حصول اقتدار کی بے لگام خواہش

2008ء میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پی پی پی چونکہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی اس لیےعوام نے اسے مسترد کر دیا

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

بورژوا سیاست میں سیاست دانوں کی اولین ترجیح حصول اقتدار ہوتی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سیاست دانوں کی اولین ترجیح حصول اقتدار ہی ہوتی تھی لیکن ان ملکوں میں سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل کے حل کے لیے عوام کے سامنے جو منشور پیش کرتی ہیں اس پر عمل در آمد کی کوشش اس لیے کرتی ہیں کہ ان ملکوں کے عوام کی نظر انتخابی منشور پر ہوتی ہے اگر عوام کی حمایت سے اقتدار میں آنے والی جماعت اپنے منشور پر عمل درآمد نہیں کرتی تو دوسرے الیکشن میں عوام اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ یہی خوف ترقی یافتہ ملکوں کے حکمرانوں کو عوامی مسائل کے حل کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ان ملکوں میں نہ خاندانی سیاست ہوتی ہے نہ موروثی اقتدار کا کوئی تصور ہوتا ہے جب حکمران اپنی آئینی مدت پوری کر لیتے ہیں تو وہ سیاست کو خدا حافظ کہہ کر غیر سیاسی مصروفیات میں اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ہر جماعت میں متبادل قیادت موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک صدر یا وزیر اعظم کے جانے سے کوئی سیاسی خلاء پیدا نہیں ہوتا۔

2008ء میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پی پی پی چونکہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی اس لیے 2013ء کے الیکشن میں عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ عوام کی طرف سے مسترد کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی میں کوئی ایسی متبادل قیادت موجود نہ تھی جس پر عوام اعتماد کرتے۔ پی پی پی کے بعد ہماری سیاسی زندگی میں متبادل مسئلہ کھڑا ہوا۔ مسلم لیگ (ن) چونکہ دو بار اقتدار میں رہی تھی اور وہ بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی تھی اس لیے عوام کسی ایسی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے تھے جو ان کے مسائل حل کرنے میں مخلص ہو اور آزمائی ہوئی نہ ہو۔ عمران خان چونکہ اقتدار سے باہر رہے تھے لہٰذا عمران خان میں عوام کی دلچسپی بڑھتی گئی، انتخابی مہم کے دوران عمران خان کے بڑے بڑے جلسے عوام کی اسی دلچسپی اور امید کے مظہر تھے۔ لیکن بد قسمتی سے عمران خان کی ممکنہ کامیابی کی امید نے سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو تحریک انصاف کی طرف اس طرح دھکیلا کہ بالا دست طبقات کے بدنام سیاسی رہنمائوں نے تحریک انصاف میں نہ صرف اپنی جگہ بنا لی بلکہ عمران خان کے دست و بازو بن گئے۔

ہمارا میڈیا چونکہ بہت فعال ہو گیا ہے۔ سو اس نے تحریک انصاف میں محض اقتدار کے لیے آنے والے موسمی پرندوں کی نقاب کشائی اس موثر انداز میں کی کہ عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان اور ان کی جماعت سے مایوس ہوتی گئی۔ عمران خان کی ایک بہت بڑی نظریاتی کمزوری یہ رہی ہے کہ ان کا جھکائو دائیں بازو کی ان جماعتوں کی طرف رہا ہے جنھیں عوام 66 سال سے مسترد کرتے آ رہے ہیں۔ اس پالیسی کی وجہ عمران خان کی قریب آنے والا نوجوان طبقہ بھی بِدک گیا۔ وہ عمران خان کی اس غیر منطقی سیاست سے حیران تھے کہ عمران خان ایک نیا پاکستان بنانے کے دعوے کے ساتھ ان جماعتوں کے قریب ہو رہے تھے جو پرانے پاکستان کو پتھر کے دور میں لے جانے کی سعی کر رہی ہیں۔ عمران کی اس غیر منطقی سیاست سے عوام ہی نہیں وہ اہل دانش بھی مایوس ہو گئے جو عمران خان کو ایک نسبتاً بہتر متبادل سمجھ رہے تھے۔

ادھر بڑے بڑے انتخابی جلسوں اور میڈیا کی کوریج نے عمران خان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ وہ 2013ء کے الیکشن میں عوام کو فتح کر کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ انھیں ان حقائق کا ادراک نہیں تھا جو عوام کی قبل از وقت مایوسی اور مسلم لیگ (ن) سے عوام کو کوئی امید نہ تھی لیکن عمران خان کی سیاست اور میاں برادران کی ''پھرتیوں'' نے 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کو صرف خیبر پختونخوا تک محدود کر دیا۔ یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پختونخوا میں 2002ء کے الیکشن میں بھی ایسی سیاسی جماعتوں کو اقتدار ملا تھا جو مذہبی سیاست میں مہارت رکھتی تھیں۔ پختونخوا چونکہ ابھی تک قبائلی نظام سے آزاد نہیں ہو سکا اسی لیے اس صوبے کے عوام فکری طور پر منتشر الخیال تھے۔ اے این پی کی ناکام حکمرانی نے انھیں عمران خان کو آزمانے کی ترغیب فراہم کی یوں تحریک انصاف پختونخوا میں برسر اقتدار آنے میں کامیاب تو ہوئی لیکن یہاں بھی اس کی اتحادی وہ جماعت تھی جو 2002ء میں اس صوبے کے اقتدار میں شریک تھی اور پانچ سالوں میں اپنے وعدوں کے برخلاف ایک بھی شرعی قانون نافذ نہ کر سکی تھی۔


