نصابی مقصدیت اور ہمارا نظامِ تعلیم

طلبہ کے لئے درست سمت کے تعین میں نصابی تبدیلی ضروری ہے

طلبہ کے لئے درست سمت کے تعین میں نصابی تبدیلی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ پاکستان کی نصابی مقصدیت کو ملکی اور بین الاقوامی ضرورتوں کے مطابق ڈھال کر ہی ہم ترقی کرتی دنیا کی صف میں شامل رہ سکتے ہیں۔

اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں قرآن پاک اور سنت رسولؐ سے راہ نمائی بھی لینا ہو گی۔ اس تحریر کا مقصد ایسے ہی کسی طریقہ کار کے خدو خال واضح کرنا اور یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اپنے طلبہ کے لئے بالآخر کیا سمت متعین کر رکھی ہے؟ کوئی بھی حکومت جس نظام کے ذریعے طلبہ تک علم اور اقدار کو منتقل کرتی ہے، اسے اس ملک کا تعلیمی نظام کہتے ہیں۔ بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا جائے تو ایک نظام تعلیم ایڈمنسٹریشن، نصاب اور طالب علم کی ایک تکون پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک نظام ِ تعلیم ہمیں بتاتا ہے کہ طالب علم کس عمر سے کیا، کیسے، اور کس حد تک پڑھے گا وغیرہ وغیرہ؟ ہمارے ہاں اکثر برٹش، امریکن یا مجموعی طور پر مغربی تعلیمی نظاموں پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ یہ تمام نظام ہائے تعلیم اپنی اپنی جگہ بہت اچھے اور معیاری ہیں۔ مگر اسلامی نقطہء نظر سے ان پر تین اعتراض اٹھتے ہیں:

1۔ ایک یہ کہ کسی اشد ضرورت کے بغیر نصاب میں جنسی اعضاء کی تعلیم طلباء کو کیوں دی جائے ؟ کیسے دی جائے اور کس حد تک دئیے جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

2۔ کسی اشد ضرورت کے بغیر لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے کیوں تعلیم حاصل کریں ؟

3۔ تیسرا یہ کہ مادے یعنی مخلوق پر تحقیق کے نتیجے میں ان حقائق سے پردہ پوشی کیوں کی جاتی ہے جو اس کے کسی خالق کے ہونے کی واضح دلیل ہوتے ہیں ؟

پاکستانی نظامِ تعلیم

اپنے گریبان میں جھا نکیں تو اعلی مقصدیت کا فقدان اولین نقص ہے ۔ یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ آپ نے اگر میٹرک کیا ہے تو ایف اے کرنے کے لئے، ایف اے کیا ہے تو بی اے کرنے کے لئے، بے اے کیا ہے تو ایم اے کر نے کے لئے، ایم اے کیا ہے تو ایم فل کرنے کے لئے اور اگر ایم فل کیا ہے تو پی ایچ ڈی کر نے کے لئے۔ جبکہ بالآخر ان ڈگریوں کا حصول محض ایک اچھا پے سکیل تھا، اس سے زیادہ ہماری تعلیم کا مقصد نہیں رہا ۔ اس استدلال سے شائد اتفاق نہ بھی کیا جائے، لیکن اپنے ذاتی کسب اور محنت سے قرآن ِ مجید ، حدیث نبویؐ اور علماء کی بصیرت سے استفادہ کر نے کے بعد علم کی مقصدیت اور معرفت کے کسی مقام پر متمکن ہونا ایک مختلف چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعوری سطح پر ہمیں کسی اعلی مقصد کے ساتھ تعلیم نہیں دی جاتی رہی یا یہ کہ ہم خود ہی کسی اعلی مقصد کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرتے رہے۔ یہ دونوں باتیں ہی اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ ملکی سطح پر پورے کے پورے تعلیمی نظام (ایڈمنسٹریشن، نصاب اور طالب علم ) میں کہیں نہ کہیں اعلی مقصد کا فقدان رہا ہے۔ مقاصد کا تعلیمی پالیسی میں صرف رکھ دینا کافی نہیں۔ ان مقاصد کا پورے کے پورے تعلیمی نظام اور مشینری کے ساتھ عملی طور پر ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ آئیے اب کچھ ان چیزوں کا بیان کرتے ہیں جن کے عمل میں لانے سے انشاء اللہ حالات بدل سکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ بہت بڑی بڑی اداراتی یا محکماتی تبدیلیاں لائی جائیں۔



تعلیم کی تعریف

نصابی مقصدیت کی تبدیلی کے لئے تعلیم کی نئی تعریف کی جائے گی۔ تعلیم دراصل ایسی مہارتوں کو طلباء میں منتقل کرنے کا نام ہو گا جو اسے آئندہ اپنی ذاتی اور قومی زندگی میں مسائل کو اللہ کے دئیے ہوئے علم کے تحت بہترین طریقے سے حل کر نے میں مدد دے سکیں جبکہ تربیت ان مہارتوں کا تخلیقی اور عملی اطلاق ہے۔ لکھنا اور پڑھنا بنیادی علمی مہارتیں ہیں، انہیں سیکھنے پر علم کا دروازہ گویا ایک طالب علم پر کھلنے کو تیار ہوگا۔ انہیںBasic Cognitive Skills کہا جائے گا۔ ان کے سیکھنے کے بعد کوئی طالب علم باقاعدہ طالب علم کہلانے کا مستحق ہو گا۔ یہ مہارتیں آگے چل کر ایک طالب علم کوPractical Skills سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ غور و فکر، صبر، ایمانداری، انصاف اور اختراع ایسی پانچ Practical Skills ہیں جن کے بغیر کوئی ذاتی اور قومی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فرق یہ ہے کہ دوسرے تمام نظام ہائے تعلیم میں ان تمام مہارتوں کا اطلاق انسانی جبلتوں اور مفادات کے ماتحت کر دیا جاتا ہے جبکہ زیر بحث نصابی مقصدیت کے لئے ان مہارتوں کا اطلاق اللہ تعالی کے خوف کے ماتحت ہو گا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد طلباء کے ذہنوں میں مذکورہ بالا پانچ مہارتوں کا شعوری درس اور اطلاق ، ان کی ذاتی اور قومی زندگیوں میں اس طرح متعین کرنا ہے کہ وہ کائنات میں اللہ تعالی کی علمی اور تکنیکی دسترس کے قائل ہو کر اس کی عبادت میں بہترین معیار حاصل کر سکیں۔


