آگ اور پانی

’’بی بی! زمانے کو بعد میں دیکھنا پہلے اپنے گھر کو دیکھو، چیخ پکار، شور ہنگامہ۔ گھر کو پورا اسمبلی بناکر رکھ دیا ہے۔‘‘

''ہائے بڑے بڑے لوگ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ کیا ہوگیا ہے زمانے کو۔''

''بی بی! زمانے کو بعد میں دیکھنا پہلے اپنے گھر کو دیکھو، چیخ پکار، شور ہنگامہ۔ گھر کو پورا اسمبلی بناکر رکھ دیا ہے۔''

''کیا کروں بہن بھائیوں میں محبت ہی نہیں رہی ہر وقت غصے میں رہتے ہیں بس موقع چاہیے۔''

''بی بی! اب میری زبان نہ کھلواؤ، جب اپنا کام اور مصلحت ہوتی ہے تو سب ایک ہوجاتے ہیں۔''

''چھوڑو اماں! تمہیں کیا پتہ، سب دکھاوے کی باتیں ہیں اندر سے سب ایک ہیں۔''

''ہائے یہی تو رونا ہے سب ایک ہوجائیں تو پھر گھر پرسکون نہ ہوجائے، مگر گھر کے سکون کی فکر کس کو ہے سب اپنے اپنے مفاد کی سوچ رہے ہیں۔''

''لو بھیا چھوٹی سی بات ہے سب کو اپنی اپنی قبروں میں جانا ہے اس لیے اپنے بارے میں ہی تو سوچیں گے۔ ویسے بھی زمانہ مصروف ہے۔ اپنے لیے وقت نہیں دوسروں کی فکرکون کرے۔''

''ہائے کیسا زمانہ آگیا ہے خود غرضی کا، بھائی بھائی کو نہیں پہچانتا۔ ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔''

''اماں خود ہی سوچو ایک ایوان میں اور دوسرا اپوزیشن میں واہ ۔۔۔ دونوں طرف مزے''

''یہ بتاؤ تمہارے دماغ میں ہر وقت ایوان کیوں رہتا ہے؟''

''واہ یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے ہماری زندگی میں سیاست رچ بس گئی ہے۔ اماں! اب تو ہر جگہ سیاست چل رہی ہے۔''

''مجھے تو تم پر ہنسی آرہی ہے تم تو اسی طرح سیاست پر باتیں کرتی ہو جیسے سیاسیات میں ایم اے کیا ہو۔''

''واہ بھئی واہ! بہت خوب بلکہ اعلیٰ، میری پیاری بھولی بھالی اماں! سیاست ڈگری لینے سے تھوڑی آتی ہے، یا کتابیں پڑھنے سے اس کے لیے عقل چاہیے۔''

''تمہارے پاس عقل ہے۔ اگر ہوتی تو آج تم یہاں نہ ہوتیں جہاں نظر آرہی ہو۔''

''اللہ کا شکر کرو جو کچھ نظر آرہا ہے بہت ہے کچھ دنوں کے بعد شاید یہ بھی نظر نہ آئے''۔

''توبہ کیسی کالی زبان ہے کبھی تو اچھی بات بھی منہ سے نکال لو۔''

''تو کیا میں جھوٹ بولوں، سبز باغ دکھاؤں، انگاروں کو پھول کہہ کر دھوکا دوں؟''

''بس لمبی لمبی باتیں کرالو، کام نہ دھام۔ کچھ کام بھی کرلیا کرو۔ صرف باتیں بنانے سے زندگی نہیں گزرتی۔''

''کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر کوئی کچھ کرنے ہی نہیں دیتا نیکی کا زمانہ نہیں بد دیانتی سے ابا منع کرتے ہیں۔ اب ابا کی بات مانوں یا زمانے کی؟''


''زمانے کی بات مانوں گی تو برباد کردے گا۔ اللہ رحم کرے کیا زمانہ آگیا ہے۔ پڑوسی کو پڑوس کی خبر نہیں سب اجنبی ہوکر رہ گئے ہیں۔ کوئی دکھ سکھ کا ساتھی نہیں۔''

''اماں ساتھی سے یاد آیا ابا کے ساتھ تم نے 60 برس کیسے گزار دیے اب تو ایک برس میں ساتھی جدا ہوجاتے ہیں، اب تو لمحوں کا ساتھ ہوتا ہے اور برسوں کی جدائی۔''

''بیٹی! بتایا تو زمانہ بدل گیا ہے، اب بچوں کی تربیت کہاں ہوتی ہے عزت دار گھرانوں میں رشتے نبھائے جاتے تھے۔ بات بگڑتی تھی تو گھر تک محدود رہتی تھی بڑے سنبھال لیتے تھے اب بڑوں کی سنتا کون ہے؟ طلاق بڑے شرم کی بات ہوتی تھی اب تو عام ہوتی جارہی ہے۔ انتہائی مجبوری کی اور بات ہے ورنہ بچوں اور ماں باپ کی عزت کی خاطر گزار دیتے تھے۔ اب تو ماں باپ کی عزت کی پرواہ نہیں ہے۔''

''اماں! تمہاری بعض باتیں دل کو لگتی ہیں۔ اب تو واقعی ماں باپ کی عزت نہیں رہی کل دیکھا تھا پڑوس سے کتنے شور کی آواز آرہی تھی ارشد اپنی اماں سے کیسے لڑ رہا تھا بیوی کی وجہ سے۔''

''ارے وہ تو کسی وجہ سے لڑ رہا تھا یہاں تو حال یہ ہے کہ لوگ بلاوجہ لڑتے ہیں۔''

''اماں! بلاوجہ لڑیں یا وجہ سے۔۔۔۔ لڑنا جھگڑنا کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ اب اگر اماں! نے ارشد کی بیوی کو کچھ کہہ دیا تو اتنا شور شغب محلہ سر پر اٹھالیا۔ پاس پڑوس میں آوازیں جاتی ہیں کوئی خیال نہیں۔''

''بیٹی سارا مسئلہ زبان کا ہے۔ ارشد کی اماں کی زبان بڑی تیز ہے قابو میں نہیں، بس کبھی کبھی زبان سے پکڑ والے لفظ نکل جاتے ہیں۔ بہو بھی انتظار میں رہتی ہے۔ بس میاں کے آتے ہی فتنہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ خیر چھوڑو پڑوس کی باتیں اپنے گھر کی فکر کرو۔''

''اماں! گھر کی فکر تم سے زیادہ کون کرے گا؟ گھریلو سیاست تو اماں کوئی تم سے سیکھے۔''

''دیکھو مجھے سیاست دانوں سے نہ ملاؤ۔ اماں ابا نے عمر بھر سچ بولنے کا درس دیا جو آج تک بول رہی ہوں۔''

''ابا کہتے ہیں سیاست کو دین سے ملاؤ''۔ جدا ہو دین سیاست سے۔۔۔''

''باقی مصرعہ اب بھول گئیں سبق کی طرح ارے اقبال کو بھول گئیں تو امت مسلمہ کو بھی بھول جاؤگی۔''

''خیر اب ایسا بھی نہیں ہے یوم وفات اور یوم پیدائش پر ہم قومی لیڈروں کو یاد رکھتے ہیں۔''

''پھر سارا سال بھول جاتے ہیں۔''

''اماں! اب تو نصاب بدل رہا ہے۔ قومی جذبہ ختم ہورہا ہے۔ ہر سمت مایوسی والی باتیں رہ گئی ہیں، سارے نوجوان ملک سے مایوس ہوکر باہر جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔''

''اپنا گھر پھر بھی اپنا ہوتا ہے۔ باہر کون سی دو کوڑی کی عزت ہے۔ روپیہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔''

''مگر اب تو پیسہ ہی سب کچھ ہے۔''

''یہ پیسے ہی نے تو سب جگہ آگ لگائی ہے۔''

''ارے آگ سے یاد آیا سامنے دیکھو چولہے میں آگ بھڑک رہی ہے۔ پانی ڈال کر بجھا دو۔''

''اماں! یہ آگ پر ہم پانی کب تک ڈالیں گے کبھی پانی کم پڑ گیا اور آگ بھڑک اٹھی تو۔۔۔؟
Load Next Story