راولپنڈی میں کرفیو اٹھانے کے بعد حالات بدستور کشیدہ مشتعل افراد کی ہنگامہ آرائی

فوارہ چوک اوراطراف کےعلاقوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نےکنٹرول سنبھال کرعوام کا داخلہ بند کردیا ہے۔


ویب ڈیسک November 18, 2013
راولپنڈی میں بعض مقامات پر مشتعل افراد نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے دکانیں بند کرادیں، فوٹو: اے ایف پی/ فائل

یوم عاشور کے موقع پر دو گروپوں کے درمیان تصادم کے بعد لگایا گیا کرفیوختم ہونے کے بعد بھی شہر میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اور مختلف علاقوں میں مشتعل افراد کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے لوگوں کے چہروں میں اب بھی خوف کے سائے جھلک رہے ہیں۔

راولپنڈی میں آج صبح 6 بجے تین روز قبل لگائے گئے کرفیو کو اٹھا لیا گیا ہے جبکہ موبائل فون سروس بھی بحال ہوگئی ہے، انتظامیہ نے راولپنڈی کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا کر ٹریفک کی آمد و رفت کو بحال کردیا ہے، تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، بینک، کاروباری مراکز اور مارکیٹیں کھل گئی ہیں تاہم راجابازار، باڑامارکیٹ، سبزی منڈی، اردوبازار اور صرافہ مارکیٹ سمیت کئی بازار بند ہیں ،اس کے علاوہ بعض مقامات پر مشتعل افراد نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے دکانیں بند کرادیں ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں اب بھی خوف پایا جاتا ہے اور روز مرہ معمولات انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن اندرون ملک سے آنے اور جانے والی بسوں کے اڈے پر مسافروں کی آمد ورفت بھی شروع ہو گئی ہے تا ہم شہر کے مختلف علاقوں میں کھانے پینے کی چیزوں کی شدید قلت ہے۔ شہر کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے انٹر میڈیٹ کا آج ہونے والا پرچہ منسوخ کردیا گیا ہے جس کے لئے نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

کرفیو کے خاتمے اور معمولات زندگی کی بحالی کے باوجود شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے، کسی بھی جگہ پر 4 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر مکمل طور پر پابندی ہے، پولیس کی بھاری نفری اب بھی متاثرہ علاقوں اور اہم سڑکوں پر موجود ہے جبکہ اہم عبادت گاہوں پر سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید سخت کردیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمنٹنے کے لئے فوج کو الرٹ رکھا گیا ہے۔ فوارہ چوک اور اطراف کے علاقوں میں فوج تعینات ہے اور وہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے۔

دوسری جانب جائےوقوعہ پر 50 سے زائد عمارتیں بری طرح متا ثر ہیں، جن کے گرنے کا بھی خدشہ ہے، جن کی صفائی اور وہاں سے ملبہ ہٹانے کا کام ابھی بھی جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں