شک کا فائدہ مزید وقت
ہندوستان کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ایک آسٹریلوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چونکہ اندرونی۔۔۔
QUETTA:
ہندوستان کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ایک آسٹریلوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چونکہ اندرونی مسائل سے دوچار ہے اس لیے ہم پاکستان کو ''شک کا فائدہ اور مزید وقت دینا چاہتے ہیں۔'' بھارت کے وزیر خارجہ کے لب و لہجے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کوئی للو پھتو ملک ہے اور بھارتی وزیر خارجہ اس پر رحم کھاتے ہوئے اسے شک کا فائدہ اور مزید وقت دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سلمان خورشید کے ان ارشادات کا مطلب کیا ہے لیکن موصوف کے مغرورانہ لہجے سے بہرحال یہ تاثر ملتا ہے کہ شک کا فائدہ اور مزید وقت دینے کی بات کا مطلب ایک الٹی میٹم ہے اگر پاکستان ''مزید وقت'' کے اندر اپنے آپ کو سلمان خورشید کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالتا ہے تو پھر اسے سزا دی جائے گی۔
چونکہ یہ بات ایک بڑے اور طاقتور ملک کا وزیر خارجہ کہہ رہا ہے لہٰذا اس کی بات کے وزن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس مزید وقت میں اپنے آپ کو بھارت کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال لیتا تو بھارت جو سخت کارروائی کرے گا وہ کارروائی کیا ہوسکتی ہے؟ امریکا ایک عرصے سے ایران کو مزید وقت دیتا آرہا ہے اور اس مزید وقت کے دوران اس نے ایران کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے اس پر سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی ہیں۔ بھارت اس پوزیشن میں نہیں ہے نہ اتنی طاقت کا مالک ہے کہ پاکستان پر کسی قسم کی اقتصادی پابندیاں لگا کر اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرے۔
سلمان خورشید کی دھمکی کا دوسرا مطلب سرحدوں پر دباؤ بڑھانا ہوسکتا ہے لیکن یہ حربہ بھی اس لیے کامیاب نہیں ہوسکتا کہ پاکستان سرحدوں پر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا آرہا ہے۔ اس دھمکی یا الٹی میٹم کا ایک مطلب ''جنگ'' ہوسکتا ہے۔ لیکن اب پاکستان ماضی کا پاکستان نہیں رہا اگر بھارت نے جنگ کی حماقت کی تو یہ جنگ روایتی ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ ایٹمی جنگ ہی ہوسکتی ہے۔ کیا سلمان خورشید ایٹمی جنگ کا مطلب سمجھتے ہیں؟
1985 اور 1971 کی جنگیں روایتی ہتھیاروں سے لڑی گئیں چونکہ روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے بھارت کا پلہ بھاری ہے لہٰذا 1965 اور 1971 کی جنگوں سے پاکستان کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا غالباً اسی خوف نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے پر مجبور کیا وجہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اب دونوں ملک ایٹمی ملک ہیں۔ اس تلخ حقیقت کے پس منظر میں بھارتی وزیر خارجہ کو بہت احتیاط سے بات کرنا چاہیے۔ کیونکہ مزید وقت کبھی نہ کبھی ختم ہوجائے گا اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ کیا کریں گے؟ امریکا عشروں سے ایران کو مزید وقت اور شک کا فائدہ دیتا آرہا ہے امریکا بھارت سے بہت زیادہ طاقتور ملک ہے اور ایران پاکستان سے زیادہ کمزور ملک ہے اور ایران کے حکمران پاکستان کے حکمرانوں کے مقابلے میں زیادہ منہ پھٹ اور جارح ہیں لیکن امریکا کی یہ ہمت نہیں کہ وہ ایران کے خلاف جنگ چھیڑ دے۔ ایران پاکستان کی طرح مسلمہ ایٹمی ملک بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود امریکا اقتصادی پابندیوں سے آگے جانے سے گریزاں رہتا ہے۔ کیا سلمان خورشید اس کی وجہ کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
ہم یہاں دونوں ملکوں کے تنازعات کے حوالے سے بھی کوئی حتمی بات نہیں کریں گے بلکہ ہم ان المیوں پر بات کریں گے جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور بے اعتمادی کی وجہ سے برصغیر اور پورے جنوبی ایشیا کے عوام کی اقتصادی بحالی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے 66 سالوں سے بھارتی حکمراں جس پالیسی پر گامزن ہیں اس پالیسی نے اگر کچھ دیا ہے تو وہ اس خطے کے عوام کی غربت میں بے انتہا اضافہ دیا ہے، ہتھیاروں کی دوڑ دی ہے، دونوں ملکوں کے عوام میں تلخیاں اور نفرت دی ہے، اور اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی دی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایک سیاسی آدمی ہیں اور سیاست دان ناک کے آگے دیکھنے کی بصارت سے محروم ہوتا ہے۔ ہماری دنیا نے بے انتہا تہذیبی ترقی کی ہے زندگی کے ہر شعبے میں وہ آسمان پر کھڑی نظر آتی ہے لیکن طاقت کی برتری کے جنگل کے قانون کو اب تک سینے سے لگائی ہوئی ہے۔ یہ قانون اسے قومی مفادات کے تحفظ کا درس تو دیتا ہے اور اس حوالے سے اسے جنگل کے قانون میں بھی پہنچا دیتا ہے لیکن اس سے انسانیت کی اجتماعی بھلائی کا وژن چھین لیتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے اس انٹرویو میں دو باتیں ایسی کی ہیں جو اس خطے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو سنگین اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ دوسری بات موصوف نے یہ کی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا ڈھانچہ ختم کردے۔ یہ دونوں باتیں درست بھی ہیں اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھی ہیں۔ لیکن محترم سلمان خورشید یا تو سیاسی بصیرت سے محروم ہیں یا پھر انھیں نام نہاد قومی مفادات نے اس قدر اندھا بنادیا ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ پاکستان جن سنگین اندرونی مسائل سے دوچار ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کا جو ڈھانچہ موجود ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی طاقت کی برتری کی وہ پالیسی ہے جو بھارتی حکمرانوں کو ناک سے آگے دیکھنے ہی نہیں دیتی؟ ہماری سیاسی ترقی نے جمہوریت اور سیاست کو تو سیاسی ارتقا کی بلندی کا نام دے دیا ہے اور اس جمہوریت اور سیاست کے بطن سے ''قومی مفادات'' کا جو بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نہ قوم سے کوئی تعلق ہے نہ عوام سے، اس سیاست اور جمہوریت نے ہر جگہ قوم اور عوام کو تو بھکاری بنا دیا ہے اور ایک مٹھی بھر طبقے کو قومی مفادات کے نام پر بدعنوانیوں، لوٹ مار کی کھلی آزادی دے دی ہے۔
بھارتی حکمران کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے اس انٹرویو میں اسی فریب کا ذکر کیا ہے جس کا ارتکاب قومی مفاد اور قومی سلامتی کے نام پر کیا جارہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کو جو شک کا فائدہ اور وقت دیا جارہا ہے وہ ''قومی سلامتی'' کی قیمت پر نہیں دیا جاسکتا۔ کیا بھارت کے لگ بھگ ڈیڑھ ارب غریب عوام کا اس ''قومی سلامتی'' سے کوئی تعلق ہے؟ اگر کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جاتا ہے تو بھارت کے عوام کو اس فیصلے سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ ماضی میں فاتح قسم کے بادشاہ طاقت کے بل پر کمزور ملکوں پر قبضہ کرکے ان مفتوح ملکوں کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیتے تھے۔ آج کی ترقی یافتہ اور جمہوری دنیا بادشاہتوں کو ماضی کی یادگار کہتی ہے اور آج کے جدید دور میں بادشاہتوں کو ایک فرسودہ اور مسترد کردہ نظام کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا اس جدید دور میں بادشاہتوں کا رویہ اپنایا نہیں جارہا؟ کیا کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے بھارتی پالیسی ماضی کی بادشاہتوں سے مختلف ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب عوام مانگتے ہیں۔ بھارتی حکمراں برسوں سے ممبئی حملے کی دم تو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں لیکن دانستہ یا نادانستہ یہ جاننے کے لیے تیار نہیں کہ ممبئی حملے کے محرکات کیا ہیں اور سلمان خورشید پاکستان کو جن سنگین اندرونی مسائل کی وجہ سے شک کا فائدہ اور مزید وقت دے رہے ہیں وہ سنگین حالات کیا ممبئی حملے سے کم ہیں۔ یہاں تو ہر روز پاکستان کو ممبئی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیا ان حملوں کا ایک بڑا سبب بھارتی حکمرانوں کی تنگ نظرانہ پالیسیاں نہیں؟
بلاشبہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہے اور اس کی اسی کمزور حیثیت نے بھارتی حکمرانوں کو یہ کہنے کی جرأت بخشی ہے کہ وہ پاکستان کو شک کا فائدہ اور مزید وقت دے رہے ہیں۔ لیکن بھارتی وزیر خارجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکا کو عراق سے نکلنا پڑا اور اب وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اسے خیریت اور سلامتی کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کے مواقعے بھی دستیاب نہیں اور امریکا جیسی دنیا کی واحد سپر پاور سے یہ مواقعے ان ہی طاقتوں نے چھین لیے ہیں جو کسی حملے اور پاکستان کی سنگین اندرونی صورت حال کے ذمے دار ہیں۔ لیکن یہ باتیں نہ بھارتی حکمرانوں کی سمجھ میں آرہی ہیں نہ سلمان خورشید میں ان تلخ حقائق کو سمجھنے کی اہلیت ہے۔ قومی مفادات اور قومی سلامتی کی ناک سے آگے دیکھنے کی بصارت سیاستدانوں میں اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ قومی مفادات اور قومی سلامتی کو اپنی داشتہ بنائے ہوئے ہیں جس کا عوام سے اور عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