دعوت فکر اور مثبت فکری زاویے

فکر سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے اور سوچ کے زاویے معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں، اس میں ہمارے رجحانات، ترجیحات۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

فکر سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے اور سوچ کے زاویے معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں، اس میں ہمارے رجحانات، ترجیحات، فطری لگاؤ، جبلی جھکاؤ نیز تربیت کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زمانے میں مختلف ادوار میں مختلف الخیال لوگ گزرے ہیں اور فکری تصادم ہر دور میں رہا ہے،آج بھی ہے اور یہ صحت مند معاشرے کی علامت اور کار آمد نتائج کی ضمانت ہے، جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو، فکری تصادم اس وقت تک فکری تعمیر و ترقی میں اہم کلیدی کردار ادا کرتا ہے جب تک یہ عدم برداشت کا شکار اور مادی و جسمانی تصادم میں تبدیل ہوکر مفکرین میں احساس عدم تحفظ پیدا نہ کرے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنے یا سامان پیدا کرے، صحت مند معاشرہ وہی ہے جہاں مختلف مذاہب، فرقوں، نسلوں اور اختلافی سیاسی نظریات کے حامل افراد کے لیے باہم مل جل کر رہنے کی واضح گنجائش ہو اور ایسے ہی صحت مند معاشرے کی آبیاری میں مفکرین نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

دیکھیے ہارون الرشید جیسا کامیاب خلیفہ اپنے گرد دربار میں کیسے کیسے تفکرین اور اہل علم و دانش کو اکٹھا رکھتا اور ان سے حکومتی و ریاستی معاملات میں مشاورت کیا کرتا تھا اس زمانے میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا تصور تک نہ تھا تاہم معرکۃ الآراء کتب ضرور تھیں اور وہ بھی ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے تھے لیکن بادشاہ علماء مفکرین سے براہ راست تبادلہ خیال و استفادہ کیا کرتا تھا ہمارے حکمرانوں کے پاس ایسا دربار ہے اور نہ وہ مفکرین کو اپنے گرد جمع رکھتے ہیں تاہم اس میں شک نہیں کہ حکمراں اور ان کے وزیر و مشیر اب الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا پر شایع ہونے والی فکری تصانیف سے گویا ایسے ہی مستفید ہوسکتے ہیں اور رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں جیسے ہارون الرشید اور دوسرے مربی علم و علما، بادشاہ اپنے گرد مفکرین اور علماء کو جمع رکھ کر اور مشاورت کرکے ان کے صحت مند خیالات اور تعمیری نظریات و فکرات سے مستفید ہوا کرتے اور حکومت و سلطنت کو تقویت پہنچایا کرتے تھے۔

طالبان سے مذاکرات کا عمل تو خیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور مولوی فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد اب قصہ پارینہ بنتا دکھائی دیتا ہے ۔ اب طالبان نے مولوی فضل اللہ کو متفقہ طور پر اس لیے اپنا امیر تسلیم کیا کیونکہ وہ افغانستان میں مقیم ہیں اس طرح طالبان قیادت اب پاکستان کی بجائے افغانستان میں محفوظ رہ کر زیادہ موثر کردار ادا کرسکتی ہے لیکن طالبان کا یہ موثر کردار یقیناً پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا حکومت کو ان سے مقابلے کے لیے اب ہر صورت تیار رہنا ہوگا اور ایسی صورت حال میں بھارت اور کرزئی حکومت بھی پاکستان کے نامساعد حالات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس لیے قومی سلامتی کی جامع پالیسی جلد از جلد تیار ہونی چاہیے، قومی سلامتی کے سیکریٹریٹ، انٹیلی جنس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مکمل تعاون اور استعداد کو جتنا جلدی ہو فوراً بڑھانا ہوگا لیکن یہ وہ اہم کام ہے جو بارہ برس سے جاری اس جنگ کے درمیان نہ ہوسکا کیا اب صرف چھ ماہ میں ہوسکے گا؟ کیونکہ اب امریکی انخلا میں کم و بیش چھ ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں اس کے بعد پاکستان اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں تنہا ہوگا نہ ہی امریکی ڈرون پاکستان کی مدد کرسکیں گے ۔

جو تجزیہ نگار مذاکرات کے خلاف اپنی آراء پیش کرتے رہے وہ بھی محب وطن ہیں اور جو مذاکرات کے حق میں دلائل دیتے رہے ان کی حب الوطنی پر بھی کوئی شک نہیں، سب کا مطمع نظر دراصل محفوظ و مضبوط پاکستان اور دائمی امن کا قیام تھا جوکہ 9/11 کے بعد پاکستان کے امریکی نان نیٹو اسٹریٹیجک پارٹنرز بننے کے بعد ناپید ہوچکا ہے اور 2014 میں امریکی انخلا کے بعد مزید گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے، بس خدا خیر کرے! جن مفکرین کی آراء مذاکرات کے خلاف تھیں ان کا موقف تھا کہ ہم ایٹمی قوت ہیں جنگ کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں پوری طاقت و قوت سے طالبان کو کچل دینا چاہیے تاکہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کا سودا کر ڈالیں۔


