منی لانڈرنگ کیخلاف قائم ادارہ 6 سال بعد بھی مقاصد حاصل نہ کرسکا

مالیاتی نظام میں سقم دور کرنے کیلیے عالمی اداروں کا حکومت پر شدید دباؤ ہے.

فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا عملہ تکنیکی اہلیت نہیں رکھتا، مالیاتی نظام میں سقم دور کرنے کیلیے عالمی اداروں کا حکومت پر شدید دبائو ہے. فوٹو فائل

منی لانڈرنگ اور ٹیررسٹ فنانسنگ کی روک تھام کیلیے بنایا گیا خود مختار ادارہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ(ایف ایم یو) اپنے قیام کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا، 6 سال کے دوران ملک میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کی فنڈنگ اور کالے دھن کی بیرون ملک منتقلی میں کمی کے بجائے تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو2001 میں دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے بعد دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور ٹیررسٹ فنانسنگ کیخلاف قوانین کو سخت کرنے اور اس سلسلے میں ممالک کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔عالمی سطح پر قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے کیلیے قائم کی گئی، پاکستان میں بھی اس سلسلے میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 2007 میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے نام سے ایک خودمختار ادارہ قائم کیا گیا اور اس ادارے کا پہلا سربراہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر افسر اظہر قریشی کو تعینات کیا گیا، نوزائیدہ ادارے کو مطلوبہ افرادی قوت اور تکنیکی سہولیات کی فراہمی خطیر فنڈ کے ذریعے ممکن ہوئی تاہم بعد ازاں آنیوالے سربراہان ادارے کو پوری طرح فنکشنل کرنے میں تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔




قوانین کے مطابق تمام نجی بینک ایک آن لائن سسٹم کے ذریعے مشکوک ٹرانزیکشنز کو ایف ایم یو کو رپورٹ کرنے کے پابند ہیں تاہم تاحال منی ایکس چینج کمپنیوں کیلیے اس قسم کا کوئی نظام وضع کرنے میں ادارہ ناکام دکھائی دیتا ہے جبکہ ادارے کے ماہرین نجی بینکوں کی جانب سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ کی جانے والی مشکوک بینک ٹرانزیکشنز کے ذریعے بھی دہشت گردی کے مالی نیٹ ورک اور کالے دھن کی بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کی روک تھام میں ناکام دکھائی دیتاہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں ادارے کی جانب سے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کو مزید تحقیقات کیلیے بھیجے جانے والی رپورٹس بے بنیاد ثابت ہوئیں صرف چند معمولی نوعیت کی پورٹس پر ہی کارروائی ممکن ہوسکی اور یہ صورتحال اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ادارے میں بھرتی کیے جانے والے ماہرین تکنیکی اہلیت نہیں رکھتے۔

دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی سسٹم میں موجود سقم کو دور کرے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے علاوہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے کی منظم سازش جاری ہے اور تیزی سے زرمبادلہ غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قیمت تیزی سے گرتی جارہی ہے اور معیشت پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
Load Next Story