پانچ عملی مہارتوں کی بنیاد

غور و فکر یا تحقیق کا قرآن مجید میں جگہ جگہ ذکر ہے۔ غورو فکر کا مطلب علم اور معلومات حاصل کرنا بھی ہے۔ انصاف میں، صبر اور ایمانداری شامل ہے ایماندارانہ روش ، اللہ تعالی اور آخرت کے خوف کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ وہ صفات ہیں جن کے لئے قرآن مجید میں جگہ جگہ تعلیم ملتی ہے۔ جبکہ اختراع غورو فکر کا حتمی نتیجہ ہے۔ حضرت یوسفؑ کے قصے میں گندم کو خوشوں میں ہی محفوظ رکھنے، حضرت نوحؑ کو کشتی بنانے میں ، یاجوج ماجوج سے محفوظ رکھنے کے لئے لوہے کی دیوار کے بنانے وغیرہ میں، اللہ تعالی کی طرف سے معاملات کو تکنیکی اختراع کے ذریعے حل کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ جبکہ تکنیکی علوم میں اختراع کا نتیجہ ٹیکنالوجی کی صورت میں سامنے آتا ہے جو ملکی سلامتی اور ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ﷺ نمبر 1099 ہے اور اس کے راوی طلحہ ابن عبیداللہؓ ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور آپ ﷺ ایک دفعہ کجھوروں کے درختوں کے قریب کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ے۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : تم لوگ کیا کر رہے ہو ؟ ًانہوں نے جواب میں کہا کہ ہم پیوند کاری کر رہے ہیں یعنی نر اور مادہ کو ملا رہے ہیں اس سے پیداوار زیادہ ہوتی ہے ۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی فائدہ ہو ۔مطلع ہونے پر ان لوگوں نے وہ کام چھوڑ دیا ۔حضور پاک ﷺ کو بعد میں بتایا گیا کہ کھجوروں کی پیداوار میں کمی آگئی تھی ۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اگر اس میں کچھ فائدہ ہے تو انہیں ضرور وہ کام کر لینا چاہئے۔ وہ تو میری ذاتی رائے تھی۔ میری ذاتی رائے پر مت جایا کرو، ہاں جو کچھ میں اللہ کی طرف سے کہوں وہ قبول کر لیا کرو کیونکہ میں اس بڑی شان والے عظیم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب نہیں کرتا۔ اس حدیث نبویؐ سے معلوم ہو تا ہے کہ حضور پاک ﷺ نے کسی تکنیکی علم کو استعمال کرنے سے نہیں روکا بلکہ اس کے اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ بشرط کہ اس کا استعمال انسانیت کی فلاح کے لئے ہو ۔



علم کیا ہے؟

مجوزہ تعلیمی نصاب کی مقصدیت کے تناظر میں علم کا اصل سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے۔ اللہ تعالی کی ذات ہمارے لئے ایک عظیم علمی اور تکنیکی کسوٹی ہے۔ سائنس کی تعریف کے بغیر تجویز شدہ نصابی مقصدیت کا حصول نا مکمل ہے ۔اسلام میں سائنس کی تعریف کیا ہے؟

قرآنِ مجید سے سائنس کی تعریف کچھ یوں اخذ کی جا سکتی ہے۔

سائنس دراصل باقاعدہ طریقے سے یہ جاننے کا علم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی تخلیقات کو کس قدر منظم بنایا ہے۔

قرآن مجید کی جس آیتِ مبارکہ سے یہ تعریف اخذ کی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: پارہ نمبر27، آیت نمبر49، سورہ نمبر54 ، سورہ القمر

''بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے''

قرآن و حدیث نبویؐ اور مادہ علم کے وہ بنیادی مظاہر ہیں جن میں اللہ تعالی کی علمی دسترس پنہاں ہے۔ جوں جوں ہمارے طلباء ان پر غور کریں گے، ان کے ایمان و عمل میں پختگی اور ٹیکنالوجی کی صورت میں ملکی ترقی میں اضافہ ہو گا۔ یہی اس تعلیمی نظام کا مقصد ہے۔ حکومت وقت نے اس نصابی مقصدیت کے لئے احکامات جاری کرنے ہیں اور آئندہ اپنی نصابی کتب میں مجوزہ سائنس کی تعریف اور نصابی مقصدیت کے تحت اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اللہ تعالی کی ذات کو وہ اہمیت دینی ہے جو اس کا حق ہے ۔ اہل ِ یورپ اگر اللہ تعالی کا یہ حق نہیں ادا کرتے تو اس کی جواب دہی خود ان پر ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان ایسا کیوں نہیں کر رہے؟
Load Next Story