جہاں گشت

مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ آج کا گزارا ہو جائے گا

 لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اُسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔

قسط نمبر 78

dildagah62@gmail.com

 

آپ تو زیرک و دانا ہیں، باعلم و باعمل ہیں، تجربہ و تجزیہ کار ہیں، زندگی کو خُوب جانتے ہیں اور آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا جی اس زندگی کو۔ لیکن کیا کِیا جائے کہ فقیر کو بولنے اور بس بولتے چلے جانے کا مہلک مرض جو لاحق ہے، جب کہ منع کیا گیا ہے اسے کہ کم گوئی کو بچھونا بنائے لیکن ۔۔۔۔۔۔ ! بس افسوس۔

تو فقیر آپ کو زندگی کے ہزار نہیں لاکھ رنگ اور رُوپ دکھانے پر تُلا ہوا ہے، خدا آپ کو فقیر کے شَر سے پناہ میں رکھے۔ لیکن فقیر آپ کی اعلٰی ظرف کا برملا اعتراف کرتا ہے کہ آپ اُس کی بے سروپا اور لایعنی گفت گُو کو بھی کشادہ دلی سے شرف سماعت بخشتے ہیں تو بس یہ فقیر بے نوا آپ سب کے لیے دعاگو ہے کہ آپ سبھی عیشں بھرا جیون جییں، رب تعالٰی آپ سب کو اپنی کسی بھی مخلوق کا محتاج و دست نگر نہ بنائے اور بس خود ہی کافی ہوجائے۔

ہاں تو فقیر آپ کو جیون بھید سُجھا رہا تھا اور جب بات چل ہی نکلی ہے تو چلنے دیجیے۔ فقیر سے آپ اس کے ایک ندیم باصفا دادُو کا نام سُن چکے ہیں۔ وہی دادُو جو کہتا ہے: '' جس نے چونچ دیا ہے، وہ دانہ بھی دیں گاں نی، ورنہ اپنا چونچ بھی واپس لے لیں گا۔'' جی! وہی دادُو جو گدھا گاڑی چلاتا اور رزق حلال سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا شکم پُر کرتا ہے، وہ محنت کش ہے اس لیے اُسے رب تعالٰی کے دوست ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ہاں یہ تو بُھول ہی گیا کہ اتنی عُسرت میں بھی حاتم جیسا سخی ہے، اس کے گھر سے شاید ہی کوئی خالی ہاتھ واپس لوٹا ہو۔

جی چاہتا ہے کہ اس پر کوئی ضخیم کتاب لکھی جائے کہ وہ ہے ہی ایسا، چلیے دیکھیے کب ملتا ہے اس فقیر کو یہ اعزاز اور سعادت۔ اب وہ فقیر کا دوست ہے تو یہ بتانے میں کیسا تکلّف کہ عجیب بے تُکا انسان ہے وہ۔ لوگ مارے مارے پِھر رہے ہیں، اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور وہ سب سے الگ تھلگ اپنی زندگی آپ جی رہا ہے۔ پاگل انسان ...

فقیر تو نرا غبی، شاطر، مکّار و دنیادار ہے جی! اور وہ ہے باصفا و بااخلاق، باکردار و باادب و بانصیب۔ اب کیا کیجیے فقیر کو رب تعالٰی نے وہ عطا فرمایا ہے، شُکر واجب ہے فقیر پر۔ وہ میرا دوست ہے اور بہت عزیز دوست۔ لیکن فقیر اس سے تنگ بھی بہت ہے اور فقیر کو اُس کی کئی عادات سے چِِڑ ہے۔ ہم سب اتنی آسودگی میں بھی ہلکان ہیں اور وہ پریشانی میں بھی مطمئن ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ کوئی بہت بڑا طرّم خان ہے۔ ارے بھئی! وہ بہت معمولی سا انسان ہے۔ لیاری میں دو کمروں کے گھر میں وہ یوں رہتا ہے جیسے کسی بہت بڑے راحت کدے محل میں رہتا ہو۔ پانی، فون نہ فریج اور تو اور اس کے گھر کی چھت بھی شیٹوں کی ہے۔ گرمی، سردی ہر موسم خدا کی پناہ۔ اور جب کبھی فقیر اس سے ملنے جاتا ہے، اسے مطمئن پاتا ہے۔ چلو اتنی سی بات بھی ہوتی کہ وہ اپنے حال میں مست ہے تب بھی فقیر کو اتنی تکلیف نہ ہوتی، وہ گاؤدی تو اپنے جیسے لوگوں کو اپنے حالات بدلنے پر اکساتا رہتا ہے، اور پکارتا رہتا ہے کہ رب سچے پر بھروسا رکھو کہ اس نے محنت کرنے کا حکم دیا ہے، اُس سے جُڑے رہو اور اپنی قسمت آپ بناؤ، محنت کرو اور اپنی محنت کا صحیح اجر طلب کرو، کوئی تم پر ظلم کرے تو حسینی بن کر اس کے سامنے ڈٹ جاؤ، سر نہ جھکاؤ، مظلوم کی کوئی ذات، قوم اور مذہب نہیں ہوتا جو بھی مظلوم ہو اس کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، ظلم پر احتجاج کرو، سرمایہ پرستی ایک لعنت ہے اور اس کے پیروکار جہنّمی ہیں اور نہ جانے ایسی کتنی ہی بکواس۔

