پاکستان میں کیا ہونے والا ہے

دشمنوں کی کمی نہیں لیکن فی الوقت ایک علانیہ دشمن سے بات شروع کرتے ہیں اور وہ ہے نیٹو کی فوجی تنظیم جو ان ۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

دشمنوں کی کمی نہیں لیکن فی الوقت ایک علانیہ دشمن سے بات شروع کرتے ہیں اور وہ ہے نیٹو کی فوجی تنظیم جو ان دنوں افغانستان پر بذریعہ امریکا قابض ہے۔ امریکا کی سیاسی برتری اور فوجی برتری دونوں نیٹو کو اپنی پناہ میں لیے ہوئے ہیں۔ نیٹو اور امریکا وہ تیسری عالمی سپر پاور ہے جو ہماری جدید تاریخ میں افغانستان میں رسوا ہو رہی ہے اور اسی رسوائی میں یہاں سے فارغ بھی ہونے والی ہے۔ یعنی برطانیہ، سوویت یونین اور اب امریکا۔ ان حملہ آوروں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ افغانستان پر قبضہ کرنا تو آسان ہے لیکن اس پر قبضہ قائم رکھنا ممکن نہیں۔

افغانوں نے کبھی محکومی اور غلامی کی زندگی نہیں گزاری۔ تو بات افغانستان کے تازہ مہربان نیٹو کی ہو رہی تھی اور اس حوالے سے میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں شاید پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ جب سوویت یونین ہلاک ہوا تو کسی صحافی نے اس وقت کے نیٹو کے سیکریٹری جنرل سے سوال کیا کہ اب جب سوویت یونین کے ساتھ ہی اس کی نیٹو کی حریف روسی فوجی تنظیم وارسا پیکٹ بھی ختم ہو چکی ہے تو اب نیٹو کی مہنگی فوجی تنظیم باقی رکھنے کا کیا فائدہ۔ اس سوال کا سیکریٹری جنرلنے دو حرفی جواب دیا کہ ''اسلام ابھی موجود ہے'' دنیا جانتی ہے کہ اسلام کی کوئی وارسا پیکٹ یا نیٹو تنظیم نہیں تھی بلکہ اسلامی ملک کہلانے والے تو روس یا امریکا کے باجگزار تھے مگر پھر بھی کسی اسلام کے لیے نیٹو ضروری تھی۔ اب جب امریکا اپنی عسکری مہم جوئی شروع کر چکا ہے تو اس نے نیٹو کو ساتھ ملا کر اپنی جارحیت میں یورپی ممالک کو بھی ان کے خرچے پر شامل کر لیا ہے۔ وہی نیٹو جو اپنی ضرورت پوری کر لینے کے باوجود باقی تھا کیونکہ اسلام باقی تھا۔

امریکا نے اپنے سب سے بڑے مخالف کمیونسٹ ملکوں کو زیر کر لیا بلکہ ختم ہی کر دیا جو بچ گئے تھے ان کو امریکی معاشی برتری سے اپنی پناہ میں لے لیا۔ صیہونیت ویسے ہی اس کی مکمل تحویل میں تھی۔ اس سرزمین پر اب باقی کیا بچا وہ تھا اسلام۔ یعنی عیسائیت اور یہودیت کے بعد اسلام وہ تیسرا مذہب تھا جو مسلمانوں کی انتہائی کمزوری کے باوجود خطرے کی گھنٹی بجاتا رہتا تھا اور یہ غیر مسلموں کے کانوں میں گونجتی رہتی تھی۔

اگرچہ مسلمان ملکوں میں اسلامی غلبے کے لیے تحریکیں چلتی رہیں جیسے مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک اور کئی دوسرے عرب ملکوں میں بھی کسی دوسرے نام سے اسلامی نظریاتی تحریکیں انڈونیشیا میں بھی نہضت الاسلام کی تحریک بھی ایسی ہی تھی لیکن بطور ایک ملک کے اگر کوئی اسلامی نظریات کی نمایندگی کرتا تھا تو وہ پاکستان تھا جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور دنیائے اسلام میں اس کا غلغلہ برپا ہوا۔


اس وقت مصر کے شاہ فاروق نے طنزاً کہا تھا کہ اسلام تو 1947ء میں نازل ہوا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں جو ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ میں اسلام کے نام پر پاکستان پہلا اسلامی ملک تھا جو اس کے نام پر قائم ہوا، یہ اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔ اسلام کی زندگی کا یہ ایک ایسا ثبوت تھا جس نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل کو اسلام کا نام لینے پر مجبور کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے خطرے کے طور پر جس کی سرکوبی کے لیے نیٹو جیسی بھاری جدید فوجی سپاہ والی تنظیم کی ضرورت تھی۔

امریکا کے حکمران سیاسی اور معاشی حربوں سے تو مسلمان ملکوں کو قابو کرتے رہے لیکن پھر غصہ میں آ کر صبر و تحمل کو خیر باد کہہ کر مسلمان ملکوں پر فوجی چڑھائی کر دی، اب وہ افغانستان میں اپنی پیشرو عالمی طاقتوں سوویت یونین اور برطانیہ جیسے انجام سے دو چار ہونے کے بعد وہاں سے نکل رہا ہے لیکن وہ اس خطے سے نکلے گا نہیں صرف کسی حدتک افغانستان کو خالی کرے گا اور جنرل حمید گل کے بقول وہ پاکستان کو متبادل اڈے کے طور پر استعمال کرے گا۔ پاکستان کے سیاستدانوں سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ان کی تو اکثریت امریکا کی خدمت کرے گی۔

پاکستان میں کبھی کبھار کسی سیاسی جماعت یا سیاسی گروہ کی طرف سے خودی کا ابال اٹھتا ہے، اس کو موقع پر ہی قابو کرنے کے لیے امریکا نے بھارت کو تیار کر رکھا ہے اور بھارت بڑی خوبصورتی کے ساتھ پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کی رائے کو اپنے حق میں کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بشمول اخبارات بھارت کے کلچر کو پوری آب و تاب کے ساتھ ہر روز پیش کرتا ہے۔ ہمارے اخبارات نے تو ہر روز پورا ایک صفحہ شوبز کے نام پر بلا معاوضہ بھارت کو دے دیا ہے، یہی حال ٹی وی کا ہے۔ ہمارا ہر چینل خوشی اور غمی میں بھارت کے شریک رہتا ہے۔ کوئی اداکار مر جائے تو ہم اس کے سوگ میں بھارت سے بھی بازی لے جاتے ہیں۔

اس طرح بھارت کی خوشی کے موقع پر بھی بھارت سے آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ تو پاکستان ذرایع ابلاغ کا حال ہے، ہمارے سیاستدانوں کی حالت اس سے کہیں زیادہ عبرت انگیز ہے، ہمارے وزیراعظم نے اپنے الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں جو غیر معمولی کامیابی ملی ہے تو یہ بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے ملی ہے۔ اس میں حیرت زدہ کر دینے والی بات سے پہلے ہمارے ایک صدر نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی ہے اور ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی چھپا بیٹھا ہے، جس ملک کے میڈیا کا یہ حال ہو اور جس ملک کے حکمرانوں کی یہ خواہشیں ہوں، اس ملک میں بھارت کو کیا مشکل پیش آ سکتی ہے سوائے اس کے کہ اس کی تخریب کاری میں کبھی کوئی رکاوٹ ڈال دے جیسے اس دفعہ راولپنڈی میں ہوا اور فوج نے حالات پر قابو پا لیا۔

راولپنڈی کے سیاستدان شیخ رشید نے کہا کہ جو تخریب کار تھے، وہ لوگ اس شہر میں پہلے کبھی دیکھے نہیں گئے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا اور جس طرح ہوا، اس پر بحث نہیں کی جا سکتی لیکن اس میں بھارتی ہاتھ یقینی ہے جس کا نام کوئی سیاستدان نہیں لے گا۔ مثلاً بلوچستان میں بھارت نے تباہی مچا دی جو جاری ہے لیکن ہماری سابقہ حکومت یہی کہتی رہی کہ یہ کوئی غیر ملکی ہاتھ ہے۔ جب یہ حکومت ختم ہوئی تو اس کے وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بھارت تھا۔ میرا رونا یہ ہے کہ اس قدر کمزور پاکستان امریکا کے لیے خطرہ نہیں بلکہ معاون ہے۔ افغانستان کے بعد نیٹو کی فوجیں اگر اپنے کچھ لوگ پاکستان کے لیے یہاں چھوڑ جائیں توکچھ بعید نہیں، امریکا کا سفارت خانہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور لاہور میں بھی اس کے سفارتی دفتر کو وسعت دی جا رہی ہے۔ کیا ہماری غلامی کی طویل تاریخ ایک نئی کروٹ لینے کو ہے۔
Load Next Story