تاہم جو مذاکرات کے حق میں تھے ان کا خیال بھی بڑا معقول تھا کہ ہم بارہ برس سے جاری اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں جو ہماری نہیں پرائی جنگ ہے جب ہم بارہ برس میں اس جنگ پر قابو نہ پاسکے تو بھلا مذاکرات نہ کرکے اور امریکی انخلا کے بعد تنہا بھلا کیسے اور کیونکر اس سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں؟ ہماری خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکیورٹی دونوں ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور دونوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ انتہا پسندی کا آخری اسٹیج جنگ و جدال اور عدم برداشت کی آخری حدود قتل و غارت گری پر ختم ہوتی ہیں جب انتہا پسندی اور عدم برداشت اپنے بام عروج پر پہنچ جائیں تو پھر جنگ و قتال کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں، طالبان انتہا پسند اور بنیاد پرست ہیں۔

لہٰذا عدم برداشت پر مبنی جنگ و قتال اور غارت گری کی باتیں انھیں ہی زیب دیتی ہیں ہمیں نہیں، ہم تو روشن خیال، اعتدال پسند، مہذب اور لبرل لوگ ہیں ہمیں جنگ جیسی انتہا پسندی سے بھلا کیا سرو کار؟ ہم توپرامن مذاکرات اور پرامن بقائے باہمی کے ہی حامی ہیں کیونکہ ہم انتہا پسند اور بنیاد پرست نہیں، ہم عسکریت پسند، قدامت پرست، رجعت پسند، دقیانوسی سوچ اورفرسودہ خیالات جیسی عظیم برائیوں سے آلودہ بھی نہیں، یہی تو وہ عظیم خامیاں تھیں جن کی بدولت سوویت یونین سے صف آرا ہونے پر پہلے امریکا، اس کے حواریوں اور کچھ ''لبرل فاشسٹ اور جعلی (Fake) لبرل قائدین نے انھیں ''مجاہدین'' اور ''شہدا'' کے خطاب سے نوازا اور اب ''بدترین وحشی اور تخریب کار اور جہنم رسید ہونے والے دہشت گردوں'' کے لقب سے پکارا جارہا ہے۔ دنیا کیسے بدل رہی ہے اور کہاں جارہی ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس عہد جدید میں بھی دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔

بہر حال عہد جدید کے عسکری تناظر میں گوریلا جنگی کارروائیاں (جس کے بانی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ہیں) کامیاب ترین عسکری طریقہ کار ہے اس طریقہ کار سے ان اقوام نے بھی جو غیر مسلم تھیں اور مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے جن کا دور کا تعلق بھی نہ تھا فتوحات کی عظیم تاریخ رقم کی ہیں، تمام فریڈم فائٹرز نے ہمیشہ یہی طریقہ کار اختیار کیا ہے، ویت نامی طالبان تھے نہ ہی مذہبی انتہا پسند لیکن امریکا شرمناک شکست سے دوچار ہوکر بھاگا، صومالیہ میں جب امریکا پھنس کر ذلت سے دوچار ہوا یہ بات بھی پرانی نہیں، اسی طرح انڈو چائنا جنگ میں بھی کامیابیوں کا تمام تر انحصار گوریلا طرز جنگ پر تھا اس کے علاوہ اور بھی کئی غیر مسلم اور غیر مذہبی انتہا پسندوں نے اس طریقہ کار سے فتح کے عظیم باب تاریخ میں رقم کیے ہیں جوکہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ایک ناقابل تردید سیاسی، عسکری اور تاریخی حقیقت ہے جب کہ عصر حاضر کے سیاسی تناظر میں مذاکرات و معاہدات ایک کامیاب ترین سیاسی طریقہ کار ہے جس کی بدولت دنیا امن کا گہوارہ بنی اور یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاست عسکریت پر اور مذاکرات و معاہدات جنگ و جدال پر غالب ہیں، یہی وہ نقطہ ہے جو ہمارے نام نہاد لبرل (لبرل فاشسٹ اور جعلی لبرل) طبقہ فکر کے حامل مفکرین کے لیے دعوت فکر اور مثبت فکری زاویے رکھتا ہے۔

یہ نام نہاد مفکرین لبرل ازم کے نام پر امریکا کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، اگر آج پوری قوم رجعت پسند طالبان کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے یکسو ہوئی ہے تو یہ طبقہ اسے ناکام بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے آزماتا ہے اور اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی امریکی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ حالانکہ دوسری ریاستوں کے حق حاکمیت کا احترام اور جنگوں اور خانہ جنگیوں کے پرامن حل کی حوصلہ افزائی لبرل فکر کے بنیادی اصولوں کا اہم حصہ ہے اور برصغیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے ہمارے لبرل قائدین نے خود استعماریت کے خلاف ان ہی بنیادی اور اہم اصولوں پر مبنی جدوجہد کرکے ہمیں آزادی مساوات اور حق خود ارادیت جیسی عظیم نعمتوں سے ہمکنار کیا تھا لیکن آج کے ان لبرل قائدین کا طرز عمل ہمارے عظیم اجداد سے مختلف بلکہ متصادم ہے۔
Load Next Story