جسٹس فائز عیسی نے بھاری بھرکم کابینہ پر سوال اٹھا دیے
کیا خیبر پختون خوا کو قانون کے بجائے مرضی پر چلایا جا رہا ہے؟، جسٹس فائز عیسی
سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسی نے بھاری بھرکم کابینہ پر سوال اٹھا دیے۔
سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمہ میں درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے کے پی کے میں اسپیشل سیکرٹری کا عہدہ تخلیق کرنے کا نوٹس لے لیا۔
وکیل نے کہا کہ ملزم خالد زمان کیخلاف کرک کے علاقہ تخت نصرتی میں مقدمہ درج ہے اور اس پر قتل کے کیس میں اسلحہ فراہم کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے پر خارج کردی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ ضمانت کے ہر کیس میں ٹرائل کورٹ سے ریکارڈ کیوں مانگتی ہے؟، توقع ہے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ججز کو مناسب ہدایات جاری کرینگے۔
دوران سماعت عدالت نے چیف سیکرٹری، صوبائی سیکرٹری قانون اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ بتایا جائے کتنے محکموں میں سپیشل سیکرٹری کا عہدہ قائم کیا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ من پسند افسران کو نوازنے کیلئے سپیشل اسیکرٹری کا عہدہ تخلیق کیا گیا، کیا کے پی کے کو قانون کے بجائے مرضی پر چلایا جا رہا ہے؟ پاکستان میں کوئی بھی قانون پر نہیں چلتا، گولڈن، پلاٹینم اور سلور سیکرٹریز کے عہدے بھی بنا لیں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس اسپیشل سیکرٹری کا عہدہ قائم کرنے کا اختیار نہیں، کے پی حکومت اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے بھاری بھرکم کابینہ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کی پہلی کابینہ میں کتنے وزراء تھے ؟۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے جواب دیا کہ پہلی کابینہ چار سے پانچ وزراء پر مشتمل تھی۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آج کی کابینہ میں وزراء کی تعداد دیکھ لیں کتنی ہے۔
سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمہ میں درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے کے پی کے میں اسپیشل سیکرٹری کا عہدہ تخلیق کرنے کا نوٹس لے لیا۔
وکیل نے کہا کہ ملزم خالد زمان کیخلاف کرک کے علاقہ تخت نصرتی میں مقدمہ درج ہے اور اس پر قتل کے کیس میں اسلحہ فراہم کرنے کا الزام تھا۔ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے پر خارج کردی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ ضمانت کے ہر کیس میں ٹرائل کورٹ سے ریکارڈ کیوں مانگتی ہے؟، توقع ہے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ججز کو مناسب ہدایات جاری کرینگے۔
دوران سماعت عدالت نے چیف سیکرٹری، صوبائی سیکرٹری قانون اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ بتایا جائے کتنے محکموں میں سپیشل سیکرٹری کا عہدہ قائم کیا گیا ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ من پسند افسران کو نوازنے کیلئے سپیشل اسیکرٹری کا عہدہ تخلیق کیا گیا، کیا کے پی کے کو قانون کے بجائے مرضی پر چلایا جا رہا ہے؟ پاکستان میں کوئی بھی قانون پر نہیں چلتا، گولڈن، پلاٹینم اور سلور سیکرٹریز کے عہدے بھی بنا لیں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس اسپیشل سیکرٹری کا عہدہ قائم کرنے کا اختیار نہیں، کے پی حکومت اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے بھاری بھرکم کابینہ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کی پہلی کابینہ میں کتنے وزراء تھے ؟۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے جواب دیا کہ پہلی کابینہ چار سے پانچ وزراء پر مشتمل تھی۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آج کی کابینہ میں وزراء کی تعداد دیکھ لیں کتنی ہے۔