کورونا وائرس رضاکار پاکستانی طلبا کا بے مثال کردار

پاکستانی طلبا کی غالب اکثریت نے اپنی بساط کی حد تک چینی حکومت اور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھرپور تعاون کیا


کامران امین February 05, 2020
پاکستانی طلبا کی بہت بڑی تعداد نے اپنے اپنے علاقوں میں کمیونٹی سروسز میں حصہ لیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جنوری کے آخری ہفتے میں جونہی یہ خبر عام ہوئی کہ کورونا وائرس متاثرہ مریض سے دوسرے صحت مند انسانوں میں بھی منتقل ہوسکتا ہے، چینی حکومت نے 33 میں سے 31 صوبوں میں صحت کی ایمرجنسی نافذ کرکے شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگادیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں تاحکم ثانی بند کردی گئیں۔ چین میں اس وقت تقریباً تیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی طلبا مختلف شعبوں میں تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں تقریباً 8 ہزار کے قریب طلبا حکومت چین کی طرف سے اسکالرشپ پروگرام کے تحت تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ بڑی تعداد میں طلبا اپنے خرچے پر پڑھ رہے ہیں۔

جنوری میں تعلیمی سال اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور اس کے ساتھ عموماً جنوری کے آخری ہفتے یا فروری کے پہلے ہفتے میں چینی اپنے نئے سال کا تہوار مناتے ہیں۔ جس کی چھٹیاں سال بھر میں سب سے زیادہ ملتی ہیں۔ نئے سیمسٹر کا آغاز چونکہ نئے سال کے تہوار کے بعد ہی ہوتا ہے، لہٰذا عموماً پاکستانی طلبا اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو نکل پڑتے ہیں۔ چونکہ وائرس کے مہلک اثرات بھی جنوری کے آخری ہفتے میں جاکر سامنے آئے اور اس وقت تک پاکستانی طلبا کی بڑی تعداد اپنے گھروں کو لوٹ چکی تھی لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں طلبا ابھی بھی چین میں موجود تھے۔

جونہی یہ نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ تعلیمی اداروں میں تمام سرگرمیاں تاحکم ثانی بند کردی جائیں تو ساتھ ہی ہاسٹل میں رہنے والے طلبا کو بھی بلاضرورت اور بلا اجازت باہر نکلنے سے منع کردیا گیا۔ اس موقع پر طلبا میں شدید پریشانی کی لہر پیدا ہوئی اور بہت سارے طالب علم ڈر اور خوف سے بالکل سہم گئے، باہر نکلنا بند کردیا۔ لیکن ایسے میں کچھ پاکستانی طلبا نے تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ انتطامیہ کے شانہ بشانہ کام بھی کیا، جس کی کچھ تفصیلات پیش ہیں۔

بہت ساری یونیورسٹیوں میں جب طلبا کا باہر نکلنا بند کردیا گیا تو یونیورسٹی انتطامیہ نے کیپمس مینجمنٹ گروپ بنائے، جس میں پاکستانی رضاکار پیش پیش رہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر یہ پاکستانی رضاکار نہ صرف طلبا کو ان کے کمروں میں جاکر کھانا فراہم کرتے، بلکہ اشیائے ضرورت کی مختلف چیزیں بھی مارکیٹوں سے خرید کر دیتے رہے۔

پاکستانی طلبا کی بہت بڑی تعداد نے اپنے اپنے علاقوں میں کمیونٹی سروسز میں حصہ لیا اور مقامی حکومتوں سے مل کر شہریوں میں ماسک اور حفاظتی سامان بانٹا۔ اسی طرح کچھ پاکستانی طلبا نے پاکستان سے اپنے خرچے پر ماسک وغیرہ منگوا کر طلبا میں تقسیم کروائے، چونکہ ماسک ختم ہوچکے تھے۔

بہت سارے پاکستانی طلبا نے خون کے عطیات دینے کی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حالانکہ اس کا کورونا وائرس سے ڈائریکٹ لنک نہیں تھا، لیکن بہت ساے مریضوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر خون کی ضرورت درپیش تھی۔ صحت سے متعلقہ ہمارے کچھ پاکستانی دوستوں نے رضاکارانہ اپنی خدمات حکومت چین کو پیش کیں۔ کمروں میں بند رہنے کی وجہ سے طلبا کی بڑی تعداد ڈپریشن اور دوسرے مسائل کا شکار ہونے لگی تو فوراً کچھ طلبا نے ان مسائل کے تدارک کےلیے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنائی، جس میں پاکستان سے بھی بہت سارے نفسیاتی امور سے متعلقہ ماہرین نے ہمارا ساتھ دیا۔ اس کے ساتھ مختلف گروپس بنائے گئے اور ابھی الحمدللہ نفسیاتی امور سے متعلقہ ماہرین کی یہ ٹیم طلبا کو چین بھر میں مفت کونسلنگ اور رہنمائی فراہم کرنے میں مصروف ہے۔

عطیات کی اپیل پر پاکستانی طلبا نے نہ صرف خود دل کھول کر عطیات دیئے بلکہ اپنے خاندان اور دوستوں سے بھی عطیات اکٹھے کرکے حکومت چین کو فراہم کیے۔ الغرض پاکستانی طلبا کی غالب اکثریت نے اپنی بساط کی حد تک جتنا ممکن ہوا چینی حکومت اور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھرپور تعاون کیا اور آگے بڑھ کر رضاکارانہ اپنی خدمات بھی پیش کیں۔

بہت سے پاکستانی طالب علم جو اس پوزیشن میں تھے کہ گھروں میں واپس جاسکتے تھے، لیکن وہ اسی خدمت کے جذبے کی وجہ سے چین میں رک گئے۔ ہم پاکستانی طلبا چین کہ اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور مشکل کی اس گھڑی میں ہم چینی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور جہاں تک ہم سے ممکن ہوتا رہا ہم آگے بھی چینی حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ اس ناگہانی آفت کا مل کر مقابلہ کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں