طورخم بارڈر پر اسمگلنگ ایف بی آر کے ممبر کسٹم اور چار کلکٹر عہدوں سے فارغ
ایرانی بارڈر سے اسمگلنگ کی انکوائری بھی FIA کے سپرد، ترجمان
ایف بی آر نے وزیراعظم کے احکامات پر قیمتی مصنوعات کی اسمگلنگ اور خزانے کو اربوں روپے کے نقصان میں ملوث اعلیٰ افسروں کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے کسٹمز انٹیلی جنس کی ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر ممبر کسٹمز، 4 کلکٹرز اور کئی ملازمین کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ترجمان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں نچلی سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، کچھ روز قبل کسٹمز کے حوالے سے ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر غیرقانونی طور پر غیرملکی مصنوعات کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر لانے کی اجازت دینے پر ریجنل کلکٹریٹ پشاور اور فاٹا کے 5 اعلیٰ آفیسران سمیت عملے کے افراد کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق خیبرپختونخوا میں طورخم کسٹم اسٹیشن پر افغانی گاڑیاں سیب لے کر داخل ہوتی رہیں اور ضروری گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) جمع کرائے بغیر کلیئرنس اور ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کیے بغیر آتی رہیں، بعض کیسز میں جہاں جی ڈی جمع کرائی گئیں، صرف پھلوں پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرح میں رعایت کے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرائے گئے، اس کے علاوہ سرکاری خزانے سے اخراجات اور درآمد کنندگان کو فائدہ دینے کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کا مناسب انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا، ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کر کے مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایرانی سیبوں سے بھری جن گاڑیوں کی نشاندہی کی گئی وہ ملی بھگت اور کرپشن کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی کے بغیر چھوڑی گئیں، اس کے علاوہ بلوچستان میں کسٹمز اسٹیشنز سے افغانی پھلوں اور اعلیٰ معیار کے ایرانی بارز کی امپورٹ کی کلیئرنس کی متضاد خبریں بھی موصول ہوئی ہیں، ان بد انتظامیوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ دونوں معاملات ایف آئی اے کے حوالے بھی کر دئیے گئے ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق جن اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی ان میں ممبر کسٹمز جواد آغا، رضا بلوچ (کلکٹر)، احسان علی شاہ (کلکٹر)، آصف سعید لغمانی(کلکٹر) اور ڈاکٹر افتخار(کلکٹر) شامل ہیں اس کے علاوہ دیگر ملازمین بھی شامل ہیں جن کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے خیبر پختونخوا کے تمام سرحدی کسٹم دفاتر کو منظم اسمگلنگ اوراربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کسٹم اہلکاروں کی معاونت سے افغانستان سے آنے والے سیکڑوں کنٹینرز کو قواعد وضوابط کے مطابق جانچے اور کسٹم ڈیوٹی کا تخمینہ لگا کر وصولی کیے بغیر کسٹم اسٹیشن سے کلیئرنس دیکر بھیجا گیا اور اس مقصد کیلیے (WEBOC) وی بوک نظام میں ڈیجیٹل جعلسازی کی گئی، اس منظم نیٹ ورک کامرکز طورخم کسٹم کلکٹوریٹ تھا،سب سے زیادہ فراڈ اور ٹیکس چوری پیاز ،خشک میوہ جات اور دیگر غذائی اشیاء کی امپورٹ میں کی گئی۔
ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن زاہد حسین کھوکھر کی جانب سے چند روز قبل چیئرمین ایف بی آر کو بھیجی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خیبر پختونخوا کے تمام سرحدی کسٹم دفاتربشمول طورخم، غلام خان ،ٹانک اور کرلاچی بدترین اور سنگین نوعیت کی بے قاعدگیوں، قوانین کی خلاف ورزی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں شامل ہیں، بالخصوص طورخم کسٹمز کلکٹوریٹ میں یہ معاملات تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔
طورخم کے مقام پر صرف اکتوبر اور نومبر 2019ء میں 110 سے زائد مال بردار کنٹینرز اور ٹرکوں کوجی ڈی فائل کئے بغیر اور باضابطہ کسٹم چیکنگ اور مکمل ٹیکس و کسٹم ڈیوٹی وصول کئے بغیر کسٹم سٹیشن سے باہر جانے دیا گیا اور اس تمام میں متعلقہ کسٹم سٹاف کی ملی بھگت اور مجرمانہ غفلت شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسمگلنگ کا یہ نیٹ ورک اتنا بے خوف ہے کہ دسمبر میں کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے ایکشن میں آنے کے باوجود کنٹینرز اور ٹرکوں کی غیر قانونی کلیئرنس جاری رکھی گئی جبکہ کنٹینرز کی جانچ کے دوران کسٹم اپریزمنٹ افسروں نے بڑے پیمانے پر غلط ٹیکس تخمینے بنائے۔
مثال کے طور پر کسٹم انٹیلی جنس نے طورخم کسٹم سٹیشن پر کلیئر کیئے جانے والے ڈرائی فروٹ کے ایک کنٹینر کو بلاک کر کے اس کی دوبارہ ٹیکس تشخیص کی تو اس پر 72لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی بنتی تھی لیکن کسٹم سٹاف نے82ہزار 400 روپے ٹیکس بنا کر اسے کلیئر کیا ہوا تھا۔
تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ پاکستان میں امپورٹ ہونے والے سامان کی کسٹم کلیئرنس کیلئے طورخم چیک پوسٹ سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر کسٹم دفاتر میں مقررہ قواعد وضوابط اور وی بوک نظام کو دانستہ طور پر استعمال نہیں کیا جارہا، بالخصوص پاکستان میں آنے والے پیاز اور دیگر غذائی آئٹمز کی کسٹم ڈیوٹی میں اربوں روپے چوری کئے جا رہے ہیں۔
مال بردار گاڑیوں کو وی بوک نظام کے تحت کلیئر کرنے کی بجائے مینوئل گیٹ پاس جاری کر کے بغیر کسٹم ڈیوٹی وصول کیئے کسٹم سٹیشن سے جانے دیا جارہا ہے۔ اس کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کسٹم انٹیلی جنس نے طورخم کسٹم آفس میں پہنچ کر وی بوک نظام میں امپورٹ کردہ سامان لانے والے2 کنٹینرز کو منتخب کر کے ان کی چیکنگ کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ دونوں کنٹینرز کو مینوئل گیٹ پاس جاری کرکے کئی روز پہلے کلیئر کر کے بھیج دیا گیا ہے جبکہ وی بوک سسٹم میں یہ کنٹینرز ابھی تک کسٹم سٹیشن میں موجود اور ان کلیئرڈ ظاہر ہورہے تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 44 کے تحت ہر گاڑی کیلئے الگ جی ڈی فائل کرنا لازم ہے لیکن کسٹم سٹاف ایک جی ڈی پر کئی گاڑیاں کلیئر کرتا رہا جبکہ ہر گاڑی کیلئے درکارالگ امپورٹ جنرل مینی فسٹ( IGM) بھی حاصل نہیں کیا جاتا رہا۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے۔
ایف بی آر کے سینئر ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز انٹیلی جنس کی رپورٹ بہت اہم اور الارمنگ ہے، اسی رپورٹ کی بنیاد پر ممبر کسٹمز آپریشن، پشاور اور کوئٹہ کے کلکٹرز کو تبدیل کیا گیا، اب آنے والے دنوں میں کوئٹہ اور پشاور کسٹم کلکٹریٹس میں ایڈیشنل کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر، اپریزر، پرنسپل اپریزر عہدے کے درجنوں افسروں کو بھی تبدیل کردیا جائے گا۔ اس حوالے سے اکھاڑ پچھاڑ کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ترجمان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے اداروں میں نچلی سطح پر کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، کچھ روز قبل کسٹمز کے حوالے سے ٹھوس رپورٹس کی بنیاد پر غیرقانونی طور پر غیرملکی مصنوعات کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر لانے کی اجازت دینے پر ریجنل کلکٹریٹ پشاور اور فاٹا کے 5 اعلیٰ آفیسران سمیت عملے کے افراد کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق خیبرپختونخوا میں طورخم کسٹم اسٹیشن پر افغانی گاڑیاں سیب لے کر داخل ہوتی رہیں اور ضروری گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) جمع کرائے بغیر کلیئرنس اور ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کیے بغیر آتی رہیں، بعض کیسز میں جہاں جی ڈی جمع کرائی گئیں، صرف پھلوں پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی شرح میں رعایت کے جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرائے گئے، اس کے علاوہ سرکاری خزانے سے اخراجات اور درآمد کنندگان کو فائدہ دینے کے لیے ڈیوٹی اور ٹیکسز کا مناسب انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا، ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کر کے مزید تحقیقات ہو رہی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایرانی سیبوں سے بھری جن گاڑیوں کی نشاندہی کی گئی وہ ملی بھگت اور کرپشن کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی کے بغیر چھوڑی گئیں، اس کے علاوہ بلوچستان میں کسٹمز اسٹیشنز سے افغانی پھلوں اور اعلیٰ معیار کے ایرانی بارز کی امپورٹ کی کلیئرنس کی متضاد خبریں بھی موصول ہوئی ہیں، ان بد انتظامیوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور یہ دونوں معاملات ایف آئی اے کے حوالے بھی کر دئیے گئے ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق جن اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی ان میں ممبر کسٹمز جواد آغا، رضا بلوچ (کلکٹر)، احسان علی شاہ (کلکٹر)، آصف سعید لغمانی(کلکٹر) اور ڈاکٹر افتخار(کلکٹر) شامل ہیں اس کے علاوہ دیگر ملازمین بھی شامل ہیں جن کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن نے خیبر پختونخوا کے تمام سرحدی کسٹم دفاتر کو منظم اسمگلنگ اوراربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کسٹم اہلکاروں کی معاونت سے افغانستان سے آنے والے سیکڑوں کنٹینرز کو قواعد وضوابط کے مطابق جانچے اور کسٹم ڈیوٹی کا تخمینہ لگا کر وصولی کیے بغیر کسٹم اسٹیشن سے کلیئرنس دیکر بھیجا گیا اور اس مقصد کیلیے (WEBOC) وی بوک نظام میں ڈیجیٹل جعلسازی کی گئی، اس منظم نیٹ ورک کامرکز طورخم کسٹم کلکٹوریٹ تھا،سب سے زیادہ فراڈ اور ٹیکس چوری پیاز ،خشک میوہ جات اور دیگر غذائی اشیاء کی امپورٹ میں کی گئی۔
ڈائریکٹر جنرل کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن زاہد حسین کھوکھر کی جانب سے چند روز قبل چیئرمین ایف بی آر کو بھیجی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ خیبر پختونخوا کے تمام سرحدی کسٹم دفاتربشمول طورخم، غلام خان ،ٹانک اور کرلاچی بدترین اور سنگین نوعیت کی بے قاعدگیوں، قوانین کی خلاف ورزی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے میں شامل ہیں، بالخصوص طورخم کسٹمز کلکٹوریٹ میں یہ معاملات تمام حدیں عبور کر چکے ہیں۔
طورخم کے مقام پر صرف اکتوبر اور نومبر 2019ء میں 110 سے زائد مال بردار کنٹینرز اور ٹرکوں کوجی ڈی فائل کئے بغیر اور باضابطہ کسٹم چیکنگ اور مکمل ٹیکس و کسٹم ڈیوٹی وصول کئے بغیر کسٹم سٹیشن سے باہر جانے دیا گیا اور اس تمام میں متعلقہ کسٹم سٹاف کی ملی بھگت اور مجرمانہ غفلت شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسمگلنگ کا یہ نیٹ ورک اتنا بے خوف ہے کہ دسمبر میں کسٹم انٹیلی جنس کی جانب سے ایکشن میں آنے کے باوجود کنٹینرز اور ٹرکوں کی غیر قانونی کلیئرنس جاری رکھی گئی جبکہ کنٹینرز کی جانچ کے دوران کسٹم اپریزمنٹ افسروں نے بڑے پیمانے پر غلط ٹیکس تخمینے بنائے۔
مثال کے طور پر کسٹم انٹیلی جنس نے طورخم کسٹم سٹیشن پر کلیئر کیئے جانے والے ڈرائی فروٹ کے ایک کنٹینر کو بلاک کر کے اس کی دوبارہ ٹیکس تشخیص کی تو اس پر 72لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی بنتی تھی لیکن کسٹم سٹاف نے82ہزار 400 روپے ٹیکس بنا کر اسے کلیئر کیا ہوا تھا۔
تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ پاکستان میں امپورٹ ہونے والے سامان کی کسٹم کلیئرنس کیلئے طورخم چیک پوسٹ سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر کسٹم دفاتر میں مقررہ قواعد وضوابط اور وی بوک نظام کو دانستہ طور پر استعمال نہیں کیا جارہا، بالخصوص پاکستان میں آنے والے پیاز اور دیگر غذائی آئٹمز کی کسٹم ڈیوٹی میں اربوں روپے چوری کئے جا رہے ہیں۔
مال بردار گاڑیوں کو وی بوک نظام کے تحت کلیئر کرنے کی بجائے مینوئل گیٹ پاس جاری کر کے بغیر کسٹم ڈیوٹی وصول کیئے کسٹم سٹیشن سے جانے دیا جارہا ہے۔ اس کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کسٹم انٹیلی جنس نے طورخم کسٹم آفس میں پہنچ کر وی بوک نظام میں امپورٹ کردہ سامان لانے والے2 کنٹینرز کو منتخب کر کے ان کی چیکنگ کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ دونوں کنٹینرز کو مینوئل گیٹ پاس جاری کرکے کئی روز پہلے کلیئر کر کے بھیج دیا گیا ہے جبکہ وی بوک سسٹم میں یہ کنٹینرز ابھی تک کسٹم سٹیشن میں موجود اور ان کلیئرڈ ظاہر ہورہے تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 44 کے تحت ہر گاڑی کیلئے الگ جی ڈی فائل کرنا لازم ہے لیکن کسٹم سٹاف ایک جی ڈی پر کئی گاڑیاں کلیئر کرتا رہا جبکہ ہر گاڑی کیلئے درکارالگ امپورٹ جنرل مینی فسٹ( IGM) بھی حاصل نہیں کیا جاتا رہا۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے۔
ایف بی آر کے سینئر ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز انٹیلی جنس کی رپورٹ بہت اہم اور الارمنگ ہے، اسی رپورٹ کی بنیاد پر ممبر کسٹمز آپریشن، پشاور اور کوئٹہ کے کلکٹرز کو تبدیل کیا گیا، اب آنے والے دنوں میں کوئٹہ اور پشاور کسٹم کلکٹریٹس میں ایڈیشنل کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر، اپریزر، پرنسپل اپریزر عہدے کے درجنوں افسروں کو بھی تبدیل کردیا جائے گا۔ اس حوالے سے اکھاڑ پچھاڑ کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