پھر کشمیر ڈے

ہم ان قوتوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کی امید پر کشمیر ڈے منا رہے ہیں، جن کے مفاد اس مسئلے کے لاینحل رہنے میں پوشیدہ ہیں


خرم علی راؤ February 05, 2020
5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پورے پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پچھلے ساٹھ ستر سال سے وادی جموں اور کشمیر پر کئی زبانوں میں ناول، افسانے، رپورتاژ، مضامین، حتیٰ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالے بھی لکھے گئے ہیں۔ اور لکھنے والوں کےلیے یہ ہمیشہ ایک اثر انگیز، قابل توجہ اور پرکشش موضوع رہا ہے۔ اس موضوع پر بہت لکھا گیا ہے جس میں عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے، انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرنے کی کوشش ضرور کی گئی۔ لیکن بس بات برائے بات ہی رہی اور بات کچھ بنتی نظر نہیں آئی۔ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہونے کی مشہور مثال کی عملی تفسیر ظہور پذیر ہوتی نظر نہیں آئی۔ ہاں وقتی اور انفرادی اثرات ان تحاریر کے ضرور سامنے آئے لیکن کوئی اجتماعی اثر اور مستقل نتیجہ مرتب نہیں ہو پایا۔ تو یہ معمولی سا بلاگ اس سلسلے میں کیا اضافہ کرسکتا ہے؟

لیکن ایک فرض کفایہ سمجھ کر مٹی اور انسانیت کی محبت میں یہ قرض اتارنے کی ایک حقیر سی کوشش ضرور ہے۔ ایک ایسا قرض جس کا اتارنا بقول فیض ہم پر واجب بھی نہیں ہے؎

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

محسوس کچھ یوں ہورہا ہے کہ دنیا کے ٹھیکیداروں اور عالمی منصفین، اور انسانی حقوق کے علم بردار کہنے والے ممالک اور خاص طور پر اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر بے حسی اور لاتعلقانہ رویوں سے دہکائے ہوئے دنیاوی جہنم کو دیکھ دیکھ کر ستر سال سے کشمیر کے مظلوم، مجبور اور بے بس عوام نمکین آنسوؤں سے روتے روتے تھک کر اب لہو کے آنسوؤں سے رونا شروع ہوگئے ہیں۔

اس مسئلے کے حل کےلیے وہی عالمی طاقتیں جو انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے مسئلے کو حل کرنے کےلیے دو تین دنوں میں نظام بنا کر وہاں اقوام متحدہ کے امن دستے اتار دیں، جو اسرائیل کے ناجائز وجود کو تقویت دینے کےلیے ہر قسم کے جائز و ناجائز اقدامات کرنے اور مظلوم فلسطینوں کو تباہ و برباد رکھنے میں ذرا نہ ہچکچائیں اور دنیا بھر میں اپنے مقصد کےلیے مسلمان ممالک، علاقوں اور خطوں میں جنگ اور بدامنی کے شعلوں کو خوب ہوا دیں اور اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب اور مسلمانوں کو دہشت پسند ثابت کرنے میں پروپیگنڈے کے سارے ہتھیاروں کو آخری حد تک استعمال کریں اور جو ساری دنیا میں مسلمان علاقوں میں پھیلی بدامنی، بربریت اور دہشت گردی پر طنزیہ اور مزاحیہ تبصرے اپنے اپنے فورمز پر کرتے ہوں، وہ مسئلہ کشمیر، کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنے اور انڈین بربریت کو لگام دینے میں واقعی کوئی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں یا کریں گے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں کے مصداق بات ہے۔

یہ امید رکھنے والے بناسپتی دانشوران، سیاسی قائدین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کےلیے میر تقی میر کا یہ شعر میرے خیال میں کافی و شافی جواب ہے کہ؎

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

بالکل ایسے ہی ہم بھی ان سب فریقین سے مسئلہ کشمیر کے حل کی امید پر برسوں سے کشمیر ڈے منائے جارہے ہیں، جن کے کئی بڑے مفادات اس مسئلے کے لاینحل رہنے میں پوشیدہ ہیں۔

فرض کریں کہ اگر اکتوبر سینتالیس قبائلی جہاد نہ ہوا ہوتا تو کیا وہ حصہ جو آزاد کشمیر کہلاتا ہے، اتنا بھی علاقہ آزاد ہو پاتا؟ انڈیا جو بھاگ کر اقوام متحدہ میں گیا تھا، وہ پھر جاتا؟ نہیں بلکہ پھر سارے کا سارا کشمیر وہی بربریت جھیل رہا ہوتا جو فی الحال انڈین مقبوضہ کشمیر کے لوگ جھیل رہے ہیں۔ اگر ہم اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں اور ان کے اداروں سے امید لگائے بیٹھے رہے تو مجھے لگتا ہے کہ معاملات میں اگر کوئی جوہری قسم کی تبدیلی نہ آگئی تو خاکم بدہن ہم آئندہ پچاس سال بعد بھی اسی طرح بڑے ولولہ انگیز طریقے سے کشمیر ڈۓ منا رہے رہیں ہوں گے اور مظلوم کشمیری یونہی آس لگائے ظلم کی چکی میں پس رہے ہوں گے۔

اس مسئلے کا حل نکالنا دنیا بھر کی اور خاص طور پر برطانیہ عظمیٰ کی ذمے داری ہے کہ وہ ہی تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کا ذمے دار ہے یا پھر دنیا کی سپر پاور کی حیثیت سے ٹھیکیدار بنے امریکا بہادر اور اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے۔ کیونکہ اگر وہ اسے جلد حل نہیں کرتے، چاہے وجوہات جو بھی ہوں اور یونہی غفلت، لاپرواہی و لاتعلقی اور بے حسی کا رویہ رکھیں گے تو جو آگ بھڑکے گی اس کے شعلے سارے ہندوستان کو خاکستر کرتے ہوئے اپنی آنچ سے ان عالمی ٹھیکداروں کو بھی جلادیں گے اور ان کی صدیوں پر محیط عالمی بالادستی کے ورلڈ آرڈرز جیسے منصوبوں کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔ تو انہیں چاہیے کہ چاہے وہ مسلمانوں کو نیم انسان سمجھیں لیکن اپنی بقا اور فائدے کےلیے ہی دنیا کے نقشے پر دو سلگتے ترین فلیش پوائنٹس یعنی کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے ہی حل کرلیں۔ وگرنہ یہ دونوں مسئلے اتنے خطرناک قسم کے ٹائم بم ہیں کہ اگر پھٹے تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔

اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا مکافات عمل کا نظام ہے، جو اٹل ہے اور اس سے کوئی نہیں بچا اور اس مکافات عمل کے نظام کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ کفر کے نظام کو تو برداشت کرلیتا ہے اور مصلحتاً چلنے دیتا ہے، لیکن ظلم کے نظام کو باقی نہیں رہنے دیتا اور کشمیر، فلسطین اور دیگر کئی علاقوں میں عالمی و علاقائی سازشوں کے نتیجے میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ بنیادی انسانی حقوق کی ہر تعریف کے مطابق بدترین ظلم و ستم ہے اور کچھ نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں