بدین میں درگاہ لواری شریف 37 برس بعد کھول دی گئی
متولیت کے مسئلے اور 2 گروہوں میں تصادم کے بعد درگاہ کو1983 میں سیل کردیا گیا تھا
ایک طویل عرصے کے بعد صوفی درگاہ کے دوبارہ کھلنے کا انتظار کرنے والے سیکڑوں افراد میں سے ایک حوا بی بی بھی شامل تھی جس طرح دیگر لوگ دور دراز کے علاقوں سے یہاں آئے تھے اسی طرح حوا بی بی بھی اپنے مرشد کو خراج عقیدت پیش کرنے اور دعا کرنے کے لیے درگاہ پہنچی تھی۔
85 سالہ علیل حوا بی بی کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 3دہائیوں سے بڑی بے چینی کے ساتھ اس دن کا انتظار کررہی تھی، کوئی ایسا دن نہیں تھا جب میں نے اپنے مرشد سلطان الاولیا خواجہ محمد زمان کو یاد نہ کیا ہو اور میری صرف یہی خواہش ہے کہ میرا دم ان کی درگاہ کی دہلیز پر نکلے۔درگاہ لواری شریف بدین سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے 1983 میں اس وقت سیل کردیا گیا تھا جب اس کی متولیت کا مسئلہ پیدا ہوا جس کے باعث دو گروہوں میں تصادم اور اس کے نتیجے میں خران خرابہ ہوا تھا۔ درگاہ کو بند کیے جانے کے باوجود ہر مہینے چاند کی چار تاریخ کو عقیدت مند اس درگاہ کے باہر جمع ہوا کرتے تھے اور قرآن خوانی کے ذریعے اپنے روحانی رہنما کو یاد کیا کرتے تھے، تاہم بالاخر 37 برس کے بعد عقیدت مندوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ درگاہ میں داخل ہوسکیں۔سائیں بخش جونیجو جو گورنمنٹ کالج ڈوکری میں لیکچرر ہیں، وہ بھی انہی عقیدت مندوں میں شامل تھے جو درگاہ پر حاضری کے لیے سخت سردی کے باوجود دور دراز کا سفر کرکے یہاں پہنچے تھے۔
سائیں بخش جونیجو کا کنا تھا کہ درگاہ تقریبا ڈھائی سو برس قدیم ہے اور ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہاں نذرانے دینے یا مزار پر چادر چڑھانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ مزار پر حاضری کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ اوقات رکھے گئے ہیں اور درگاہ کے احاطے یا ارد گرد بھیک مانگنے والے بھی آپ کو نظر نہیں آئیں گے۔اس درگاہ کے اثرات پاک و ہند سرحد کے دونوں جانب محسوس کیے جاسکتے ہیں یہی مہاتما گاندھی نے اس درگاہ کے چھٹے جانشیں خواجہ احمد زمان سے ملاقات کی تھی۔بھٹ شاہ میں واقع یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ ماڈرن سائنسز کے ڈائریکٹر دین محمد کیریو نے بتایا کہ درگاہ کے پانچویں جانشیں خواجہ محمد سعید ایک معروف مصنف اور شاعر بھی تھے۔
جنہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام کی تعمیر کے وقت اس کی مالی مدد بھی کی تھی جس کی بنیاد حسن علی آفندی بھی 1885 میں رکھی تھی۔جونیجو کا کہنا تھا کہ مزار کے اردگرد واقع قدیم مکانات اور قلعے کی خستہ حالت محکمہ اوقات کی غفلت اور بے پروائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قلعے کو تیسرے جانشیں خواجہ محمد زمان ثانی نے مختلف حملہ آوروں کے سندھ میں آنے کے بعد تعمیر کرایا تھا۔لواری شریف مزار کے منتظم عبدالرحمن بلوچ نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ انھیں حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کہ وہ مزار کی بحالی اور اس کے تحفظ کے لیے کچھ کرے گی اور مزار کے فنڈز کے ذریعے خود ہی اس کی اور قلعے کی بحالی اور تعمیر نو کا کام شروع کردیا ہے اور جلد ہی اسے اس کی اصل شکل میں بحال کردیں گے۔
85 سالہ علیل حوا بی بی کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 3دہائیوں سے بڑی بے چینی کے ساتھ اس دن کا انتظار کررہی تھی، کوئی ایسا دن نہیں تھا جب میں نے اپنے مرشد سلطان الاولیا خواجہ محمد زمان کو یاد نہ کیا ہو اور میری صرف یہی خواہش ہے کہ میرا دم ان کی درگاہ کی دہلیز پر نکلے۔درگاہ لواری شریف بدین سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے 1983 میں اس وقت سیل کردیا گیا تھا جب اس کی متولیت کا مسئلہ پیدا ہوا جس کے باعث دو گروہوں میں تصادم اور اس کے نتیجے میں خران خرابہ ہوا تھا۔ درگاہ کو بند کیے جانے کے باوجود ہر مہینے چاند کی چار تاریخ کو عقیدت مند اس درگاہ کے باہر جمع ہوا کرتے تھے اور قرآن خوانی کے ذریعے اپنے روحانی رہنما کو یاد کیا کرتے تھے، تاہم بالاخر 37 برس کے بعد عقیدت مندوں کو اس بات کی اجازت مل گئی کہ وہ درگاہ میں داخل ہوسکیں۔سائیں بخش جونیجو جو گورنمنٹ کالج ڈوکری میں لیکچرر ہیں، وہ بھی انہی عقیدت مندوں میں شامل تھے جو درگاہ پر حاضری کے لیے سخت سردی کے باوجود دور دراز کا سفر کرکے یہاں پہنچے تھے۔
سائیں بخش جونیجو کا کنا تھا کہ درگاہ تقریبا ڈھائی سو برس قدیم ہے اور ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہاں نذرانے دینے یا مزار پر چادر چڑھانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ مزار پر حاضری کے لیے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ اوقات رکھے گئے ہیں اور درگاہ کے احاطے یا ارد گرد بھیک مانگنے والے بھی آپ کو نظر نہیں آئیں گے۔اس درگاہ کے اثرات پاک و ہند سرحد کے دونوں جانب محسوس کیے جاسکتے ہیں یہی مہاتما گاندھی نے اس درگاہ کے چھٹے جانشیں خواجہ احمد زمان سے ملاقات کی تھی۔بھٹ شاہ میں واقع یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ ماڈرن سائنسز کے ڈائریکٹر دین محمد کیریو نے بتایا کہ درگاہ کے پانچویں جانشیں خواجہ محمد سعید ایک معروف مصنف اور شاعر بھی تھے۔
جنہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام کی تعمیر کے وقت اس کی مالی مدد بھی کی تھی جس کی بنیاد حسن علی آفندی بھی 1885 میں رکھی تھی۔جونیجو کا کہنا تھا کہ مزار کے اردگرد واقع قدیم مکانات اور قلعے کی خستہ حالت محکمہ اوقات کی غفلت اور بے پروائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قلعے کو تیسرے جانشیں خواجہ محمد زمان ثانی نے مختلف حملہ آوروں کے سندھ میں آنے کے بعد تعمیر کرایا تھا۔لواری شریف مزار کے منتظم عبدالرحمن بلوچ نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ انھیں حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کہ وہ مزار کی بحالی اور اس کے تحفظ کے لیے کچھ کرے گی اور مزار کے فنڈز کے ذریعے خود ہی اس کی اور قلعے کی بحالی اور تعمیر نو کا کام شروع کردیا ہے اور جلد ہی اسے اس کی اصل شکل میں بحال کردیں گے۔