عام آدمی پارٹی
بھارت میں آیندہ عام انتخابات اگلے سال ہونا طے ہیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے عام چناؤ کا بخار زور پکڑ رہا ہے۔
بھارت میں آیندہ عام انتخابات اگلے سال ہونا طے ہیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے عام چناؤ کا بخار زور پکڑ رہا ہے۔ ہر طرف ایک اتھل پتھل اور ہل چل مچی ہوئی ہے۔ بھارت کی پرانی سیاسی جماعتوں کی صفوں میں بلا کی کھلبلی ہے۔ آزادی کے بعد وہاں کے سیاسی افق پر ایک طویل عرصے تک انڈین نیشنل کانگریس چھائی رہی جو عرف عام میں کانگریس پارٹی کہلاتی ہے۔ چونکہ بھارت کے اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زمینداری نظام کا خاتمہ کیا تھا لہٰذا کانگریس پارٹی کو کسانوں کی بھرپور اور کھلی حمایت حاصل ہوئی۔
کسانوں کے دل جیتنے کے لیے کانگریس نے بیلوں کی جوڑی کو اپنا انتخابی نشان قرار دے دیا جس کے نتیجے میں اسے الیکشن میں مسلسل فتح حاصل ہوتی رہی۔ اس عرصے میں کانگریس کا مقبول عوامی نعرہ تھا ''کانگریس نے دی آزادی' زنجیر غلامی کی توڑی۔ ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی''۔ اس نعرے میں بلا کی کشش اور بڑا زبردست جادو تھا جس کے بل پر کانگریس نے عرصہ دراز تک بھارت پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی۔ کسانوں کی حمایت کے بعد کانگریس کے پاس دوسرا بڑا ترپ کا پتا مسلمانوں کی سپورٹ کی صورت میں موجود تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کانگریس کا سحر ٹوٹتا چلا گیا تا آنکہ اس میں پھوٹ پڑگئی اور یہ دھڑے بندیوں کا شکار ہوگئی۔
حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور اقتدار کی باگ ڈور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ دوسری جانب مختلف صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آگئیں جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی شامل ہے جسے بھارتی ریاست میں غلبہ حاصل ہوا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کوئی بھی واحد سیاسی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی جس کے نتیجے میں مخلوط حکومتیں معرض وجود میں آئیں۔ اس دوران ایک دور وہ بھی آیا جب کانگریس کے دور حکمرانی میں Shining India کا نعرہ گونجا اور وزیر اعظم من موہن سنگھ ہندوستان کے معاشی ہیرو بن کر ابھرے۔ مگر ہر کمال کو ایک نہ ایک دن زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، لہٰذا کانگریس بھی اس سے بچ نہ سکی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ کانگریس کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکل چکی ہے اور بھارت کی جنتا ملک کی معاشی بدحالی کا ذمے دار کانگریس کو ہی قرار دے رہی ہے اور من موہن سنگھ پگڑی سنبھال جٹا کے مصداق کوئلے کے گھٹالے سے دامن بچانے کی فکر میں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں صرف ہاتھ ہی کالے نہیں ہوئے بلکہ نوبت منہ کالا ہونے تک جا پہنچی ہے۔
دوسری جانب بھارت میں انتہا پسندی روز بروز زور پکڑ رہی ہے جس کا واضح ثبوت کانگریس پارٹی کی مد مقابل بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی ہے جس کے تحت وہ آیندہ انتخابات میں کامیابی کے ذریعے نریندر مودی کو بھارت کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ جی ہاں! یہ وہی نریندر مودی ہے جو بھارت کے مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے اور جس کے ہاتھ بھارت کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسی نریندر مودی کی جماعت چانکیہ کی گھناؤنی اور مکروہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو رام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ عین ممکن ہے کہ بعض میر جعفر اور میر صادق قسم کے مسلمان ضمیر فروش اس کی حمایت پر آمادہ ہوجائیں لیکن مسلمانوں کی غالب اکثریت کا اس گروپ کی حمایت کرنا بعید از قیاس اور بعید از امکان ہے۔
