پھیرن میں لپٹی آزادی

دنیا کی کوئی بھی طاقت کشمیریوں کو ان کے جائز حق خود ارادیت سے محروم نہیں کرسکتی


انعم احسن February 05, 2020
کشمیریوں کا جذبہ آزادی آج جس قدر عروج پر ہے، اتنا ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پانچ اگست 2019 وہ تاریک دن تھا جب کشمیر کے افق پر چنار کے سنہری پتوں کی سرسراہٹ ہمیشہ کےلیے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دن سرخ کشمیری سیبوں کی لالی کو تاریک بنانے کی کوشش کی گئی۔ آسمان پر اڑتے چکور اور دان گیروں کو پنجروں میں بند کیا گیا۔ کشمیری چناروں پر چہچہاتی چڑیوں کو نریندر مودی کی تیار کردہ بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا۔ اس دن جہلم اور نیلم کے شفاف پانیوں کو قید کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ پانچ اگست کو لولاب کے میدانوں، سری نگر کے پہاڑوں اور جموں کے کھیتوں کو ویران کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔

پانچ اگست کے بعد ایک نئے کشمیر کی ابتدا ہوئی۔ وہ کشمیر جو کھلا جیل تھا۔ جہاں بولنے پر پابندی تھی۔ جہاں سانس لینے پر بیڑیاں تھیں۔ جہاں جینے پر قید تھی اور جہاں مرنے پر بھی راحت نہیں تھی۔ اس کشمیر میں ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جیل سے آزادی کی صدائیں بلند ہوئیں۔ بیڑیوں میں جکڑے ہاتھوں سے رستا خون آزادی کا پیغام بننے لگا تھا۔ خاموش اور لرزتے ہونٹوں سے بغاوت کی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔ جہاں ہر اٹھتی لاش کے ساتھ آزادی کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ پیلٹ گنوں کے چھروں سے چھلنی آنکھیں امید کا پیغام دے رہی تھیں۔ وہی امید جو آزادی کی راہ دکھا رہی تھی۔ جو جینے کا حوصلہ دیتی تھی۔ جو ڈٹ جانے کےلیے استقامت کا سامان تھی۔ اہل کشمیر آج چھ ماہ ہونے کو ہیں، اسی امید کے سہارے جی رہے ہیں۔

کئی ماہ تک کشمیر سے کوئی خیر و خبر کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ کشمیری صحافیوں اور انسانی حقوق کی کارکنان سے رابطہ بھی نہیں ہورہا تھا۔ لیکن اچانک ایک دن مجھے پیغام ملا کہ آپ کے نام کا ایک پارسل آیا ہوا ہے۔ پارسل وصول کیا۔ پیکنگ کھولتے ہی میری آنکھیں بھیگ سی گئیں۔ وادی کشمیر سے وہاں کا ثقافتی لباس پھیرن میرے لیے آیا تھا۔ سری نگر سے چلنے والے دو پھیرن بھارت اور دبئی سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ پھیرن کھولتے ہی میری آنکھیں بھیگ سی گئیں۔ خود زندگی سے لڑنے والے کشمیری اپنے مصائب و آلام کے باوجود پاکستان کو نہیں بھولے تھے۔ انہوں نے سردیوں کی ابتدا ہی میں مجھے سردیوں کا تحفہ بھیج دیا۔ پھیرن کے ساتھ ایک نوٹ بھی درج تھا، جس پر لکھا تھا۔

کبھی آؤ نا کشمیر
جہاں کبھی پھول کھلتے تھے
جہاں چشمے بہتے تھے
جہاں آبشاریں گرتی تھیں
جہاں کوہسار گنگناتے تھے
جہاں کوئل سریلے گیت گاتی تھی
جہاں بلبل نالے سناتے تھے
وہاں اب خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے
معصوم کلیاں مسلی جاتی ہیں
اب وہاں مائیں رلائی جاتی ہیں

میں کشمیری نہیں، لیکن میرا دل کشمیر کےلیے دھڑکتا ہے۔ بچپن سے ہی کشمیر کے پہاڑوں، جنگلات، وادیوں اور کشمیری ثقافت سے بہت انسیت رہی ہے۔ اسی انسیت کا تذکرہ وادی میں موجود کچھ خاتون صحافیوں سے کیا تھا اور انہوں نے آج تک میری اس بات کو یاد رکھا۔ پھیرن کا تحفہ وصول کرتے ہی میری آنکھیں بھیگ سی گئیں۔ میرے الفاظ جواب دے گئے۔ جب بھی کشمیری پھیرن پہنتی ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کشمیر کی یخ بستا فضاؤں میں سانس لے رہی ہوں۔ آزاد ہوائیں اور دلفریب مناظر مجھے اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں۔ پھیرن پہنتے ہی مجھے کشمیریوں کے احساسات، مہمان نوازی، جرأت مندی اور آزادی کی امید پر یقین کامل ہوجاتا ہے۔

پھیرن کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ کشمیری مزاحمت کی علامت اور کشمیری کلچر کی نشانی ہے۔ لاک ڈاؤن، پابندیوں، کرفیو اور بھارت کے ریاستی جبر کے بیچ پھیرن کا پاکستان میں پہنچ جانا اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت کشمیریوں کو ان کے جائز حق خود ارادیت سے محروم نہیں کرسکتی۔ کشمیریوں کا جذبہ آزادی آج جس قدر عروج پر ہے، اتنا ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔

آج کشمیریوں کی حالت دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں کہ پاکستان کی محبت میں مصائب برداشت کرنے والوں کےلیے ہم نے کیا کیا؟ کئی سوالات ہیں جن کے جواب میں گزشتہ چھ ماہ سے تلاش کر رہی ہوں۔ نریندر مودی نے کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر مکاری کا آخری حربہ بھی آزما لیا ہے، مگر ہم تاحال تقاریر کا سہارا لے رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ ہم کشمیریوں کا مقدمہ لڑسکیں۔ او آئی سی سے لے کر اقوام متحدہ تک، قومی اور بین الاقوامی فورمز سے لے کر دیگر سفارتی محاذوں پر ہم کشمیر کا مقدمہ پیش نہیں کرسکے۔ ہم اندرونی سیاست میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کشمیریوں کی سیاسی حمایت بھی نہیں کرسکے۔ بھارت ہمیں آزاد کشمیر پر قبضے کے دھمکیاں دے رہا ہے لیکن ہم چند ٹوئٹس اور بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ مقبوضہ کشمیر سے باہر موجود کشمیری خواتین سے جب بھی بات ہوئی انہوں نے موجودہ حکومت سے کئی امیدوں کا اظہار کیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑے گی۔ لیکن ہم جمعہ کو چند منٹ یکجہتی کا نعرہ لے کر نکلے اور یہ سلسلہ بھی دو ہفتے سے زیادہ ہم چلا نہیں سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے دفتر خارجہ کو خصوصی ٹاسک دے۔ پارلیمنٹیرینز کے وفود بنائے جائیں اور انہیں دنیا بھر کی پارلیمنٹس کے دورے کرائے جائیں۔ ان پارلیمنٹرینز کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا معاملہ نہیں بلکہ اس جدید دنیا میں انسانی حقوق کی سنگینی پامالیوں کا معاملہ ہے۔ وزیراعظم کے بیانات کے تناظر میں بتایا جائے کہ اس مسئلے کے حل نہ ہونے سے ایک ایسا لاوا ابلنے کا خدشہ ہے کہ جس کی لپیٹ میں ساری دنیا آسکتی ہے۔ اس مسئلے سے عالمی امن بھی خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

آج کشمیری پھیرن میرے لیے آزادی کا پیغام بنی ہوئی ہے۔ اس میں موجود پشمینہ کا ایک ایک دھاگہ یہ درس دے رہا ہے کہ جتنی مضبوطی کے ساتھ ہم بحثیت قوم جڑے رہیں گے، اتنی تندہی کے ساتھ ہی کشمیر کا مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں