ساٹھ سال کے بزنس مین
انسان آگے بڑھنا چاہتاہے۔ وہ عمر کے چھ سات عشرے گزارنے کے باوجود بھی مرنا نہیں چاہتا اور نہ اس کی تیاری کرتاہے
جمیل صاحب دفتر میں بیٹھے تھے اور وہ راز بتارہے تھے جو شاید ان کے بیوی بچوں کے علم میں بھی نہ ہو۔ فیملی اور سول کے مقدمات کے وکلاء کو تو موقع ملتا ہے کہ وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ سکیں۔ جمیل اختر کی عمر ساٹھ سال ہے اور وہ کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کے دیے گئے مشورے سے نہ صرف بزنس مین بلکہ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھنے والا ہر شخص فائدہ اٹھاسکتاہے۔ نازک معاشرتی مسائل سے واقفیت شاید لیبرکسٹم، فوجداری اور انکم ٹیکس کے وکلاء کو نہ ہو، ڈاکٹر سے جسمانی مرض اور ماہر تعمیرات سے سیمنٹ اور لوہے تک کی گفتگو ہوتی ہے۔ آیئے جب قدرت نے کالے کوٹ اور قلم کی یکجائی نصیب کی ہے تو کیوں نہ اس کا حق ادا کیاجائے۔
زندگی کے چھ عشرے گزارنے والے نے بڑا وقت بھائی کے ساتھ شراکت داری میں گزارا۔ دونوں بھائی ایک ایک دکان لے کر الگ ہوئے تب ان کے بچے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ اب جب وہ ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں اور نانا دادا بن چکے ہیں تو دوسری دکان کی خریداری کی نوبت آگئی ہے۔ دوسری دکان کس کے نام ہوکہ دونوں بھائیوں میں آگے چل کر اختلاف پیدا نہ ہو؟ وہ صرف ایک سوال تک محدود تھے لیکن جب ان کی توجہ دوسرے معاملات پر دلائی گئی تو حیرانی لازم تھی۔
ایک بیوی، دوبیٹوں اور تین بیٹیوں کے خاندان کے ساٹھ سالہ سربراہ کو بس ایک ہی فکر تھی۔ دوسری دکان کس بیٹے کے نام لی جائے؟ ایک کے نام یا دونوں کے نام؟ ان کا دھیان اپنے گھر کی چار خواتین کی جانب بالکل نہ تھا۔ انھوںنے اپنی بیگم اور تین شادی شدہ بیٹیوں کو وراثت کی تقسیم کے حوالے سے بالکل نظر انداز کیا ہوا تھا۔ ان کو مشورہ دیا گیا کہ نئی دکان دونوں بیٹوں کے نام لیں تاکہ توازن رہے۔ اس جواب پر وکیل اور جمیل کا اتفاق تھا۔
جب کہا گیا کہ اب نہ کوئی نئی دکان لیں، نہ نیا کاروبار شروع کریں اور نہ موجود کاروبار کو مزید پھیلائیں۔ اس مشورے پر جمیل صاحب کا اتفاق نہ تھا۔ وہ حیران تھے کہ انھیں ترقی کرنے سے رک جانے کا کیوں مشورہ دیا جارہا ہے۔ نیا کاروبار کیوں نہ؟ کیا زندگی منجمد ہوجائے؟ بیوپار کا تو کوئی پار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کا نام ہے۔ انھوں نے کہاکہ والد کے دور میں ایک دکان تھی۔ ہم دونوں بھائی بڑے ہوئے تو ہمارے پاس ایک ہی دکان رہی۔ اب جب میرے دونوں بیٹے شادی شدہ ہیں تو ان کی بھی ایک دکان فی کس ہوگی۔ آگے بڑھنے کے باوجود ہم نصف صدی سے ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔ نشوونما کے باوجود ہم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ جواب تھا کہ پوزیشن پر کاروباری شخص کا بحال رہنا بھی ارتقا ہے۔ چند رشتے داروں کے حالات بتائے کہ کس طرح ٹیکسٹائل مل کے مالک کے بچے ٹھیلا لگارہے ہیں۔ انھیں یاد دلایا کہ برادری میں بیس برس قبل غریبوں کی مدد کرنے والے کوئی اور تھے اور آج کوئی اور ہیں۔ دینے کے مرتبے پر فائز لوگ لینے کے مقام تک آگئے ہیں۔