ان حالات میں بھارت کے آیندہ عام چناؤ کو اگر ایک بہت بڑا سیاسی دنگل کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ تاہم یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اس دنگل کا ریفری یعنی بھارتی الیکشن کمیشن قطعاً غیر جانب دار اور سو فیصد ایمان دار ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے بھارت کا کوئی بھی مخالف جھٹلا نہیں سکتا۔ دراصل بھارتی الیکشن کمیشن نے اپنی بے داغ اور بے لاگ کارکردگی کی بنا پر پوری دنیا میں اپنی کارکردگی کا سکہ جمادیا ہے اور اپنی مصدقہ ایمان داری اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے اقوام عالم میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ لہٰذا بھارت کے آیندہ انتخابات غیر متنازعہ ہی ہوں گے۔
بھارت کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہاں آیندہ عام انتخابات کے بعد کوئی بھی جماعت اکیلی حکومت سازی کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں علاقائی جماعتوں کی اہمیت نمایاں ہے۔ علاوہ ازیں ان انتخابات میں بھارت کی اقلیتوں، خصوصاً دلتوں اور مسلمانوں کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ تمام طبقات کانگریس کی کارکردگی سے نالاں اور مایوس نظر آتے ہیں اس لیے ان سے یہ توقع کرنا مشکل ہے کہ یہ اپنی حمایت کا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالیں گے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا دل خراش سانحہ بھی کانگریس کے دور اقتدار میں ہی رونما ہوا تھا۔ دریں اثنا بھارت میں کشمیری حریت پسندوں، نکسل باڑیوں اور ماؤ نواز باغیوں کی تحریکیں بھی روز بروز شدت اور زور پکڑتی جارہی ہیں۔بھارت میں اس وقت حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ چند بڑے بڑے شہروں بشمول بمبئی اور دہلی کے علاوہ اس کے دیہی علاقوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ بھارت کی جنتا کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے جب کہ غالب اکثریت غریبی کی چکی میں اس بری طرح پس رہی ہے کہ بقول بھگت کبیر:
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے
کمر توڑ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے اور دیہات کے کسان تنگ آکر آئے دن خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مالی شرح نمو 6 فیصد سے گر کر 5 فیصد رہ گئی ہے اور گراوٹ کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ غربت کی شرح میں خوفناک اضافے نے بھارتی حکومت کو مسلسل فوڈ سبسڈی بڑھانے پر مجبور کردیا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں Vodafon کے معاملے میں سرکار کے اقدامات کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی کے ساتھ باہر منتقل کر رہے ہیں جس کے باعث بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں اور بھارتی روپیہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کی موجودہ مخلوط مرکزی حکومت معاشی گرداب میں اس بری طرح پھنس چکی ہے کہ اس کا باہر نکلنا اب محال نظر آتا ہے۔
بھارت کے ان مایوس کن سیاسی حالات میں ''عام پارٹی' کا افق پر ابھرنا ایک فطری بات ہے۔ جیساکہ اس کے نام سے ہی صاف ظاہر ہے یہ پارٹی عام لوگوں کی نمایندہ ہے اور یہ عام آدمی کے مسائل کا حل لے کر ہی پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس نئی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ارکان اور رضاکاروں نے چند ماہ کی قلیل مدت میں گیارہ کروڑ روپے کے عطیات جمع کرلیے ہیں۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر چیز کا شفاف ریکارڈ رکھا جارہا ہے جسے پارٹی کی ویب سائٹ پر کوئی بھی شخص جب چاہے دیکھ سکتا ہے۔
اروند کچریوال ''عام پارٹی'' کے بانی اور مرکزی رہنما ہیں۔ موصوف انا ہزارے نامی اس شخص کے قریبی ساتھی ہیں جس نے بھارت میں کچھ عرصہ قبل کرپشن کے خلاف زبردست مہم چلا کر دنیا بھر میں شہرت حاصل کی تھی۔ سر پر گاندھی ٹوپی، آنکھوں پر چشمہ، ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور ٹائٹ پتلون کے ساتھ پیروں میں معمولی سا سینڈل پہنے ہوئے 45 سالہ اروند کچریوال قوم کا مسیحا بن کر ابھر رہا ہے جس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے نتیجے میں بھارت کی روایتی سیاست کے ایوانوں میں ایک بھونچال سا آگیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی حکومتوں کے ستائے ہوئے بھارت کے عوام ان عوام دشمن جماعتوں سے تنگ آکر نئی ''عام آدمی پارٹی'' کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا پاکستان کے عاجز اور مظلوم عوام بھی ایسی ہی ''عام آدمی پارٹی''