اگر کوئی اس کے سامنے کہے کہ حالات بدل جائیں گے تو وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے، کیسے بدلیں گے اگر انہیں بدلا نہ جائے، پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں ایک شعر سناتا ہے۔

آسمانوں سے پکارے جائیں گے

ہم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے

آج کل تو سردیاں ہیں، فقیر شدید گرمیوں میں اس کے گھر گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلایا: ''اڑے آگیا تم ۔۔۔۔۔۔ آج کدھر سے نازل ہوگیا ؟ بیٹھو بیٹھو'' کہہ کر اس نے اپنی بیوی کو آواز دی: ''اڑے صاحب لوگ آگیا نیک بخت، پانی وانی پلاؤ اس کو۔''

''بھائی سلام'' کے ساتھ ہی پیتل کے وزنی گلاس میں پانی میرے سامنے تھا۔

اور بہن تم کیسی ہو ۔۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا۔

'' شُکر ہے بھائی، بچہ لوگ کیسا ہے آپ کا ۔۔۔۔۔ ؟''

فقیر نے اسے سب کی خیریت سے آگاہ کیا۔ پانی کا گھونٹ لیتے ہی فقیر پھٹ پڑا: دادو، اتنا گرم پانی! اس میں روپے دو روپے کا برف ہی ڈال دیا کر۔ اس نے مسکرا کر فقیر کی طرف دیکھا اور بولا: ''ہاں صحیح بولتا ہے تم۔ باپ کا برف خانہ ہے نا ادھر، اڑے پیتا ہے تو پیو، نہیں پیتا ہے تو پیاسا مرو، اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو۔''

فقیر نے گلاس پانی پیے بغیر نیچے رکھ دیا جسے وہ اٹھا کر غٹاغٹ پی گیا اور پوچھنے لگا: ''اور بولو، خوار کیا کرتا پڑا ہے آج کل تم ۔۔۔۔۔''

یار! بس وہی لکھنا پڑھنا اور کیا کروں، بہت پریشان ہوں گرمی سے۔ فقیر کی بات سُن کر وہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا: ''اڑے کدھر ہے گرمی؟ تمہارا گاڑی میں اے سی، گھر میں اے سی، دفتر میں اے سی، پھر کدھر ہے گرمی؟ ناشُکرا لوگ، تم لوگ کا رونا ختم نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوگا۔ ایسا ہی رو رو کر تم لوگ مرجائے گا، تم لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنے میں بھی اے سی فٹ کرالو۔ اڑے تم لوگ ایک کام کرو۔ اپنا قبر میں بھی اے سی لگانا۔ صحیح ہے ناں۔۔۔۔ !!''

اس کی ایسی ہی بکواس سے فقیر تنگ ہے۔ فقیر نے اس سے پوچھا: اور سناؤ تم کیسی گزر رہی ہے؟

''اڑے بس بہت مزے سے گزر رہا ہے، ہم بہت خوش ہے۔'' اس کی بات سُن کر فقیر نے کہا: کیا خوش ہے؟ کیا ہے بے تیرے پاس، خاک؟ پانی میں برف ڈالتا نہیں ہے اور بولتا ہے خوش ہے۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور باہر نکل گیا۔ واپسی میں اس کے ہاتھ میں گنے کے رس سے بھرا ہوا گلاس تھا۔

''چلو بابو لوگ یہ پیو، ٹھنڈا ہے۔''

فقیر نے پوچھا: یہ کہاں سے لے آیا ۔۔۔۔ ؟ ''اڑے باہر خان صاحب بیچتا ہے۔'' فقیر نے دریافت کیا: گلاس دھویا تھا یا ویسے ہی لے آیا گندے گلاس میں ۔۔۔۔ ؟ یہ سنتے ہی وہ بولا: ''اڑے پیو زیادہ نخرا بند کرو۔ ادھر ہر چیز تم کو گندا لگتا ہے، گلاس گندا، پانی گندا، ماحول گندا، ہر چیز میں تم لوگ کیڑا نکالتا ہے۔ تم لوگ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ خود کو دیکھو۔ تم بڑا صاف ہے۔ کوئی صاف کپڑا پہن کر صاف نہیں ہوجاتا۔ صاف کرنا ہے تو اپنا دل کو صاف کرو، تم لوگ کوئی آسمانی مخلوق ہے کیا، یہاں ہر طرف گند ہے جب تک اسے صاف نہیں کریں گا یہ سب اسی طرح رہیں گا، کوئی ایک چیز صاف کرنے سے کچھ نہیں ہونے کا ، صاف کرنا ہے تو سب کچھ صاف کرنا ہوئیں گا۔۔۔۔۔''


اس نے میرے سینے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اپنی بکواس جاری رکھی: ''تم تو بڑا چیمپئن بنتا ہے غریب لوگ کا۔ کبھی کسی غریب کا خبر گیری کیا ہے تم نے؟ بس ٹھنڈا دفتر میں بیٹھ کر غریب غریب کا راگ گاتا ہے۔ تم لوگ سب غریب کا دشمن ہے، غریب کا عزت بیچ کر کھانے والا۔ تم لوگ کو کیا خبر، کیا ہوتا ہے غربت، کیا ہوتا ہے غریب۔ تم سب سیٹھ لوگ کا ایجنٹ ہے، کبھی صحیح بات نہیں لکھتا، تم لوگ دولت کا پجاری ہے، کوئی شیطان بھی تم لوگ کو پیسا دیوے تو تم اس کو فرشتہ لکھتا ہے، تم لوگ کی وجہ سے ہمارا معصوم لوگ کا زندگی برباد ہوگیا ہے، وہ مر رہا ہے، کبھی تو اپنا ضمیر کا آواز سنو، لیکن جب تم لوگ کا ضمیر ہی مرگیا ہے تو اور کیا کرے گا، بس اخبار میں لکھتا رہتا ہے۔ ایسا کرو، ویسا کرو۔ خالی خولی اپنا بھاشن۔ اندر سے سب خالی، کچھ نہیں ہے تم لوگ میں، مردُود لوگ، مُردار خور۔''

اچھا اچھا اپنا بھاشن بند کر تُو بھی، فقیر اس سے الجھ گیا۔ لیکن وہ بھی کوئی کم ہے کیا، پھر سے شروع ہوگیا: ''ہاں تم لوگ کو ہم جیسا کوئی شیشہ دکھاوے تو بہت تکلیف ہوتا ہے نی۔ اڑے یہی ہے تم لوگ کا شکل، شیشے میں دیکھو، اوپر سے اچھا، اندر سے کالا۔''

اور تم؟ فقیر نے طنز کیا لیکن وہ تُرکی بہ تُرکی تھا: ''اڑے ہمارا کیا بات کرتا ہے، ہم اندر سے باہر سے کالا ہے۔ ہمارا سب کچھ کالا ہے۔ ہم کوئی لیکچر بازی تو نہیں کرتا ہے ناں۔ بس جیسا ہے ویسا ہے۔ تم لوگ اندر کچھ باہر کچھ۔''

اچھا اچھا بند کر اپنی بکواس۔ اب میں چلتا ہوں۔ فقیر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ غضب ناک ہوکر بولا: ''کدھر چلتا ہوں۔ ابھی بیٹھو، دو نوالہ روٹی کھاؤ، پھر جدھر غرق ہونا ہے غرق ہوجاؤ۔''

اس نے فقیر کے موڈ کا جنازہ نکال دیا تھا۔ فقیر خاموش رہا تو وہ بولا: ''اچھا یار یہ تو بولونی کہ تم کیسے آیا تھا، ابھی ادھر لیاری میں تو کوئی آتا نہیں ہے، ہم لوگ کو تو سارا ملک میں ایک منصوبے کے تحت بدنام کیا ہوا ہے، اور مزے کا سنو یہاں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کیوں ہوا، کیسے ہوا۔۔۔ ؟''

بس ویسے ہی تجھ سے ملنے کو جی چاہا تو آگیا، فقیر کی بات سن کر اس نے نعرہ لگایا:

''اڑے آفرین ہے تم پر، کوئی کام وام نہیں تھا ؟''

نہیں کوئی کام نہیں تھا، بس ویسے ہی آگیا، فقیر نے کہا۔ لیکن سچ یہ ہے تھا کہ فقیر اُس سے ملنے نہیں گیا تھا، جس سے ملنے گیا تھا وہ گھر پر نہیں تھا۔ فقیر نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے پہنچ گیا، وہ اکثر سب کے کام آتا ہے۔ وہ بچپن سے ایسا ہی ہے۔ مطمئن، آسودہ، پڑھنے لکھنے میں جی نہیں لگتا تھا، بہت مشکل سے میٹرک کیا اور پھر اپنے کام میں جُت گیا اس کے والد کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ ایک ٹرانسپورٹر ہیں، مجھ سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اسے کہو انسان بن جائے میرے کام میں میرا ہاتھ بٹائے۔ دنیا کی ہر نعمت ہے ہمارے پاس، اور وہ مانتا ہی نہیں ہے۔ میں نے بہت دفعہ اس سے کہا کہ ابّا کا کہنا مان لے۔ کیوں ا پنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے لیکن وہ نہیں مانا۔ ایک دن میں نے اسے بہت پریشان کیا تو کہنے لگا: ''تم میرے کو لکھ کر دیو کہ ہمارا باپ کا سارا کمائی حلال ہے پھر ہم سوچیں گا۔'' فقیر یہ کیسے لکھ کر دے سکتا تھا! تُو یہ کیسے کہتا ہے کہ باپ نے پیسا حرام سے جمع کیا ہے؟ فقیر نے پوچھا تو کہنے لگا: ''اڑے وہ میرا باپ ہے، ہم اس کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ سب الٹا سیدھا دھندے سے پیسا جمع کیا ہے۔ ابھی ہر سال حج کرتا ہے اور کام سارا غلط۔''

فقیر نے اس سے کہنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ صبح سویرے اپنی گدھا گاڑی لے کر روزی رزق کی تلاش میں نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے، مطمئن اور آسودہ، کہیں کوئی احتجاج ہو رہا ہو تو وہ اس میں جا کھڑا ہوتا ہے، رات کو اپنے جیسے دوستوں کو اپنے حالات بدلنے کے طریقے بتاتا اور انہیں اپنی قسمت و تقدیر بدلنے کی تدبیریں سکھاتا ہے، حالات سے باخبر رہتا اور کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہے۔

ایک دن شام پانچ بجے تھے اور فقیر لی مارکیٹ سے گزر رہا تھا کہ اسے گھر جاتے دیکھ لیا۔ اسے آئینہ دکھانے کا موقع اچھا تھا تو فقیر نے اسے آواز دی: دادُو، حرام خور، کام چور، اتنی جلدی گھر جارہا ہے۔ اس نے اپنی گدھا گاڑی روکی، نیچے اتر کر مجھ سے بغل گیر ہوکر بولا: ''اڑے چائے پیے گا خوار ۔۔۔۔ ''

لیکن فقیر نے ٹھان لی تھی کہ آج اسے بہت ذلیل کرے گا، بالآخر وہ بتانے لگا: '' یار ایسا بات نہیں ہے، آج جلدی اس لیے گھر جارہا ہوں کہ وہ میرا جوڑی دار ہے ناں مُراد، ہم دونوں ایک ہی جگہ گدھا گاڑی کھڑا کرتے ہیں اور وہیں سے اپنے کام سے نکل جاتے ہیں۔ صبح سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے کام نہیں ملا۔ مجھے تو اتنے پیسے مل گئے ہیں کہ آج کا گزارا ہو جائے گا ، لیکن اگر میں بھی رات تک وہاں کھڑا رہتا تو اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا۔ بس میں نے گھر جانے کا سوچا اور چلا آیا۔ اب کم از کم وہ وہاں اکیلا ہے، کوئی دو چار روپیا کما ہی لے گا۔''

فقیر کی آنکھیں اس دن بہت زور سے برسی تھیں۔ گھر پہنچتے پہنچتے طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ یہ ہے فقیر کا داد محمد بلوچ جسے ہم سب لاڈ سے کہتے ہیں دادُو۔ یہ ہے واقعی اصل کھرا انسان جو اپنے منہ کا نوالا بھی دوسروں کو دے رہا ہے اور ہم دوسروں کے منہ کا نوالا بھی چھین رہے ہیں۔ تُف ہے۔

دیکھیے بابے اقبال آئے، جنہیں ہم حکیمُ الامّت کہتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں۔

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں

یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں

تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے!

دیکھیں گے تجھے دُور سے گردوں کے ستارے!

ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے!

پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے!

تعمیرِ خُودی کر، اثرِ آہِ رسا دیکھ!
Load Next Story