یہ پاکستان ہی کا المیہ نہیں بلکہ ہماری تاریخ کا بھی المیہ رہا ہے کہ ہمارے ماضی کے حکمران حصول اقتدار کے لیے اپنے بھائیوں، بیٹوں اور اپنے ہم مذہبوں کے سر کاٹنے سے بھی تردد نہیں کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں اقتدار کے لیے سر کاٹنے والی طاقتیں اس شدت سے ابھری ہیں کہ انھوں نے اس بے لگام بے سمت خواہش کی تکمیل میں اب تک پچاس ہزار بے گناہ ہم مذہب، ہم وطنوں کے سر کاٹ دیے ہیں اور عوام کی بھاری اکثریت اس نئی سیاست سے متنفر ہے، عمران خان کی موجودہ سیاست کو ہم کیا نام دیں کہ وہ محض اقتدار کی خاطر ایک ایسے خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں جس راستے کے راہروئوں کی سیاسی شریعت میں جمہوریت سیاست قانون اور انصاف سب کھڑے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کس امید پر اس انتہائی خطرناک راستے کے مسافر بن رہے ہیں۔

2002ء میں مذہبی جماعتوں نے افغانستان میں امریکا کی آمد کے خلاف شور شرابا کر کے عوام کی حمایت حاصل کی تھی اور ہمارے سیاسی کپتان امریکا کی افغانستان سے واپسی میں کھنڈت ڈال کر مقبول ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ڈرون کو مار گرانے اور نیٹو سپلائی کو روکنے کے پروگرامات کے ساتھ وہ جو اینٹی امریکا سیاست کر رہے ہیں اس کی کامیابی کے امکانات کئی حوالوں سے نہ صرف مفقود ہیں بلکہ یہ اقدامات پاکستان کی تباہی میں آخری کھیل ثابت ہو سکتے ہیں۔ امریکا کی سب سے بڑی مخالف قوتیں نظریاتی رہی ہیں وہ امریکا کی مخالفت اس کے سامراجی کردار کی وجہ سے کرتی ہیں نہ کہ سیاسی ضرورتوں کی خاطر۔ لیکن ہمارے سیاسی کپتان کی امریکا مخالفت کی وجہ اس کا سامراجی کردار اور اس کی سرمایہ دارانہ نظام کی سرپرستی نہیں بلکہ اس کے ڈرون ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی ڈرون سے کچھ بے گناہ شہری بھی مارے جا رہے ہیں اور ان بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے خلاف آواز اٹھانا ہر محب وطن شہری کی ذمے داری ہے لیکن عوام یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ ڈرون حملوں سے 6 سال میں67 بے گناہوں کی شہادت کے خلاف پاکستان کے لیے بد ترین مشکلات پیدا کرنے والے سیاست دانوں کو وہ پچاس ہزار بے گناہ شہریوں کی لاشیں نظر نہیں آ رہی ہیں جن کا خون جن کے اعضاء خیبر سے کراچی تک بکھرے ہوئے ہیں عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ عمران خان ان پچاس ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں نہ ان کے قاتلوں کے خلاف کوئی دھرنا، کوئی مظاہرہ کرتے ہیں نہ ان کا ذکر اپنی زبان پر لاتے ہیں تو وہ حیرت سے عمران خان کی اس جانبدارانہ سیاست کو دیکھ رہے ہیں جو اقتدار کی خاطر پاکستان کو ایسے خطرات میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے جو معاشی طور پر بدحال سیاسی طور پر منتشر اور دہشت گردی کے حوالے سے تباہی کے کنارے کھڑا ہے۔ پاکستان کے عوام دس سالہ دہشت گردی سے عاجز آ گئے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اس دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔ عمران خان اس بے لگام دہشت گردی کو روکنے کے لیے مذاکرات کو واحد راستہ سمجھ رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں۔ عوام ان کی امیدوں کی قدر کرتے ہیں اور امن کے لیے مذاکرات کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ اس یکطرفہ جنگ کا دوسرا فریق ''پاکستان کی امریکی غلام حکومت'' سے بات کرنے ہی کو گناہ سمجھتا ہے تو عمران خان کی مذاکرات کی کوششوں کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟

اقتدار کی خواہش ہر سیاست دان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے لیکن اس خواہش کی کچھ حدیں ہوتی ہیں جو ملکی سالمیت، ملکی آئین اور عوام کے مستقبل پر آ کر رک جاتی ہے۔ لیکن ہماری تاریخ کا المیہ یہی رہا ہے کہ ہماری پوری تاریخ حصول اقتدار کے لیے تمام انسانی حدیں پار کرنے کی تاریخ ہے کیا عمران خان اسی تاریخ کو دہرانے جا رہے ہیں۔ یا وہ ملکی بقاء، عوام کے مستقبل کی حد پر آ کر رک جائیں گے۔ اس کا جواب زیادہ دور نہیں عمران خان کو بہر حال اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ جس طوفان کو روکنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں وہ طوفان نہ حکومت کو مانتا ہے نہ سیاست کو نہ آئین کو نہ قانون کو وہ ان تمام عناصر کو کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ پھر عمران خان کا اپنا مستقبل اور اقتدار میں آنے کی خواہش کا کیا ہو گا...؟
Load Next Story