پیسہ کمانے اور ترقی کرنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔ میرے مشورے کی نوعیت کچھ اور ہے، موکل کو صلاح دی کہ اب آپ ایسے چیزوں میں سرمایہ نہ لگائیں جو غیر متحرک ہوں۔ آپ کا کہنا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد نہ خریدیں۔ جی ہاں! میرا مشورہ ہر ساٹھ سالہ شخص کو یہی ہے کہ وہ ایسی جائیداد خریدنے سے پرہیز کرے جو چل نہ سکتی ہو اور ہل نہ سکتی ہو۔ اگر آپ کی بیٹیاں بھی ہیں تو سرمایہ کاری ایسی جگہ کریں جو آسانی سے کیش ہوسکتی ہوں۔ مثلاً کون سی جائیداد؟ یہ حیرت انگیز سوال وہ شخص پوچھ رہا ہے جو تقریباً نصف صدی سے بزنس کی دنیا میں موجود ہے۔ سونا، چاندی، شیئرز، پرائز بانڈ، وہ کیوں؟ اس سال کے جواب کے لیے ہمیں مجبوراً ساٹھ سال کے کاروباری حضرات کی نفسیات کھل کر بیان کرنی پڑی۔
انسان آگے بڑھنا چاہتاہے۔ وہ عمر کے چھ سات عشرے گزارنے کے باوجود بھی مرنا نہیں چاہتا اور نہ اس کی تیاری کرتاہے۔ بادشاہ بھی ایک ملک سے دوسرا ملک اور بزنس مین ایک دکان سے دوسری دکان اور صنعت کار ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے کی دھن میں سوار رہتا ہے۔ وہ اپنی بڑھتی عمر اور اپنے خاندان کے کچھ ممبران کو نظر انداز کرجاتاہے۔ جمیل صاحب! آپ دو چیزوں کو بھول رہے ہیں۔ انھوںنے کہا میں کسے بھول رہا ہوں؟ آپ ہی نہیں بلکہ ہم سب اپنی موت اور اپنے گھر کی خواتین کو بھول جاتے ہیں۔ عمر کی نقدی کم ہورہی ہوتی ہے لیکن ہم دنیا داری میں مگن ہوتے ہیں۔ وقت برف کی طرح پگھل رہا ہوتاہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سنچری تو مکمل کرلیںگے بلکہ ہمیں دو تین سو سال زندہ رہنا ہے۔ ''سامان سو برس کا اور پل کی خبر نہیں'' گاڑیوں اور بنگلے بنانے کی دھن میں ہمیں ہوش کب آتاہے؟ جانتے ہیں جمیل صاحب! وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ جب پہلے کمزوری اور پھر کوئی بڑی بیماری مستقل گلے لگ جاتی ہے۔ ہم غیر متحرک یعنی Immovableمنجمد اور ساکن پراپرٹیاں خریدتے ہیں پھر جب کمزوری میں بچیوں کو وراثت دینے کا سوچتے ہیں تو ہم خود غیر متحرک، منجمد اور ساکن ہوچکے ہوتے ہیں۔ اب بیٹیوں کو وراثت کی تقسیم کے لیے کیش رقم ہمارے پاس ہوتی نہیں جب کہ دکانیں، بنگلے، گودام، گاڑیاں اور کارخانے بیٹوں کے قبضے میں آچکے ہوتے ہیں۔ دولت و طاقت کی موجودگی میں بیٹیوں کے باپ اپنی بات مانے جانے کو فرماں برداری کہتے ہیں۔ گزرتا وقت ساٹھ ستر سالہ بزنس مین کو کمزور اور ان کے چالیس بیالیس سالہ بیٹوں کو طاقتور بنادیتاہے۔
