اونچے لوگوں کی اونچی سوچیں
اراکین اسمبلی خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی تواتنے خوشحال ہیں کہ اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے ذاتی کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے جانے لگے تو حضرت عمر ؓ نے کہا کہ آپ خلیفہ وقت کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں، اس لیے اب کاروبار کے بجائے ریاست مدینہ آپ کی اولین ذمے داری ہے۔ اس موقع پر گزر بسر کے لیے آپ کی تنخواہ کا معاملہ اٹھایا گیا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ ان کی تنخواہ مدینہ میں کام کرنے والے مزدور کی تنخواہ کے برابر ہو گی۔
صحابہ کرام نے کہا کہ اس میں آپ کا گزر بسر مشکل سے ہو گا کیونکہ مزدور کی تنخواہ کم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا اگر اس تنخواہ میں گزر بسر نہ ہو سکا تو میں ریاست مدینہ کے مزدور کی تنخواہ بڑھا دوں گا۔ یہ فرمان خلیفہ وقت کا تھا اور ایک ہمارے حکمران ہیں جو دعویدار تو ریاست مدینہ کے ہیں مگر ریاست مدینہ کے اصولوں سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ خبر یہ ہے کہ ایوان بالا میں چند ارکان نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے بل پیش کیا ہے۔
خبروں کے مطابق حکومت کے ساتھ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جماعت اسلامی نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میںمجوزہ اضافے کی مخالفت کی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے معزز اراکین پارلیمنٹ کو کیا احساس نہیں کہ پاکستانی عوام اس وقت کس عذاب سے گزر رہے ہیں، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، اس پر جب وہ اپنے نمایندوں کی عیاشیوں کی خبریں سنتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے، وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے نمایندے کس قدر بے حس ہیں جنھیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ تو مطلوب ہے کہ ان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ حکومت کی جانب سے مزدور کی مقررکردہ اجرت صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہے، کیا ان نمایندوں کو یہ علم ہے کہ ان پندہ ہزار روپوں میں ایک گھر کی گزر بسر کیسے ہو سکتی ہے ۔ بے حیائی ، بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو اسمبلیوں میں موجود ہمارے نمایندے شیر و شکر ہو جاتے ہیں اور یک زبان ہو کر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کی فوری منظوری دے دی جاتی ہے۔ چند ماہ پہلے ایسا ہی قانون پنجاب میں بھی بنایا گیا جس پر وزیر اعظم نے برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں جب معاملہ دب گیا تو معمولی ردو بدل کے ساتھ خاموشی سے تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری دی گئی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ کروڑوں خرچ کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے منتخب ارکان کو عوام کے پیسے پر کسی تنخواہ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے نمایندے اتنے امیر کبیر ہیں کہ انھیں عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسے سے تنخواہ وصول نہیں کرنی چاہیے لیکن ہمارے وزیر اعظم بھی یہ کہتے ہیں کہ ان کا تنخواہ میں گزرا نہیں ہوتا جب ریاست مدینہ کے دعویدار کا لاکھوں کی تنخواہ میں گزرا مشکل ہے تو دوسری طرف ان کے ممبران بھی انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ملکی وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس کے ذمے دار ہیں جن کو حقیقت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھونا چاہتا ہے اور دھو رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں سیاستدانوں کا ایک جم غفیر موجود ہے جس کا سب سے بڑا دائرہ اسمبلیاں ہیں یہاں وہ حزب اختلاف اور حزب اقتدارکے علاوہ آزاد صورت میں بھی بیٹھا کرتے ہیں مگر درحقیقت سب ایک ہیں، اصل کام میں سب حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں جب کبھی ان کی مراعات کا سوال اٹھتا ہے تو ان کے خلاف ایک ووٹ بھی نہیں آتا لیکن کتنے ہی قومی معاملات میں یہ بڑے شدید اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں اور خوب لڑتے بھڑتے ہیں، ان لوگوں نے عوام کا نمایندہ بن کر ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
