ڈرامے’’آ دھاڑیں مار کے روئیں‘‘ کا اسکرپٹ برائے فروخت
ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اتنا روتادھوتا اسکرپٹ آپ نے کبھی نہیں پڑھا ہوگانہ اتنادکھ سے بھرپورڈراما کبھی آن ایئرگیاہوگا۔
پاکستان کے انٹرٹینمینٹ چینلز متوجہ ہوں۔ ہم نے ایک عدد ڈرامے کا اسکرپٹ بہ قلم خود لکھا ہے، جو ٹی وی چینلز کی ضروریات اور ان کی ناظرین کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔
ڈرامے کا نام ہے ''آ دھاڑیں مار کے روئیں۔'' ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اتنا روتا دھوتا اسکرپٹ آپ نے کبھی نہیں پڑھا ہوگا نہ اتنا دکھ سے بھرپور ڈراما کبھی آن ایئر گیا ہوگا، جس کے نشر ہوتے ہی اور تو اور ٹی وی اسکرینیں بھی گیلی ہوجایا کریں گی۔ یہ ڈراما لکھتے ہوئے ہرہر سطر پر ہماری آنکھیں نم ہوجاتی تھیں اور ہر صفحے پر ہم بلک بلک کر رودیا کرتے تھے، اکثر ایسا ہوا کہ رومال پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے آنسو اور ان کی سنگت میں بہہ آنے والی ناک اسکرپٹ کے صفحوں ہی سے صاف کی، اسی لیے یہ اسکرپٹ کئی مہینوں میں مکمل کرپائے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر کام میں خدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے، تو غلیظ کاغذوں کا انبار کمرے میں لگا دیکھ کر بیگم سے ہم نے جو ڈانٹ سُنی اور جو ذلت اٹھائی اس کے باعث دل مزید غم گین ہوگیا اور اس غم میں ڈوب کر لکھا تو اسکرپٹ خوف ناک حد تک دردناک ہوگیا۔ یہ بھی بتادیں کہ بیگم کو شک تھا کہ ہم اسکرپٹ نہیں کسی حسینہ کو کمینہ سا خط لکھ رہے ہیں۔
ہمارے آنسوؤں اور ناک نے صفحات پر لکھی تحریر کی وہ گت بنائی تھی کہ انھیں اپنے حق میں بہ طور ثبوت بھی پیش نہیں کرسکتے تھے۔ غضب تو تب ہوا جب ہم نے آنکھوں اور ناک کی صفائی سے پیدا ہونے والے شک کو ختم کرنے کے لیے اپنی صفائی یوں پیش کی،''ارے بیگم! تم بھی کتنی بھولی ہو۔۔۔۔ ہی ہی ہی، اس دور میں ایسی باتیں خط میں کون لکھتا ہے، میں تو یہ سب ہمیشہ ایس ایم ایس کرتا ہوں پگلی۔'' بس پھر کیا تھا، ہم پر تو خیر جو گزری سو گزری، لیکن ہمارے ساتھ ہونے والے سلوک نے اسکرپٹ میں غم اتنا بھردیا کہ چھلکا پڑ رہا ہے۔
ہم شرطیہ کہتے ہیں کہ یہ ڈراما خوش باش ترین خواتین کو بھی غم زدہ اور فرسٹریٹ کرکے چھوڑے گا، بعض مناظر اور قسطیں انھیں امراض قلب یہاں تک کے تپ دق کا شکار بھی کر سکتی ہیں۔ مستقل ٹینشن، مسلسل صدمات اور متواتر رونے پر مشتمل یہ کہانی صرف رلائے گی نہیں جوڑوں میں باہمی شکوک وشبہات پیدا کرکے گھروں کو جہنم بنائے اور طلاقیں بھی کروائے گی۔ اس کے علاوہ یہ ڈراما دیکھ کر ہر ساس بہو کو جان کا دشمن نہ سمجھ لے، ہر بہو کو ساس میں پوری کی پوری ''را'' اور ''موساد'' نہ نظر آنے لگے، نند، بھاوج کے پکائے کھانے کا پہلا نوالہ کُتّے کو کھلا کر زہر ہونے کا شک دور نہ کرے اور بھاوج بیڈ کے نیچے اور الماری کے پیچھے امکانی طور پر نند کی طرف سے رکھا ہوا کالے علم کا تعویز نہ ڈھونڈتی پھرے تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔ واضح کردیں کہ ہم عام چور کی بات کر رہے ہیں، اُن خاص چوروں کی نہیں جن پر چلنے والے مقدمات چلتے چلتے تھک کر چُور ہوکر آخر ختم ہوجاتے ہیں۔ چلیے بہت ہوگئی، اب آپ ڈرامے کی کہانی کا خاکہ پڑھیے اور یہ بتائیے کہ کتنے میں لیں گے۔
