گھر داری تک محدود ہونے والی ڈاکٹروں کے لیے ۔۔۔

’ای ڈاکٹر‘ کے ذریعے 700 خواتین ڈاکٹروں کو دوبارہ مسیحائی کی طرف لایا گیا


سحرش پرویز February 04, 2020
’ای ڈاکٹر‘ کے ذریعے 700 خواتین ڈاکٹروں کو دوبارہ مسیحائی کی طرف لایا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، آج کوئی بھی کام گھر بیٹھے کیا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ کام شہر سے باہر کا ہو یا بیرون ملک کا۔

حال ہی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے ''ای ڈاکٹر' کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو خاص طور پر ان خواتین کے لیے ہے، جنہوں نے اپنی میڈیکل تعلیم مکمل کی، لیکن کسی بھی وجہ سے وہ اس پیشے سے وابستہ نہیں ہو سکیں۔ وہ اس منصوبے کے ذریعے اب اپنے پیشے سے دوبارہ منسلک ہو سکتی ہیں۔

عہدے داروں کے مطابق اِن 700 پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں میں وہ خواتین بھی شامل ہیں، جو اب بیرون ملک مقیم ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لیڈی ڈاکٹروں کی اپنے پیشے سے علیحدگی سے طبی اور صحت کی سہولتوں پر کافی مضر اثر پڑا، بالخصوص کم آمدنی والے طبقات اس سے کافی متاثر ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کی تعلیم پر اوسطاً 50 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اب اِن 700 خواتین ڈاکٹروں کو پیشے میں واپس لانے سے ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں واضح بہتری کی امید ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کا وہ ادارہ ہے جس نے ملک میں 'ای ڈاکٹر' کا پہلا پروگرام پیش کر کے اپنے منفرد کردار کو بر قرار رکھا ہے۔ پروگرام 'ای ڈاکٹر' کے پروگرام کو متعارف کرنے کا خیال پانچ سال قبل پیش کیا گیا تھا۔ اب بھی اس نوعیت کے مزید پروگراموں پر کام جاری ہے ، جس کی وجہ سے گھر بیٹھی خواتین ڈاکٹر فائدہ حاصل کر سکتی ہیں۔

پاکستان میں 65 فی صد سے زیادہ لڑکیاں میڈیکل کی تعلیم میں رجسٹرڈ ہیں، جن میں تقریباً 80 فی صد ہاؤس جاب کی تکمیل کے بعد اس پیشے کو چھوڑ دیتی ہیں۔ اس 'ای ڈاکٹر' پروگرام کے ذریعے دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود پاکستانی خاتون ڈاکٹر بہ آسانی آن لائن تربیت حاصل کر سکتی ہیں اور اپنے پیشے کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ ، متحدہ عرب امارات ، اور سعودی عرب میں متعدد لیڈی ڈاکٹروں نے اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس پروگرام کی تربیت کے بعد یونیورسٹی کی طرف سے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔

یہ لیڈی ڈاکٹر ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے، زچگی اور نوزائیدہ اموات کی شرح کو روکنے، بہبود آبادی کی مہم، پولیو اور وبائی بیماریوں جیسے ڈینگی اور ٹائیفائیڈ وغیرہ میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ای ڈاکٹر کی ماہر ڈاکٹر جہاں آرا کا کہنا ہے کہ ''یہ منصوبہ اس وقت کی کام کرنے والی ڈاکٹروں کے لیے ہے، جو اپنے خاندانی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے پیشہ وارانہ مشق سے باہر ہو چکی ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے خواتین اپنی مشق واپس حاصل کر سکتی ہیں۔ ''ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے کیے گئے ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 35 ہزار خواتین ڈاکٹر ہیں۔

جنہوں نے سرکاری یا نجی جامعات سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے، لیکن وہ ملک میں طبی ملازمتوں کا حصہ نہیں۔ ہزاروں پاکستانی خواتین ڈاکٹر ایسی ہیں، جو اپنی میڈیکل تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچوں کی پرورش اور اپنے کنبے کی دیکھ بھال کر رہی ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں اور مہارت کے ذریعے معاشرے میں حصہ نہیں لے پا رہی ہیں۔

اس منصوبے کی وجہ سے چند مہینوں میں سینکڑوں ایسی خواتین ڈاکٹروں کو جدید ترین پلیٹ فارم کے استعمال کے ذریعے اپنے پیشے میں واپس لایا گیا ہے۔ جس میں ڈیجیٹل تربیت کو جدید صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ماڈلوں اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ میڈیکل فیکلٹی کے ذریعے تازہ ترین طبی طریقوں کے ذریعے استعمال کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تائید ملک کی معروف تنظیموں نے کی۔ جس میں وفاقی وزارتِ صحت اور محکمہ صحت، سندھ شامل ہیں۔

'ای ڈاکٹر' کے ذریعے پاکستان کے شہروں اور دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ بحرین، یونان، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کی سیکڑوں باہر کام کرنے والی خواتین ڈاکٹروں کو ایک بار پھر اپنے پیشے میں شامل ہونے کی تر غیب دی گئی۔ اس پروگرام میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسپتالوں میں میڈیکل کنسلٹنٹس کے ساتھ براہِ راست ویڈیو پر مبنی مریضوں کی مشاورت بھی شامل ہے۔

زندگی کی بنیادی سہولتیں، گائناکالوجی، الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈوں کا استعمال، اور ویڈیو معاونت سے متعلق موبائل ہیلتھ اسسمنٹ باہمی تعاون کے پلیٹ فارم سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں چھے ماہ کاآن لائن سر ٹیفیکیشن پروگرام دیا جا تا ہے۔ جس کی وجہ سے خواتین ''فیملی میڈیسن سرٹیفیکیٹ'' کی حیثیت سے مختلف شعبوں میں تازہ ترین معلومات حاصل کر سکتی ہیں۔ جو انہیں اپنے گھر سے ہی صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی مشورے فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں