پاکستانی بہرحال کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں

پاکستانی کشمیریوں کو جینے کا حق دینا چاہتے ہیں، انہیں ہر طرح سے خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں

پاکستانی عوام کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کےلیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک مشہور قصہ ہے کہ دو عورتیں تھیں۔ ان دونوں کے پاس ایک ایک لڑکا تھا۔ ایک دن بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک عورت کے بیٹے کو اٹھا کر لے گیا۔ ان دونوں نے جھگڑنا شروع کردیا۔ ایک نے کہا کہ بھیڑیا تیرے بیٹے کو لے کر گیا ہے اور دوسری نے کہا تیرے بیٹے کو لے گیا ہے۔ یعنی ہر ایک یہ دعویٰ کررہی تھی کہ پیچھے رہ جانے والا لڑکا اس کا ہے۔

بالآخر دونوں اپنا مقدمہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لے گئیں اور ان سے فیصلہ کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ایک نفسیاتی فیصلہ کیا اور اپنے ملازموں سے کہا کہ ایک چھری لاؤ اور بچے کو چیر کر دو ٹکڑے کرو اور دونوں عورتوں میں برابر تقسیم کردو۔ جب حقیقی ماں نے یہ دیکھا تو وہ چیختے چلاتے ہوئے منت سماجت کرنے لگی کہ یہ بچہ دوسری کو دے دو، اس طرح کم از کم بچہ زندہ تو رہے گا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ حضرت سلیمانؑ نے جب یہ دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ بچہ اسی کا ہے، لہٰذ اس کے حق میں فیصلہ سنادیا (الفاظ کے کچھ ردوبدل کے ساتھ یہ واقعہ مشکوٰۃ شریف میں بھی موجود ہے)۔

کشمیر کے مسئلے پر پاکستان و بھارت کا بھی یہی حال ہے۔ دونوں کشمیر پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ پاکستان کا دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر پر پاکستان کا حق ہے جبکہ بھارت کہتا ہے کہ یہ اس کا اٹوٹ انگ ہے لہٰذا اسے بھارت کا حصہ ہونا چاہیے۔ بھارت کئی بار کشمیر کے معاملے میں 'کچھ لو اور کچھ دو' کے موقف کا اظہار کرچکا ہے، یعنی کشمیر کو تقسیم کردو آدھا پاکستان کا اور آدھا بھارت کا یا لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر مان لو اور جو کشمیر پاکستان کے قبضے میں ہے وہ پاکستان لے لے اور جو بھارت کے ناجائز تسلط میں ہے اسے بھارت کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن ماں کی مامتا جس طرح بچے کو ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکی، اسی طرح پاکستان بھی کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔

بھارت نے کشمیر میں خون کی ندیاں بہادیں۔ وہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تاکہ کسی طرح کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے رہائی دلائی جاسکے۔ بھارت نے کشمیر کے حسن پر بدنما داغ لگادیے ہیں، جبکہ پاکستان ان داغوں کو صاف کرنے اور مزید داغ لگنے سے بچانے کےلیے کوششیں کررہا ہے۔ بھارت صرف یہ چاہتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ اس کےلیے اس نے ہر طرح کا ظلم و جبر اور تشدد روا رکھا ہوا ہے۔ جبکہ پاکستانی کشمیر کا حصول نہیں چاہتے بلکہ یہ کشمیری بھائیوں کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کسی بھی طرح کشمیر بھارت کے چنگل سے آزاد ہوجائے۔ لہٰذا اگر بھارت کبھی شدید حاسد کی طرح یہ کہہ دیتا ہے کہ اگر کشمیر اسے نہیں ملتا تو پاکستان کو بھی نہ ملے بلکہ کشمیر کو خودمختاری دے دی جائے تو یقیناً پاکستانی اس فیصلے کو منظور کرلیں گے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ اس طرح کم از کم ہمارے کشمیری بھائی بھارتی درندوں کے خونی پنجوں سے تو نجات حاصل کرلیں گے۔ ہماری عفت مآب ماؤں، بہنوں کی عصمتیں تو محفوظ ہوجائیں گی۔ وادی جنت نظیر کا حسن ماند پڑنے سے بچ جائے گا۔

سب سے پہلے تو ہماری ترجیح یہی ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان کشمیر کو خودمختاری دینے کےلیے بھی تیار ہوگا۔ اس لیے کہ پاکستانی بہرحال کشمیریوں کو جینے کا حق دینا چاہتے ہیں، انہیں ہر طرح سے خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ بھارت سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ کشمیر آزاد و خودمختار ریاست بن کر بھی پاکستان کے مفاد کےلیے ہی کام کرے گا اور کشمیر کی طرف سے پاکستان کی سرحد محفوظ ہوجائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ موقع ملتے ہی کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور پاکستان کا حصہ بن جائیں۔


پاکستانی عوام کشمیری بھائیوں کےلیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ وہ کشمیر کی رہائی کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اپنا سب کچھ کشمیری بھائیوں کےلیے نچھاور کرنے کےلیے بے چین ہیں اور بدلے میں فقط ان کی رہائی چاہتے ہیں، انہیں خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ پاکستانی حکمرانوں کا ہے جو ایٹمی ملک کے حکمران ہوتے ہوئے بھی بھارت کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی ہر دھمکی کا منہ توڑ جواب دیں۔ جب عوام کو اس بات پر اعتراض نہیں ہے تو پھر انہیں کیا چیز بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دینے سے روک رہی ہے؟ اگر نریندر مودی نے 10 سے 12 دنوں میں پاکستان سے جنگ جیتنے کی بھڑک ماری ہے تو آپ بھی اسے جواب دے سکتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ ہم 10 سے 12 سیکنڈ میں بھارت کو ختم کرسکتے ہیں۔ ہم نے اسلحہ سجانے کےلیے نہیں رکھا ہوا۔ ہمارا بہترین میزائل نظام 6 ستمبر کی نمائش کےلیے نہیں ہے۔ یہ بھارت جیسے بدمعاشوں کو راہ راست پر لانے کےلیے ہی رکھا ہوا ہے۔

ہم نے اپنی معیشت کی کمزوری کے باوجود اپنے دفاع کو مضبوط بنایا تاکہ مشکل وقت میں کام آسکے۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آیا کہ دو افراد موٹرسائیکل پر سفر کررہے تھے کہ اچانک پٹرول ختم ہوگیا۔ ڈرائیور نے پیچھے بیٹھے ساتھی سے کہا بھائی پٹرول تو ختم ہوگیا ہے اب پیدل ہی پٹرول پمپ تک پہنچنا پڑے گا۔ پٹرول پمپ وہاں سے کافی دور تھا۔ چلتے چلتے جب دوسرا ساتھ تھک گیا تو اس نے کہا بھائی موٹرسائیکل کے ریزرو میں تھوڑا سا پٹرول تو رکھ لیتے جو یہاں کام آتا۔ ڈرائیور نے کہا کہ ریزرو میں تو کافی پٹرول ہے۔ ساتھی نے حیرت سے پوچھا پھر آپ نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا، اتنا پیدل کیوں چلایا ہے؟ ڈرائیور نے جواب دیا وہ تو مشکل وقت کےلیے رکھا ہوا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ ہم نے جنگی سازو سامان مشکل وقت کےلیے رکھا ہوا ہے۔ وہ ہم سے کشمیر چھین کر لے گئے ہم نے اپنا اسلحہ استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ ہم نے مشکل وقت کےلیے رکھا ہوا ہے۔ ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کو نہایت بے دردی سے شہید کررہے ہیں لیکن ہم نے اسلحہ مشکل وقت کے لیے رکھا ہے۔ وہ آزاد کشمیر میں آئے روز فائرنگ کرتے اور ہمارے فوجیوں اور شہریوں کو شہید کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نے اسلحہ مشکل وقت کےلیے رکھا ہے۔ نہ جانے ہمارے حکمرانوں کو اس سے زیادہ کون سے مشکل وقت کا انتظار ہے؟

میں انہیں ہرگز بھارت پر حملہ کرنے کی دعوت نہیں دے رہا لیکن کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ جب وہ آپ کو دھمکی دیں تو آپ بجائے ''عالمی برادی نوٹس لے'' کا راگ الاپنے کے، انہیں ان کی زبان میں ہی جواب دیں۔ کم از کم اپنی افواج اور اسلحہ کو حرکت تو دے سکتے ہیں۔ جنگی مشقیں تو شروع کرسکتے ہیں۔ جس سے بھارت ہی کیا، پوری دنیا سہم جائے گی۔ اس لیے کہ دنیا کا کوئی ملک بھی ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ نہیں چاہتا۔ کیونکہ یہ جنگ خطے کےلیے ہی نہیں پوری دنیا کےلیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

ہم نے اپنی طرف سے خطے میں امن کی کوششوں کا حق ادا کردیا ہے، جس سے بھارت تو کیا دنیا کا کوئی ملک ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اب ایک بار ان کی دھمکی کا جواب دھمکی سے ہی دے دیں۔ اور گھبرانے کے بجائے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ وہی ایمان والوں کا محافظ و مددگار ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story