ڈرامے کی کہانی:
یہ جمیلہ خاتون اور ان کی تین بیٹیوں شکیلہ، عدیلہ اور راحیلہ کی کہانی ہے، شکیلہ کو غلام حسین سے محبت تھی، مگر غلام حسین کی شادی عدیلہ سے ہوگئی، راحیلہ کے شوہر بابو کو شکیلہ سے محبت تھی مگر اسے راحیلہ سے شادی کرنا پڑی، رہی عدیلہ تو اسے اپنے شوہر بشیر سے محبت نہیں تھی، چناں چہ اسے پڑوس کے خادم حسین سے محبت کرنا پڑی، خادم حسین فطرتاً باؤلے ہیں، اس لیے وہ عدیلہ کی محبت کو سمجھ نہیں پائے اور ایک دن اسے باجی عدیلہ کہہ بیٹھے، یہ سنتے ہی عدیلہ کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ اب رہی گئیں جمیلہ خاتون، رائٹر نے انھیں بھی خالی نہیں رہنے دیا، انھیں اپنی بیٹی شکیلہ کے سسر نورالدین عرف چچا چھچھورے سے محبت تھی، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر انھیں اپنی محبت قربان کرنی پڑی۔ ڈرامے کی ہر قسط میں یہ خواتین اپنی ناکام محبتوں پر روتی دھوتی نظر آئیں گی۔ ان پر بدقسمتی ہی مہربان رہے گی، یہ جس دن بیوہ ہوں گی تو عدت ختم سے پہلے ان کا محبوب انتقال فرما جائے گا، اس دکھی ڈرامے کی آخری قسط آدھی اسپتال اور آدھی قبرستان میں ریکارڈ کی جائے گی۔
عموماً ٹی وی ڈراموں کا ہر منظر کسی اُداس چہرے اور اس پر بہتے آنسوؤں اور برستی پھٹکار سے شروع ہوتا ہے، لیکن ہمارا تحریر کردہ ڈراما رونے دھونے اور نحوست کے سارے ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس ڈرامے کا ہر منظر ایک چیخ سے شروع ہوگا۔ بہ طور مثال کچھ مناظر پیش کیے دیتے ہیں۔
کیمرا جمیلہ خاتون کا بڑا سا منہہ دکھاتا ہے اور ساتھ ہی دل ہلادینے والی چیخ سُناتا ہے۔۔۔''نہیں ںںںںںں، یہ کیا ہوگیااااا میرے چھچھورے ے ے ے ے''، ظاہر ہے یہ چیخ جمیلہ بیگم کے منہہ سے برآمد ہوئی ہے، جو پورا کُھلا ہوا ہے۔ بعد میں انکشاف ہوتا ہے کہ پڑوس کی زینت عرف بی بی سی نے انھیں اطلاع دی تھی کہ ''اے لو، تمھاری لمڈیا نے نورالدین چچا چھچھورے کے لمڈے غفور سے بیاہ کرلیا۔''
عدیلہ کانوں پر دونوں ہاتھ رکھے دھاڑتی ہے، کیمرا گھر کا دروازہ دکھاتا ہے، جس کے عقب سے دھاڑ دروازہ پھاڑ کر باہر آرہی ہے، کیمرا دھاڑ کے تعاقب میں اندر کی طرف جیسے جیسے پڑھتا ہے، دھاڑ کا والیوم تیز ہوتا جاتا ہے، آخر عدیلہ کے منہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ عدیلہ دھاڑتے ہوئے کہہ رہی ہے،''اُف میں یہ سننے سے پہلے مر کیوں نہ گئی، تو نے یہ کیا کہہ دیا رے باؤلے۔'' پھر کیمرا خادم حسین کو دکھاتا ہے جو ڈرے سہمے کھڑے ہیں، منہہ حیرت سے کُھلا ہے، جس سے پیک نکل کر باچھوں پر بہہ رہی ہے۔ فلیش بیک میں دکھایا جاتا ہے کہ غلام حسین عدیلہ سے کہہ رہے ہیں،''عدیلہ باجی وہ امی کہہ رہی ہیں تھوڑی سی چینی دے دو، چینی نہیں ہے تو آٹا دے دو۔''
ایک منظر راحیلہ کے کئی فٹ اُچھل کر کمرے سے بھاگ جانے سے شروع ہوتا ہے، وہ اچھلتے ہوئے چِلا رہی ہے،''امی ی ی ی ی ی۔'' اس منظر پر قسط ختم ہوجاتی ہے۔ اگلی قسط میں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی سانحہ پیش نہیں آیا، بس راحیلہ نے دیوار پر چُھپکلی دیکھ لی تھی۔
چینلز اس صدمات سے بھرپور ڈرامے کی کہانی کے لیے اس کے تخلیق کار غم فروش دکھیارے سے فوری رجوع کریں۔
ڈرامے کا نام ہے ''آ دھاڑیں مار کے روئیں۔'' ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اتنا روتا دھوتا اسکرپٹ آپ نے کبھی نہیں پڑھا ہوگا نہ اتنا دکھ سے بھرپور ڈراما کبھی آن ایئر گیا ہوگا، جس کے نشر ہوتے ہی اور تو اور ٹی وی اسکرینیں بھی گیلی ہوجایا کریں گی۔ یہ ڈراما لکھتے ہوئے ہرہر سطر پر ہماری آنکھیں نم ہوجاتی تھیں اور ہر صفحے پر ہم بلک بلک کر رودیا کرتے تھے، اکثر ایسا ہوا کہ رومال پاس نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے آنسو اور ان کی سنگت میں بہہ آنے والی ناک اسکرپٹ کے صفحوں ہی سے صاف کی، اسی لیے یہ اسکرپٹ کئی مہینوں میں مکمل کرپائے۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ ہر کام میں خدا کی کوئی مصلحت ہوتی ہے، تو غلیظ کاغذوں کا انبار کمرے میں لگا دیکھ کر بیگم سے ہم نے جو ڈانٹ سُنی اور جو ذلت اٹھائی اس کے باعث دل مزید غم گین ہوگیا اور اس غم میں ڈوب کر لکھا تو اسکرپٹ خوف ناک حد تک دردناک ہوگیا۔ یہ بھی بتادیں کہ بیگم کو شک تھا کہ ہم اسکرپٹ نہیں کسی حسینہ کو کمینہ سا خط لکھ رہے ہیں۔
ہمارے آنسوؤں اور ناک نے صفحات پر لکھی تحریر کی وہ گت بنائی تھی کہ انھیں اپنے حق میں بہ طور ثبوت بھی پیش نہیں کرسکتے تھے۔ غضب تو تب ہوا جب ہم نے آنکھوں اور ناک کی صفائی سے پیدا ہونے والے شک کو ختم کرنے کے لیے اپنی صفائی یوں پیش کی،''ارے بیگم! تم بھی کتنی بھولی ہو۔۔۔۔ ہی ہی ہی، اس دور میں ایسی باتیں خط میں کون لکھتا ہے، میں تو یہ سب ہمیشہ ایس ایم ایس کرتا ہوں پگلی۔'' بس پھر کیا تھا، ہم پر تو خیر جو گزری سو گزری، لیکن ہمارے ساتھ ہونے والے سلوک نے اسکرپٹ میں غم اتنا بھردیا کہ چھلکا پڑ رہا ہے۔
ہم شرطیہ کہتے ہیں کہ یہ ڈراما خوش باش ترین خواتین کو بھی غم زدہ اور فرسٹریٹ کرکے چھوڑے گا، بعض مناظر اور قسطیں انھیں امراض قلب یہاں تک کے تپ دق کا شکار بھی کر سکتی ہیں۔ مستقل ٹینشن، مسلسل صدمات اور متواتر رونے پر مشتمل یہ کہانی صرف رلائے گی نہیں جوڑوں میں باہمی شکوک وشبہات پیدا کرکے گھروں کو جہنم بنائے اور طلاقیں بھی کروائے گی۔ اس کے علاوہ یہ ڈراما دیکھ کر ہر ساس بہو کو جان کا دشمن نہ سمجھ لے، ہر بہو کو ساس میں پوری کی پوری ''را'' اور ''موساد'' نہ نظر آنے لگے، نند، بھاوج کے پکائے کھانے کا پہلا نوالہ کُتّے کو کھلا کر زہر ہونے کا شک دور نہ کرے اور بھاوج بیڈ کے نیچے اور الماری کے پیچھے امکانی طور پر نند کی طرف سے رکھا ہوا کالے علم کا تعویز نہ ڈھونڈتی پھرے تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔ واضح کردیں کہ ہم عام چور کی بات کر رہے ہیں، اُن خاص چوروں کی نہیں جن پر چلنے والے مقدمات چلتے چلتے تھک کر چُور ہوکر آخر ختم ہوجاتے ہیں۔ چلیے بہت ہوگئی، اب آپ ڈرامے کی کہانی کا خاکہ پڑھیے اور یہ بتائیے کہ کتنے میں لیں گے۔
ڈرامے کی کہانی:
یہ جمیلہ خاتون اور ان کی تین بیٹیوں شکیلہ، عدیلہ اور راحیلہ کی کہانی ہے، شکیلہ کو غلام حسین سے محبت تھی، مگر غلام حسین کی شادی عدیلہ سے ہوگئی، راحیلہ کے شوہر بابو کو شکیلہ سے محبت تھی مگر اسے راحیلہ سے شادی کرنا پڑی، رہی عدیلہ تو اسے اپنے شوہر بشیر سے محبت نہیں تھی، چناں چہ اسے پڑوس کے خادم حسین سے محبت کرنا پڑی، خادم حسین فطرتاً باؤلے ہیں، اس لیے وہ عدیلہ کی محبت کو سمجھ نہیں پائے اور ایک دن اسے باجی عدیلہ کہہ بیٹھے، یہ سنتے ہی عدیلہ کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ اب رہی گئیں جمیلہ خاتون، رائٹر نے انھیں بھی خالی نہیں رہنے دیا، انھیں اپنی بیٹی شکیلہ کے سسر نورالدین عرف چچا چھچھورے سے محبت تھی، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر انھیں اپنی محبت قربان کرنی پڑی۔ ڈرامے کی ہر قسط میں یہ خواتین اپنی ناکام محبتوں پر روتی دھوتی نظر آئیں گی۔ ان پر بدقسمتی ہی مہربان رہے گی، یہ جس دن بیوہ ہوں گی تو عدت ختم سے پہلے ان کا محبوب انتقال فرما جائے گا، اس دکھی ڈرامے کی آخری قسط آدھی اسپتال اور آدھی قبرستان میں ریکارڈ کی جائے گی۔
عموماً ٹی وی ڈراموں کا ہر منظر کسی اُداس چہرے اور اس پر بہتے آنسوؤں اور برستی پھٹکار سے شروع ہوتا ہے، لیکن ہمارا تحریر کردہ ڈراما رونے دھونے اور نحوست کے سارے ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس ڈرامے کا ہر منظر ایک چیخ سے شروع ہوگا۔ بہ طور مثال کچھ مناظر پیش کیے دیتے ہیں۔
کیمرا جمیلہ خاتون کا بڑا سا منہہ دکھاتا ہے اور ساتھ ہی دل ہلادینے والی چیخ سُناتا ہے۔۔۔''نہیں ںںںںںں، یہ کیا ہوگیااااا میرے چھچھورے ے ے ے ے''، ظاہر ہے یہ چیخ جمیلہ بیگم کے منہہ سے برآمد ہوئی ہے، جو پورا کُھلا ہوا ہے۔ بعد میں انکشاف ہوتا ہے کہ پڑوس کی زینت عرف بی بی سی نے انھیں اطلاع دی تھی کہ ''اے لو، تمھاری لمڈیا نے نورالدین چچا چھچھورے کے لمڈے غفور سے بیاہ کرلیا۔''
عدیلہ کانوں پر دونوں ہاتھ رکھے دھاڑتی ہے، کیمرا گھر کا دروازہ دکھاتا ہے، جس کے عقب سے دھاڑ دروازہ پھاڑ کر باہر آرہی ہے، کیمرا دھاڑ کے تعاقب میں اندر کی طرف جیسے جیسے پڑھتا ہے، دھاڑ کا والیوم تیز ہوتا جاتا ہے، آخر عدیلہ کے منہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ عدیلہ دھاڑتے ہوئے کہہ رہی ہے،''اُف میں یہ سننے سے پہلے مر کیوں نہ گئی، تو نے یہ کیا کہہ دیا رے باؤلے۔'' پھر کیمرا خادم حسین کو دکھاتا ہے جو ڈرے سہمے کھڑے ہیں، منہہ حیرت سے کُھلا ہے، جس سے پیک نکل کر باچھوں پر بہہ رہی ہے۔ فلیش بیک میں دکھایا جاتا ہے کہ غلام حسین عدیلہ سے کہہ رہے ہیں،''عدیلہ باجی وہ امی کہہ رہی ہیں تھوڑی سی چینی دے دو، چینی نہیں ہے تو آٹا دے دو۔''
ایک منظر راحیلہ کے کئی فٹ اُچھل کر کمرے سے بھاگ جانے سے شروع ہوتا ہے، وہ اچھلتے ہوئے چِلا رہی ہے،''امی ی ی ی ی ی۔'' اس منظر پر قسط ختم ہوجاتی ہے۔ اگلی قسط میں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی سانحہ پیش نہیں آیا، بس راحیلہ نے دیوار پر چُھپکلی دیکھ لی تھی۔
چینلز اس صدمات سے بھرپور ڈرامے کی کہانی کے لیے اس کے تخلیق کار غم فروش دکھیارے سے فوری رجوع کریں۔