ننھے مُنوں کی پہلی غذا

شیرخوار بچوں کی ماؤں کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے


زویا پارس November 18, 2013
شیرخوار بچوں کی ماؤں کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

ماں قدرت کا اَن مول تحفہ ہے۔ ممتا کی ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کے نشیب وفراز میں آنے والے مصائب اور سختیاں سہل ہو جاتی ہیں۔

قدرت نے انسان کے پہلی غذا کا بندوبست ماں کے ذریعے کیا ہے، جو بچے کی بہترین نشوونما کا ضامن بھی ہے۔ یہ بچے کی ذہنی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دودھ پلانا ماں کی فطرت کا تقاضا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی غذائی ضرورت کے لیے کافی ہے یا نہیں؟ یہ سوال تقریباً تمام ماؤں کے لیے پریشانی اور فکر کا باعث ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹر کی رائے کے مطابق بچے کا وزن عمر کے لحاظ سے ٹھیک ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماں کا دودھ بچے کے لیے کافی ہے۔ اگر ماں محسوس کرتی ہے کہ وہ بچے کی غذائی ضرورت پوری نہیں کر پارہی تو اس مسئلے کا پہلا حل یہ ہے کہ وہ دودھ پلانے کے وقفے کا دورانیہ کم کر دے، کیوں کہ یہ امر بچے کی غذائی ضرورت پوری کرنے میں خاصا معاون ثابت ہوتا ہے، جب کہ مائوں کی عمومی سوچ اس کے برعکس ہے اور وہ یہ دورانیہ کم کرنے کے بہ جائے بڑھاتی چلی جاتی ہیں، جو کہ درست نہیں۔ اس کے علاوہ شیرخوار بچوں کی مائیں مقررہ وقت پر کھانا کھانے کا معمول بنانے کے ساتھ ضروری صحت بخش اجزا سے بھرپور غذا کا استعمال شروع کردیں تو بہ آسانی اپنے بچے کی غذائی ضروریات پوری کر سکتی ہیں۔

اکثر ملازمت پیشہ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کی یہ ضرورت پوری نہیں کر پاتیں۔ ایسی صورت میں بچے کو ڈبے کا دودھ پلانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اوسطاً ساڑھے پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے کا دودھ کا ایک ڈبا بچے کی پانچ دن کی غذائی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اس طرح ہر مہینے ایک خاص رقم دودھ کے لیے رکھنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں دفاتر یا فیکٹریوں میں بچوں کے لیے ڈے کیئر یا بے بی کیئر کا رواج نہیں۔ بہت سے اداروں میں ملازمت کرنے والی خواتین میٹرنٹی لیو کی سہولت سے محروم ہیں۔ ان خواتین کو مجبوراً بچے کو اوپر کا دودھ دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات پر بھی ماؤں کے لیے کوئی ایسی جگہ مختص کرنے کا رواج نہیں جہاں وہ بچے کو دودھ پلاسکیں، چناں چہ گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی بچے کا پیٹ بھر دیا جائے۔

ماؤں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ شیرخواری کی عمر میں اپنے بچے کو اپنا دودھ لازمی پلائیں، لیکن اگر کسی طبی یا معاشی عذر کے باعث یہ ممکن نہ ہو تو متبادل غذا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بچے کو اوپر کا دودھ دینا یقیناً ایک محنت طلب کام ہے، کیوں کہ اس میں بوتل کی صفائی کا خیال رکھنا اور صاف اور ابلے ہوئے پانی کا استعمال بہت ضروری ہے۔ دوسری صورت میں بچے کو دست اور اسہال کی شکایت ہوسکتی ہے۔ دودھ کی تیاری کے دوران صفائی کا خیال نہ رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بچہ جب ایک مرتبہ اوپر کا دودھ پی لیتا ہے تو پینے میں آسانی کی وجہ سے زیادہ دودھ مانگتا ہے۔ ڈبے کے دودھ میں لیکوڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اس لیے بچے کو اس کا ذایقہ زیادہ خوش گوار لگتا ہے، لیکن یاد رہے کہ بچے کو زیادہ دودھ دینا اس کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

بعض مائیں دودھ بناتے ہوئے ڈبے پر تحریر ہدایات نہیں پڑھتیں، دودھ پتلا نظر آنے کی صورت میں خشک دودھ کی مقدار میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل بچے کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس طرح بچہ بیمار بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس دودھ کی مقدار کم رکھنا بھی خطرناک ہے۔ اس کا براہ راست اثر بچے کی صحت پر پڑتا ہے۔ اس لیے دودھ تیار کرتے ہوئے تناسب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ بچے کے لیے کون سا دودھ زیادہ بہتر ہے۔

ماں کا دودھ ایک خاص درجۂ حرارت رکھتا ہے، یہ بھی ننھے مُنوں کے لیے قدرت کے خصوصی انتظام کا حصہ ہے۔ بچے کو بوتل کا دودھ دیتے ہوئے بھی معتدل درجۂ حرارت کا خیال رکھنا چاہیے۔ ماہرین کی رائے میں بڑھتی عمر کے ساتھ بچے کو دودھ کے ساتھ نرم اور بہ آسانی ہضم ہونے والی غذا بھی دینی چاہیے۔ بہت سی ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ ان کا بچہ روتا بہت ہے۔ اس بے وجہ رونے کا سبب اس کا پیٹ نہ بھرنا بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے چھے ماہ کی عمر کے بعد جس طرح بچے کی عمر بڑھتی جائے اسے ٹھوس غذا دینا شروع کر دیں۔ ابتداً اس میں مشکل پیش آئے گی، بچہ ابکائیاں لے گا، قے کرے گا، لیکن مستقل مزاجی سے یہ مشق جاری رکھیں، آخرکار بچہ ٹھوس غذا کا عادی ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے ٹھوس غذا کھانے کی ''مشقت'' سے بچنے کے لیے دودھ پینے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کی بھوک کا اندازہ لگاتے ہوئے دودھ اور غذا کا ایسا تناسب رکھے کہ بچہ دودھ بھی پی لے اور نشوونما میں مددگار غذائی اجزا بھی خوراک کی صورت میں اسے مہیا ہوتے رہیں۔ جسمانی اور ذہنی نشوونما کے اس اہم ترین دور میں بچے کی غذائی عادت کو متوازن بنانے کی کوشش شروع کر دینی چاہیے۔

ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں، اس لیے ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ قدرت کا یہ اَن مول تحفہ اپنے بچے تک لازمی پہنچائیں۔ یہ فقط اس کی غذائی ضرورت کی تکمیل نہیں، بلکہ اس عمل کے کچھ نفسیاتی پہلو بھی ہیں۔ یہ عمل ان کے درمیان تحفظ اور تعلق کا ایک اٹوٹ سابندھن مضبوط کیے جاتا ہے۔ مستقبل میں یہ بچے اعصابی، جسمانی اور ذہنی طور پر بھی بہت بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ عمل بچے کے مدافعتی نظام کو اس قدر مضبوط بنا دیتا ہے کہ ساری زندگی اس کے لیے بیماریوں سے بچاؤ آسان ہو جاتا ہے۔ بچے کو دی جانے والی غذا ہی اس کے مستقبل کا تعین کرتی ہے کہ وہ ایک صحت مند زندگی گزارے گا یا جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے پُر عرصۂ حیات اس کا مقدر ٹھہرے گا۔ اس لیے زندگی کرنے کی تگ ودو میں اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کے جیون آنگن کا ننھا سا پودا کہیں آپ کی توجہ سے کہیں محروم نہ رہ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں