے تقریباََ 24 گھنٹے میں کوئٹہ پہنچے۔ وہاں انھیں ایک شخص لینے آیا ہوا تھا۔ وہ بغیر آرام کیے ہوئے پھر بس میں سوار ہوئے جو انھیں طویل سفر کے بعد ایران اور پاکستان کے بارڈر پر ایک گائوں تک لے آئی۔ یہاں انھیں ایک کیمپ میں رکھا گیا۔ وہ تقریباََ بیس لوگ تھے جن میں بنگلہ دیشی، افغان اور افریقی نسل کے اشخاص تھے۔ جس شخص نے انھیں کوئٹہ سے ساتھ لیا تھا، اب وہ ان تمام کو ایک ایرانی شخص کے حوالے کر کے ایک دم غائب ہو گیا۔ وہ ایرانی ان کو روز کہتا تھا کہ آج رات کو ایران جانا ہے۔ وہ تمام رات جاگتے تھے اور پھر انھیں یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ آج حالات ٹھیک نہیں۔ کل پھر دیکھیں گے۔ اس شخص کا رویہ بھی بہت درشت تھا۔ تمام لوگوں کو برائے نام کھانا دیا جاتا تھا۔ کیمپ میں ہر شخص شدید ذہنی دبائو کا شکار ہو چکا تھا۔
ایک رات تین بجے کے قریب اس ایرانی شخص نے تمام لوگوں کو جمع کیا۔ اندھیرے میں یہ تمام لوگ ایران داخل ہو گئے۔ انھیں کچھ وردی والے ایرانی سپاہی دور سے نظر آئے مگر ان لوگوں کو دیکھ کر ان سپاہیوں نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ ایران کو عبور کرنے میں انھیں کئی دن لگے۔ انھیں صرف رات کو سفر کرنا ہوتا تھا۔ مناب، شیراز اور تہران ہوتے ہوئے تمام لوگ ایک پہاڑی علاقے میں آ گئے۔ یہاں ہر طرف برف جمی ہوئی تھی۔ اور انھیں یہ راستہ پیدل عبور کرنا تھا۔ ان تمام لوگوں کے جوتے برف پر چلنے کے لیے بالکل غیر مناسب تھے۔ مگر برف سے منجمد پہاڑوں کے دوسری طرف ترکی تھا اور انھیں یہ رات کو ہی کراس کرنے تھے۔ برف پر کئی گھنٹے چلنے سے دونوں بھائیوں کے پیر سُن ہو گئے۔ ان کی پیروں کی انگلیوں میں خون جم چکا تھا۔ مگر ابھی کئی گھنٹے کا راستہ مزید طے کرنا تھا۔
ایک دم کہیں سے زور زور سے چلانے کی آواز آنی شروع ہو گئی۔ اس قافلہ کو کچھ فوجیوں نے دیکھ لیا تھا۔ اچانک گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ قافلے میں سے لوگ گرنے لگے۔ سکندر ایک دم برف کے اندر لیٹ گیا۔ ان نے اپنے اوپر بھی برف ڈال لی۔ آدھے گھنٹے تک وہ برف میں لیٹا رہا۔ گولیاں بند ہوئیں تو اسے پتہ چلا کہ اُس کا بھائی شدید زخمی ہو چکا ہے۔ تقریباََ 8 آدمی مر چکے تھے۔ سکندر کو اِس جگہ کہا گیا کہ وہ اپنے بھائی کو چھوڑ کر نکلے کیونکہ اس کے بھائی کو آگے نہیں لے جایا جا سکتا۔ اسے رونے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ اس نے مقصود کو غور سے دیکھا اور آگے چل پڑا۔ اُس وقت تک مقصود بے ہوش ہو چکا تھا اور اس کے جسم کے ارد گرد سفید برف اس کے خون سے لال ہو چکی تھی۔ قافلہ پھر چلتا رہا اور اب وہ تُرکی میں داخل ہو چکے تھے۔
ان کے ایرانی ایجنٹ نے انھیں ایک ترک شخص کے حوالے کر دیا۔ سکندر بالکل بے حس ہو چکا تھا۔ اس کا جسم سردی کی وجہ سے نیلا ہو چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں مر جائے گا۔ مگر وہ زندہ رہا۔ اب وہ بارہ لوگ تھے۔ انھیں ایک گائوں کے گھر میں لے جایا گیا۔ وہاں انھیں معمولی طبی امداد دی گئیں اور کپڑے سکھانے کے لیے دس بارہ گھنٹے دیے گئے۔
رات کے سناٹے میں ان تمام لوگوں کو ایک لوہے کے بڑے کنٹینر میں بند کر دیا گیا۔ اس کو ایک ٹرک کے پیچھے لگا دیا گیا۔ لوہے کے اس کنٹینر میں بہت زیادہ سامان تھا۔ یہ کپڑے سے بھرا ہوا تھا۔ ان کپڑوں کو اس ترتیب سے لگایا گیا تھا کہ کنٹینر کے اگلے حصے میں کچھ فٹ جگہ بچ جائے۔ یہاں یہ تمام لوگ بغیر کسی آواز کے دبک کر بیٹھے تھے۔ یہ سفر تقریباََ چوبیس گھنٹے کا تھا۔ اس ٹرک کو کئی بار روکا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اس کو جانے کی اجازت مل جاتی۔ وہ تمام لوگ اب ترکی کے ایک شہر ایڈرنے میں موجود تھے۔ یہاں انھیں ایک بڑے سے گھر میں بند کر دیا گیا۔ انھیں اس گھر کئی دن رہنا پڑا۔
اس شہر کے نزدیک سے ایک دریا "ایوروس" گزرتا تھا۔ ایک رات کو ان تمام لوگوں کو دریا کے کنارے لایا گیا۔ ہر دو اشخاص کو پلاسٹک میں لپٹا ہوا ایک موبائل فون اور60 یورو دیے گئے۔ دریا میں ایک ربڑ کی کشتی موجود تھی۔ تمام لوگوں کو جانوروں کی طرح اس کشتی میں ٹھونس دیا گیا۔ لیکن اب سکندر کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ وہ مکمل بے حس ہو چکا تھا۔ اس کشتی کو دریا میں دھکیل کر تمام ایجنٹ ایک دم غائب ہو گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ دریا کے پار وہ یونان میں داخل ہو جائینگے۔
دریا کے آدھے راستے میں ایک دم بارڈر پولیس نے ان تمام لوگوں کو دیکھ لیا۔ ان کو روکنے کے لیے ایک فوجی کشتی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ مگر وہ نہ رکے کیونکہ انھیں ہر صورت میں دریا پار کرنا تھا۔ دریا کی تیز لہروں سے کشتی اپنا توازن کھو چکی تھی۔ اب وہ دریا کی تندی کے سامنے بے بس تھے۔ ان کے پانچ ساتھی لہروں کی نظر ہو چکے تھے۔ پولیس نے بڑی تگ ودو سے ان میں سے سات اشخاص کو بچا لیا۔ ان تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا اور انھیں جیل میں دو ماہ کے لیے قید کر دیا گیا۔ عدالت میں پیش ہونے پر انھیں تیس دن کا ویزہ دیا گیا تا کہ وہ ملک چھوڑ سکیں۔ اور انھیں ایتھنز پہنچا دیا گیا۔
سکندر ایتھنز میں رہتا ہے اور وہاں کی ایک مارکیٹ میں استعمال شدہ چینی سامان بیچتا ہے۔ مہینے کے تین سو یورو کے قریب کما لیتا ہے۔ وہ پولیس کو دیکھ کر چھپ جاتاہے۔ ایتھنز میں سکندر کی طرح کے ایک لاکھ لوگ موجود ہیں جن میں سیکڑوں پاکستانی ہیں۔ یہ تمام لوگ ڈر اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ موت کی وادی کو عبور کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ یہ ہر وقت پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔ وہ واپس جانا چاہتے ہیں مگر جا نہیں سکتے۔ سکندر کو اب مقامی زبان آ چکی ہے۔ وہ چھ سال سے یہاں ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری کا جن انھیں زندہ نہیں رہنے دیتا۔ وہ، اس جن سے بچنے کے لیے لوہے کے کنٹینر میں بند ہو کر یورپ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں انھیں غیر قانونی شہری ہونے کا خوف ہر روز مارتا ہے۔ ہمارے بے روز گار نوجوان آخر کریں بھی، تو کیا کریں؟ اس آگ کو تو صرف شخص وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا اپنا بدن جل رہا ہو؟