فیصلے کا انتظار

آج کراچی کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے لیے 10 ہزار بسیں اور منی بسیں اور 29000 رکشاؤں کی غیر معیاری سہولیات ہیں۔


Adnan Ashraf Advocate November 17, 2013
[email protected]

ایک اخباری سروے میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں ملازمت پیشہ خواتین، طالبات اور گھریلو خواتین کی 12 لاکھ سے زائد تعداد روزانہ سفر کرتی ہے۔ نیشنل ورکر فیڈریشن کے مطابق کراچی میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی خاصی تعداد پرائیویٹ گاڑیاں بک کروا کر سفر کرتی ہے چنگ چی رکشہ ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق کراچی میں 23000 سے زائد چنگ چی جب کہ 6000 سے زائد سی این جی رکشہ چل رہے ہیں جن میں 60% سے زائد خواتین سفر کرتی ہیں اور خود کو نسبتاً زیادہ محفوظ تصور کرتی ہیں۔ لوکل ٹرین جو 1999 میں ختم کردی گئی تھی اس سے روزانہ ڈھائی لاکھ خواتین سفر کرتی تھیں ان میں خواتین کے مخصوص ڈبے ہوا کرتے تھے۔

ایک زمانے میں سرکاری بسیں، سرکلر ٹرین اور ٹرامیں کراچی میں سفر کا آسان، آرام دہ اور باکفایت سفر سمجھا جاتا تھا جن میں خواتین کے کمپارٹمنٹس ہوا کرتے تھے۔ طلبا کو رعایتی کرایوں کی سہولت ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہ سب ماضی کی یادیں بن چکی ہیں جس کی وجہ سے خواتین، بچے، بزرگ اور طلبا خاص طور پر بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ منی بسوں اور کوچز میں تو خواتین و بچوں کی بری درگت بنتی ہے چنگ چی رکشاؤں پر غور کریں تو خواتین گردن موڑے، نگاہیں نیچی یا ادھر ادھر کیے طویل سفر کرنے پر مجبور نظر آتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین سے بدسلوکی اور انھیں ہراساں کرنے کا عمل برسر عام کیا جاتا ہے۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں تو خواتین کو دیکھ کر راستہ یا نشست دے دینے، نگاہیں نیچی کر لینے اور بزرگوں کے لیے کھڑا ہوجانے کی روایات تھیں جو نفسا نفسی، اخلاقی پستی، بد امنی اور لاقانونیت کی نظر ہوگیا ہے۔

آج کراچی کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کے لیے 10 ہزار بسیں اور منی بسیں اور 29000 رکشاؤں کی غیر معیاری سہولیات ہیں۔ وزیر ترقی و نسواں اور سماجی بہبود نے کہا ہے کہ حکومت ان مسائل سے بخوبی آگاہ ہے مختلف اقدامات کر رہی ہے خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات پر فوری ایکشن لیا جائے گا خواتین کے مسائل کے حل اور خصوصاً سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے سندھ اسمبلی میں قانون سازی کی جائے گی۔ ایم این اے کشور زہرہ نے بھی حکومت سے بسوں میں خواتین کے لیے چوتھائی نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ خواتین اسمبلی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اسمبلی میں قانون سازی کریں گے۔ ہمارے ارباب اختیار کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ ہر برائی کو پچھلوں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور ہر اچھائی کو مستقبل اور قانون سازی سے مشروط کرکے یا نمائشی قسم کی قانون سازی کرکے عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ برائی موثر بہ ماضی اور اچھائی مشروط بہ مستقبل کی اس تان نے عوام کا حال تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسائل صرف طاقت یا سیاسی اثر و رسوخ، پشت پناہی یا وابستگی رکھنے والوں کے ہی حل ہوتے ہیں بلکہ ان کو ناجائز مراعات بھی دے دی جاتی ہیں۔