جمیل اختر حیرانی اور گہری سوچ کے ساتھ کرسی پر پہلو بدل رہے تھے۔ جب ان سے کہا کہ ان کرسیوں پر درجنوں بہنیں اپنے بھائیوں اور باپ کے وراثت کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے شکوے کرچکی ہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ہمارے والد سمجھتے تھے کہ وہ ''عمر خضر'' لکھواکر لائے ہیں یا انھوںنے آب حیات پی رکھاہے۔ لوگ اپنے آس پاس نہیں دیکھتے کہ وہ 60 سالہ رخصت ہوا وہ 64سالہ ہٹا کٹا معذور ہوگیا اور وہ 70 سال کا آدمی بستر سے اٹھ نہیں سکتا اور وہ 75 سالہ شخص لکڑی کے سہارے چل رہا ہے ۔ وہ آخری دس پندرہ برسوں میں کام سمیٹنے کے بارے میں نہیں سوچتے، آخر میں ایک اور مثال دینی پڑی جو کہ لازمی تھی۔ جب ہم صبح کو پکنک پر جاتے ہیں تو ہر چیز پھیلادیتے ہیں۔ جب شام ہونے لگتی ہے اور چل چلائو کا وقت ہوتاہے تو کہتے ہیں کہ کپڑے کہاں ہیں۔ چپل کدھر گئی، کولر پکڑلو اور چٹائی لپیٹ لو، زندگی کی صبح جب شام میں ڈھلنے لگتی ہے تو ساٹھ سال کے لوگ احساس نہیں کرتے۔
چل چلائو کے ساتھ سمیٹنے اور لپیٹنے کے وقت میں چھ عشرے گزرنیوال بات ان پر اثر کر گئی۔ انھوں نے پوچھا اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرا سوال تھا کہ اس وقت کاروبار وحساب کتاب و کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہے؟ ان کا جواب ہاں میں تھا۔ یہ ہاں ایک بہت قیمتی شے ہے جو جلد ہی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ اب آپ دوسری دکان کی خریداری کے بعد ٹھہر جائیں۔ گھر و دکان کے اخراجات کے علاوہ تمام نفع اپنی بیگم اور بچوں کو ہی دیں۔ انھوںنے پوچھا اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ آپ سونے کے سکے خرید لیا کریں۔ جب آپ محسوس کریں کہ چار لاکھ کی گنجائش ہے تو بیگم اور تینوں بچیوں کو چپکے سے یہ سکے دے دیں۔ اس طرح چاہے گنجائش بیس لاکھ کی ہو یا ایک کروڑ کی، اسے چار سے تقسیم کرکے اہلیہ اور بچیوں کو دے دیں۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ اسلام تو عورتوں کو وراثت کا حق دیتاہے لیکن مسلمان نہیں دیتا۔
پے در پے پانچ چھ مقدمات میں بہن بیٹیوں کی وراثت سے محرومی نے یہ کالم سپرد قلم کرنے پر مجبور کیا۔ موکل آیا کسی کام سے تھا اور اسے لگاکس پر دیا۔ خواتین کی وراثت کے مسئلے پر حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں اور علما کو توجہ کرنی چاہیے اور خصوصاً ان لوگوں کو جو ہیں ساٹھ سال کے بزنس مین۔
زندگی کے چھ عشرے گزارنے والے نے بڑا وقت بھائی کے ساتھ شراکت داری میں گزارا۔ دونوں بھائی ایک ایک دکان لے کر الگ ہوئے تب ان کے بچے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ اب جب وہ ساٹھ سال کے ہوچکے ہیں اور نانا دادا بن چکے ہیں تو دوسری دکان کی خریداری کی نوبت آگئی ہے۔ دوسری دکان کس کے نام ہوکہ دونوں بھائیوں میں آگے چل کر اختلاف پیدا نہ ہو؟ وہ صرف ایک سوال تک محدود تھے لیکن جب ان کی توجہ دوسرے معاملات پر دلائی گئی تو حیرانی لازم تھی۔
ایک بیوی، دوبیٹوں اور تین بیٹیوں کے خاندان کے ساٹھ سالہ سربراہ کو بس ایک ہی فکر تھی۔ دوسری دکان کس بیٹے کے نام لی جائے؟ ایک کے نام یا دونوں کے نام؟ ان کا دھیان اپنے گھر کی چار خواتین کی جانب بالکل نہ تھا۔ انھوںنے اپنی بیگم اور تین شادی شدہ بیٹیوں کو وراثت کی تقسیم کے حوالے سے بالکل نظر انداز کیا ہوا تھا۔ ان کو مشورہ دیا گیا کہ نئی دکان دونوں بیٹوں کے نام لیں تاکہ توازن رہے۔ اس جواب پر وکیل اور جمیل کا اتفاق تھا۔
جب کہا گیا کہ اب نہ کوئی نئی دکان لیں، نہ نیا کاروبار شروع کریں اور نہ موجود کاروبار کو مزید پھیلائیں۔ اس مشورے پر جمیل صاحب کا اتفاق نہ تھا۔ وہ حیران تھے کہ انھیں ترقی کرنے سے رک جانے کا کیوں مشورہ دیا جارہا ہے۔ نیا کاروبار کیوں نہ؟ کیا زندگی منجمد ہوجائے؟ بیوپار کا تو کوئی پار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کا نام ہے۔ انھوں نے کہاکہ والد کے دور میں ایک دکان تھی۔ ہم دونوں بھائی بڑے ہوئے تو ہمارے پاس ایک ہی دکان رہی۔ اب جب میرے دونوں بیٹے شادی شدہ ہیں تو ان کی بھی ایک دکان فی کس ہوگی۔ آگے بڑھنے کے باوجود ہم نصف صدی سے ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔ نشوونما کے باوجود ہم نے کوئی ترقی نہیں کی۔ جواب تھا کہ پوزیشن پر کاروباری شخص کا بحال رہنا بھی ارتقا ہے۔ چند رشتے داروں کے حالات بتائے کہ کس طرح ٹیکسٹائل مل کے مالک کے بچے ٹھیلا لگارہے ہیں۔ انھیں یاد دلایا کہ برادری میں بیس برس قبل غریبوں کی مدد کرنے والے کوئی اور تھے اور آج کوئی اور ہیں۔ دینے کے مرتبے پر فائز لوگ لینے کے مقام تک آگئے ہیں۔
پیسہ کمانے اور ترقی کرنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔ میرے مشورے کی نوعیت کچھ اور ہے، موکل کو صلاح دی کہ اب آپ ایسے چیزوں میں سرمایہ نہ لگائیں جو غیر متحرک ہوں۔ آپ کا کہنا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد نہ خریدیں۔ جی ہاں! میرا مشورہ ہر ساٹھ سالہ شخص کو یہی ہے کہ وہ ایسی جائیداد خریدنے سے پرہیز کرے جو چل نہ سکتی ہو اور ہل نہ سکتی ہو۔ اگر آپ کی بیٹیاں بھی ہیں تو سرمایہ کاری ایسی جگہ کریں جو آسانی سے کیش ہوسکتی ہوں۔ مثلاً کون سی جائیداد؟ یہ حیرت انگیز سوال وہ شخص پوچھ رہا ہے جو تقریباً نصف صدی سے بزنس کی دنیا میں موجود ہے۔ سونا، چاندی، شیئرز، پرائز بانڈ، وہ کیوں؟ اس سال کے جواب کے لیے ہمیں مجبوراً ساٹھ سال کے کاروباری حضرات کی نفسیات کھل کر بیان کرنی پڑی۔
انسان آگے بڑھنا چاہتاہے۔ وہ عمر کے چھ سات عشرے گزارنے کے باوجود بھی مرنا نہیں چاہتا اور نہ اس کی تیاری کرتاہے۔ بادشاہ بھی ایک ملک سے دوسرا ملک اور بزنس مین ایک دکان سے دوسری دکان اور صنعت کار ایک کارخانے سے دوسرے کارخانے کی دھن میں سوار رہتا ہے۔ وہ اپنی بڑھتی عمر اور اپنے خاندان کے کچھ ممبران کو نظر انداز کرجاتاہے۔ جمیل صاحب! آپ دو چیزوں کو بھول رہے ہیں۔ انھوںنے کہا میں کسے بھول رہا ہوں؟ آپ ہی نہیں بلکہ ہم سب اپنی موت اور اپنے گھر کی خواتین کو بھول جاتے ہیں۔ عمر کی نقدی کم ہورہی ہوتی ہے لیکن ہم دنیا داری میں مگن ہوتے ہیں۔ وقت برف کی طرح پگھل رہا ہوتاہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سنچری تو مکمل کرلیںگے بلکہ ہمیں دو تین سو سال زندہ رہنا ہے۔ ''سامان سو برس کا اور پل کی خبر نہیں'' گاڑیوں اور بنگلے بنانے کی دھن میں ہمیں ہوش کب آتاہے؟ جانتے ہیں جمیل صاحب! وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ جب پہلے کمزوری اور پھر کوئی بڑی بیماری مستقل گلے لگ جاتی ہے۔ ہم غیر متحرک یعنی Immovableمنجمد اور ساکن پراپرٹیاں خریدتے ہیں پھر جب کمزوری میں بچیوں کو وراثت دینے کا سوچتے ہیں تو ہم خود غیر متحرک، منجمد اور ساکن ہوچکے ہوتے ہیں۔ اب بیٹیوں کو وراثت کی تقسیم کے لیے کیش رقم ہمارے پاس ہوتی نہیں جب کہ دکانیں، بنگلے، گودام، گاڑیاں اور کارخانے بیٹوں کے قبضے میں آچکے ہوتے ہیں۔ دولت و طاقت کی موجودگی میں بیٹیوں کے باپ اپنی بات مانے جانے کو فرماں برداری کہتے ہیں۔ گزرتا وقت ساٹھ ستر سالہ بزنس مین کو کمزور اور ان کے چالیس بیالیس سالہ بیٹوں کو طاقتور بنادیتاہے۔
جمیل اختر حیرانی اور گہری سوچ کے ساتھ کرسی پر پہلو بدل رہے تھے۔ جب ان سے کہا کہ ان کرسیوں پر درجنوں بہنیں اپنے بھائیوں اور باپ کے وراثت کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کے شکوے کرچکی ہیں۔ وہ کہتی تھیں کہ ہمارے والد سمجھتے تھے کہ وہ ''عمر خضر'' لکھواکر لائے ہیں یا انھوںنے آب حیات پی رکھاہے۔ لوگ اپنے آس پاس نہیں دیکھتے کہ وہ 60 سالہ رخصت ہوا وہ 64سالہ ہٹا کٹا معذور ہوگیا اور وہ 70 سال کا آدمی بستر سے اٹھ نہیں سکتا اور وہ 75 سالہ شخص لکڑی کے سہارے چل رہا ہے ۔ وہ آخری دس پندرہ برسوں میں کام سمیٹنے کے بارے میں نہیں سوچتے، آخر میں ایک اور مثال دینی پڑی جو کہ لازمی تھی۔ جب ہم صبح کو پکنک پر جاتے ہیں تو ہر چیز پھیلادیتے ہیں۔ جب شام ہونے لگتی ہے اور چل چلائو کا وقت ہوتاہے تو کہتے ہیں کہ کپڑے کہاں ہیں۔ چپل کدھر گئی، کولر پکڑلو اور چٹائی لپیٹ لو، زندگی کی صبح جب شام میں ڈھلنے لگتی ہے تو ساٹھ سال کے لوگ احساس نہیں کرتے۔
چل چلائو کے ساتھ سمیٹنے اور لپیٹنے کے وقت میں چھ عشرے گزرنیوال بات ان پر اثر کر گئی۔ انھوں نے پوچھا اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میرا سوال تھا کہ اس وقت کاروبار وحساب کتاب و کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہے؟ ان کا جواب ہاں میں تھا۔ یہ ہاں ایک بہت قیمتی شے ہے جو جلد ہی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ اب آپ دوسری دکان کی خریداری کے بعد ٹھہر جائیں۔ گھر و دکان کے اخراجات کے علاوہ تمام نفع اپنی بیگم اور بچوں کو ہی دیں۔ انھوںنے پوچھا اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ آپ سونے کے سکے خرید لیا کریں۔ جب آپ محسوس کریں کہ چار لاکھ کی گنجائش ہے تو بیگم اور تینوں بچیوں کو چپکے سے یہ سکے دے دیں۔ اس طرح چاہے گنجائش بیس لاکھ کی ہو یا ایک کروڑ کی، اسے چار سے تقسیم کرکے اہلیہ اور بچیوں کو دے دیں۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ اسلام تو عورتوں کو وراثت کا حق دیتاہے لیکن مسلمان نہیں دیتا۔
پے در پے پانچ چھ مقدمات میں بہن بیٹیوں کی وراثت سے محرومی نے یہ کالم سپرد قلم کرنے پر مجبور کیا۔ موکل آیا کسی کام سے تھا اور اسے لگاکس پر دیا۔ خواتین کی وراثت کے مسئلے پر حقوق نسواں کی علم بردار تنظیموں اور علما کو توجہ کرنی چاہیے اور خصوصاً ان لوگوں کو جو ہیں ساٹھ سال کے بزنس مین۔