سینیٹ میں ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کے لیے پیش کی جانے والی تحریک کثرت رائے سے مسترد ہو گئی ہے لیکن ارکان کی ایک معقول تعداد نے اپنی غربت کا رونا روتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کی شد و مد سے حمایت بھی کی ہے، ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی کار کردگی کو دیکھتے ہوئے ان کے بھتے میں اضافہ تو کیا بلکہ ان پر جرمانہ عائد ہونا چاہیے کیونکہ انہو ں نے قومی خزانے کے کروڑوں روپے ضایع کیے اور کام ٹکے کا نہیں کیا۔ جب اس ملک کا سب سے بڑا منتخب ادارہ اپنے فرائض کی پرواہ نہ کرے تو قوم سرکار کے کس ملازم سے کہہ سکتی ہے کہ وہ بد عنوانی نہ کرے اور فرض شناسی سے کام لے۔
بہرکیف یہی کچھ ہوتا آیا ہے یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہی کچھ ہوتا رہے گا مگر کب تک۔ غیر ذمے داری ، خود غرضی اور لالچ کا یہی عالم رہا تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کرنے والی بات ہو گی۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی تو اتنے خوشحال ہیں کہ اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں جنھیں ایسے اضافوں کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی چند لاکھ کی تنخواہ نہیں چھوڑتے ۔ اسی لیے ان کے ذہن میں ایسے نادر خیالات آتے رہتے ہیں جس طرح صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے اسی طرح خوشحال ذہن میں خوشحال منصوبے پرورش پاتے ہیں چنانچہ ہمارے بڑے لوگ جب خوشحال لوگ زندگی بسر کریں گے اور ان کی زندگیوں کا معیار اونچا ہو گا تو ان کی سوچ بھی اونچی ہو گی ۔ قوم کو ایسی ہی اونچی سوچ والوں کی ضرورت ہے، اس اعلیٰ مقصد کے لیے چند کروڑ بلکہ چند ارب روپوں کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان اونچی سوچ والوں سے اونچے نتائج کا انتظار کریں کہ تنخواہوں میں اضافہ وقتی طور پر مسترد کیا گیا ہے۔
صحابہ کرام نے کہا کہ اس میں آپ کا گزر بسر مشکل سے ہو گا کیونکہ مزدور کی تنخواہ کم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میرا اگر اس تنخواہ میں گزر بسر نہ ہو سکا تو میں ریاست مدینہ کے مزدور کی تنخواہ بڑھا دوں گا۔ یہ فرمان خلیفہ وقت کا تھا اور ایک ہمارے حکمران ہیں جو دعویدار تو ریاست مدینہ کے ہیں مگر ریاست مدینہ کے اصولوں سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ خبر یہ ہے کہ ایوان بالا میں چند ارکان نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے بل پیش کیا ہے۔
خبروں کے مطابق حکومت کے ساتھ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور جماعت اسلامی نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میںمجوزہ اضافے کی مخالفت کی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے معزز اراکین پارلیمنٹ کو کیا احساس نہیں کہ پاکستانی عوام اس وقت کس عذاب سے گزر رہے ہیں، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، اس پر جب وہ اپنے نمایندوں کی عیاشیوں کی خبریں سنتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے، وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے نمایندے کس قدر بے حس ہیں جنھیں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ تو مطلوب ہے کہ ان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ حکومت کی جانب سے مزدور کی مقررکردہ اجرت صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ ہے، کیا ان نمایندوں کو یہ علم ہے کہ ان پندہ ہزار روپوں میں ایک گھر کی گزر بسر کیسے ہو سکتی ہے ۔ بے حیائی ، بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو اسمبلیوں میں موجود ہمارے نمایندے شیر و شکر ہو جاتے ہیں اور یک زبان ہو کر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کی فوری منظوری دے دی جاتی ہے۔ چند ماہ پہلے ایسا ہی قانون پنجاب میں بھی بنایا گیا جس پر وزیر اعظم نے برہمی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں جب معاملہ دب گیا تو معمولی ردو بدل کے ساتھ خاموشی سے تنخواہوں میں اضافہ کی منظوری دی گئی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ کروڑوں خرچ کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے منتخب ارکان کو عوام کے پیسے پر کسی تنخواہ کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے نمایندے اتنے امیر کبیر ہیں کہ انھیں عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسے سے تنخواہ وصول نہیں کرنی چاہیے لیکن ہمارے وزیر اعظم بھی یہ کہتے ہیں کہ ان کا تنخواہ میں گزرا نہیں ہوتا جب ریاست مدینہ کے دعویدار کا لاکھوں کی تنخواہ میں گزرا مشکل ہے تو دوسری طرف ان کے ممبران بھی انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ملکی وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس کے ذمے دار ہیں جن کو حقیقت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھونا چاہتا ہے اور دھو رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں سیاستدانوں کا ایک جم غفیر موجود ہے جس کا سب سے بڑا دائرہ اسمبلیاں ہیں یہاں وہ حزب اختلاف اور حزب اقتدارکے علاوہ آزاد صورت میں بھی بیٹھا کرتے ہیں مگر درحقیقت سب ایک ہیں، اصل کام میں سب حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں جب کبھی ان کی مراعات کا سوال اٹھتا ہے تو ان کے خلاف ایک ووٹ بھی نہیں آتا لیکن کتنے ہی قومی معاملات میں یہ بڑے شدید اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں اور خوب لڑتے بھڑتے ہیں، ان لوگوں نے عوام کا نمایندہ بن کر ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
سینیٹ میں ارکان کی تنخواہوں میں اضافہ کے لیے پیش کی جانے والی تحریک کثرت رائے سے مسترد ہو گئی ہے لیکن ارکان کی ایک معقول تعداد نے اپنی غربت کا رونا روتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کی شد و مد سے حمایت بھی کی ہے، ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی کار کردگی کو دیکھتے ہوئے ان کے بھتے میں اضافہ تو کیا بلکہ ان پر جرمانہ عائد ہونا چاہیے کیونکہ انہو ں نے قومی خزانے کے کروڑوں روپے ضایع کیے اور کام ٹکے کا نہیں کیا۔ جب اس ملک کا سب سے بڑا منتخب ادارہ اپنے فرائض کی پرواہ نہ کرے تو قوم سرکار کے کس ملازم سے کہہ سکتی ہے کہ وہ بد عنوانی نہ کرے اور فرض شناسی سے کام لے۔
بہرکیف یہی کچھ ہوتا آیا ہے یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہی کچھ ہوتا رہے گا مگر کب تک۔ غیر ذمے داری ، خود غرضی اور لالچ کا یہی عالم رہا تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کرنے والی بات ہو گی۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی خوشحال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی تو اتنے خوشحال ہیں کہ اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں جنھیں ایسے اضافوں کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی چند لاکھ کی تنخواہ نہیں چھوڑتے ۔ اسی لیے ان کے ذہن میں ایسے نادر خیالات آتے رہتے ہیں جس طرح صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے اسی طرح خوشحال ذہن میں خوشحال منصوبے پرورش پاتے ہیں چنانچہ ہمارے بڑے لوگ جب خوشحال لوگ زندگی بسر کریں گے اور ان کی زندگیوں کا معیار اونچا ہو گا تو ان کی سوچ بھی اونچی ہو گی ۔ قوم کو ایسی ہی اونچی سوچ والوں کی ضرورت ہے، اس اعلیٰ مقصد کے لیے چند کروڑ بلکہ چند ارب روپوں کا اضافہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ان اونچی سوچ والوں سے اونچے نتائج کا انتظار کریں کہ تنخواہوں میں اضافہ وقتی طور پر مسترد کیا گیا ہے۔