اس دوہری پالیسی کا ایک رخ پی آئی اے ملازمین کی حالیہ ہڑتالیں تھیں جن سے قومی ایئر لائن کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا اور مسافر نا حق اذیت کا شکار ہوئے۔ دوسرا رخ کالج اساتذہ اور لیڈی ورکرز کو برہنہ کر دینے تشدد اور غیر انسانی اور شرمناک سلوک کرنے کا ہے۔ سندھ کی صوبائی وزیر جو خواتین کے مسائل سے آگاہی کے دعوے کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پر فوری ایکشن لینے اور خواتین کے حقوق کے لیے اسمبلی میں قانون سازی کرنے کی بات کر رہی ہیں اس بات کا جواب دے سکتی ہیں کہ عوام کو سفری سہولیات اور خواتین کے کون سے حقوق کے تحفظ کے لیے اور کیا قانون سازی کریں گی؟ کیا خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پہلے سے موجود قوانین اور حالیہ تحفظ نسواں قانون موجود نہیں ہے اس کا آج تک کہیں اطلاق ہوا؟ پہلے کون سے قانون کے تحت سفری سہولیات فراہم کی جاتی تھیں یا اب کون سی قانونی شقیں آڑے آگئی ہیں جو سفری سہولیات فراہم کرنے میں مانع ہیں یا جن کی بنا پر پہلے سے موجود سفری سہولیات بھی ختم کی جارہی ہیں؟

اخلاقی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ فلمی اداکارائیں اپنی فلموں کی کامیابی کو اللہ کی جانب سے اعتکاف کا انعام قرار دیتی ہیں شوبز اور میڈیا سے متعلق شخصیات کی اخلاق باختہ حرکات پہ عوام بھی ان کی حمایت میں بیانات اور ٹیلی فون کالز کر ڈالتے ہیں۔ اساتذہ اور سینئر ڈاکٹرز کو ان کے شاگر اور ماتحت برسر عام تشدد و تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں کراچی کی ایک یونیورسٹی کے دو چانسلر قتل کیے جاچکے ہیں ایک خاتون ٹیچر کو اس کے شاگردوں نے کلاس میں سرزنش کرنے کی پاداش میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ

دفع مرض کے واسطے بل پیش کیجیے

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض

دل چاہتا تھا کہ ہدیہ دل پیش کیجیے

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق

کہتا ہے ماسٹر سے کہ ''بل'' پیش کیجیے

مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کے اس دور میں ہماری مارکیٹیں کھلونا اسلحہ سے اٹی پڑی ہیں ہم شوق سے انھیں یہ کھلونے دلاتے ہیں۔ معصوم بچے ڈرامہ اور فلمیں دیکھ کر ان کھلونا اسلحوں پر مشقیں کرتے ہیں، ویڈیو اور کمپیوٹر گیمز انھیں تشدد اور مار دھاڑ کے کھیلوں سے مانوس کرتے ہیں اگر کالج یونیورسٹی تک پہنچ جائیں تو سیاسی، لسانی، علاقائی و مذہبی فرقہ ورانہ تنظیموں سے تعلق رکھنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے اگر تعلیم کی بجائے روزگار کی طرف راغب ہوں تو ان کے سامنے کیبل، نیٹ کیفے، آئسکریم پارلرز، منی سینما گھر، رینٹ اے کار اور لینڈ مافیا جیسے فوری اور مرغوب پیشے نظر آتے ہیں حق اور حلال کا پیشہ اور تجارت کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہے۔ کھلے عام بھتہ، تاوان، اغوا، قتل اور کرپشن اور ان کے متبادل دیت، معافی، ڈیل، ری شیڈولنگ نے ایک نیا باب متعارف کروا دیا ہے ۔

خوف و جبر، نسلی و فرقہ وارانہ تقسیم اور اخلاقی بے راہ روی کی اس فضا میں لوگ سچ بولنا تو درکنار سچ سننے کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ اس کی بے جا مخالفت کرنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے۔ ملک اور معاشرہ کس طرف جارہا ہے کسی کو اس طرف سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ حکمراں اور سیاستداں تو بے رحم و ظالم ہیں لیکن عوام بھی خود اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔ ہر شخصیت اور جماعت ہر بدلتے لمحے اپنا موقف تبدیل کرکے سیاسی قلابازیوں کے کرتب دکھا رہی ہے جس سے عوام محظوظ ہورہے ہیں۔ قرآن حدیث اور قومی اکابرین کے مخصوص افکار کو مخصوص مقاصد اور عزائم کے تحت مخصوص زاویے سے دکھایا اور من پسند تشریح و تعبیریں کی جارہی ہیں اصل مسائل اور ہدف کی نظر بندی کرکے نان ایشوز پر توجہ مرکوز کردی گئی ہے۔ ایسے میں ایک قانون پسند اور امن پسند پاکستان اور مسلمان کے لیے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں