وزیرِاعظم پاکستان کے نام
خان صاحب آپ کے ساتھ تین نسلوں کے دل دھڑکتے ہیں، اس قوم کو مایوسی کی دلدل سے آپ نے نکالا اور انہیں خواب دکھائے
پیارے کپتان آپ کے نام۔ اس خواب کے نام جو آپ نے بلاخوف و خطر ہمیں بائیس سال دکھلایا۔ اس نظریے کے نام جسے آپ نے ہر تقریر، ہر انٹرویو، ہر فورم پر پروان چڑھایا۔ آج آپ کو اقتدار میں آئے تقریباً ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ اقتدار جو آپ کو ڈیڑھ کروڑ ووٹرز کی انتھک محنت سے ملا، اس کا ایک تہائی حصہ ختم ہوا۔ محسوس کررہا ہوں کہ آپ تک میرے یہ الفاظ پہنچنا بہت ضروری ہیں۔ پیارے کپتان جب انسان خواب دیکھے اور وہ خواب اگر تکمیل تک نہ پہنچے یا حقیقت اس خواب کے ٹوٹنے کا منظر پیش کرے تو سخت سے سخت جان انسان بھی انتہائی تکلیف سے ٹوٹ جاتا ہے۔ آج اس نئے پاکستان کا وہ خواب جو آپ اور ہم نے مل کر دیکھا، کہیں ٹوٹ رہا ہے اور ہم جس راستے پر گامزن ہیں، کسی اور منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔
وہ جنہیں الٹا لٹکانا تھا اور وہ جنہیں رلانا تھا، وہ ریلیف لے کر دور پار کی فضاؤں میں رچ بس چکے ہیں۔ مگر جنہیں آسانی مہیا کرنی تھی اور جنہیں آرام پہنچانا تھا، انہیں الٹا لٹکا کر ان کی کھال کھینچی جارہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کہیں گے کہ سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں، ثمرات ملنے میں وقت لگتا ہے۔ مگر خان صاحب یہ بات بھی صرف کہنے کی حد تک ہی ٹھیک ہے۔ جلد قرضوں کے غلط استعمال کے حقائق سامنے لانے سے لے کر بیرونِ ملک دو سو ارب ڈالر واپس لانے تک اور این آر او نہ دینے سے لے کر نوّے دن میں کرپشن ختم کرنے تک، حقائق سامنے آنے پر آپ کے یہ الفاظ بھی پاؤں کی بیڑیاں بن جائیں گے۔
کون سے اصلاحات خان صاحب، کون سی ریفارمز؟ معیشت کو بہتر بنانے کےلیے جو جو قدم اٹھائے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر میدان میں آپ کی حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ نہ معیشت دستاویزی ہوئی، نہ کاروباری طبقے میں یقین پیدا ہوا، نہ ٹیکس نیٹ میں بڑھائے گئے افراد سے خاطر خواہ ریونیو جمع ہوا۔ بلکہ اس بار تو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا اور آئی ایم ایف کے غضب کے ڈر سے شبر زیدی صاحب بھی بیمار ہوگئے اور تعطیلات پر چلے گئے۔ خان صاحب آپ بھی میڈیا کو مافیا کہتے کہتے ان ہی کی بولی بولنے لگ گئے اور سنا ہے کہ آخری کابینہ کے اجلاس میں معاشی ٹیم کے غلط گائیڈ کرنے پر ان کی سرزنش بھی کر بیٹھے، اور تو اور یہاں تک کہہ بیٹھے کہ مہنگائی اتنی بھی نہیں ہونی چاہئے، جتنی آج کل ہورہی ہے۔
پیارے کپتان! ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو ریکارڈ تجارتی و مالیاتی خسارہ ملا۔ تمام ادارے بحران کی زد میں ملے۔ خزانہ خالی ملا۔ میں آپ سے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں خسارہ ختم کرنے کا سوال کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں، مگر کوئی دو چار قدم جو آپ نے بہتری کےلیے اٹھائے ہوں اور ان کا ثمر عوام کو ملا ہو، جو آپ دکھا سکیں تو کچھ سکون ملے۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہاں آپ کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ کوئی ٹیم نہیں ہے۔ ہیں تو بس پیراشوٹرز، جنہیں جوابدہی کا ڈر نہیں۔ ہیں تو بس موقع پرست گروہ، جو آپ کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر آپ سے داد وصولی کررہا ہے۔
خان صاحب کچھ ہوش کیجئے۔ آپ تو اللہ سے وعدہ کرکے آئے تھے کہ آپ کسی چور اور ڈاکو کو ریلیف نہیں دیں گے۔ آپ تو کہتے رہے کہ اقتدار تو چھوٹی سی چیز ہے، جان بھی چلی جائے تو جائے مگر غریب عوام کا خون چوسنے والے آپ سے نہیں بچیں گے۔ مگر یہ کیا خان صاحب کہ سندھ ہائی کورٹ نے نثار مورائی، عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے، مگر آپ کی حکومت نے اس پر کسی مقدمے کا قیام تو دور، کسی کارروائی کا آغاز بھی نہیں کیا۔ الٹا اس پر اپنے ہونٹ سی لیے اور اپنے ممبران کو خاموش رہنے کی ہدایت کردی ہے، تاکہ آپ کے اتحادی ناراض نہ ہوں اور آپ کی حکومت بچی رہے۔
یہ آپ ہی کا دور ہے جہاں ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ اگر نیب آپ کے تابع ہوتا تو آپ چار ہزار لوگوں کو اندر کرکے چند دنوں میں پوری ریکوری کرتے۔ مگر آپ نے تو اپنے ہاتھوں سے ہی نیب کی اصلاحات کرکے نیب کے پر کاٹ دیے۔ جو کام گیلانی اور نواز شریف آپ کی تحریک کے ڈر سے نہ کرسکے، آپ کرگئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کے لواحقین آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اس اْمید پر مافیاز کا دور کاٹ دیا کہ جب آپ آئیں گے تو ان مظلومین کی آواز سنی جائے گی، مگر نہیں۔ ریلوے کے سانحات اور آئے روز بڑھتے ہوئے جرائم، مایوس لوگوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی شرح بھی آپ کا دھیان چاہتے ہیں۔ مگر عوام کے انصاف کی بات کیا کی جائے، جب آپ کے اپنے وزیر کہتے ہیں کہ انہیں جب کہیں سے انصاف ملتا دکھائی نہ دیا تو انہوں نے صحافیوں کو تھپڑ مارنا شروع کرکے قانون ہاتھ میں لینے کی نئی مثال قائم کردی۔ سوچا تھا آپ کے دور میں کچھ جوابدہی کا خوف ہوگا، مگر وہی وزیر موصوف اپنے حالیہ انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے کوئی سوال نہ کیا، کوئی ناراضگی نہ دکھائی، بس پوچھا کہ تم کیا ہر شادی میں جاکر لوگوں کو تھپڑ مار آتے ہو۔
خان صاحب آپ ہی کا دور ہے جہاں آٹے اور چینی کے بحران سے آپ کے دوست مال بنارہے ہیں۔ سنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ بھی آپ کی میز پر پڑی ہے، مگر آپ نے اپنے دوستوں کی اس جرأت پر خاموش رہ کر گویا لوٹ مار کی نیم اجازت دے دی ہے۔ خان صاحب سوچا تھا چوروں اور لٹیروں سے وصولیاں ہوں گی، مگر دیکھیے ناں عدالت سے سزا پانے والے آپ کی نظروں سے آپ کے اپنے ڈاکٹروں کے ذریعے آپ کو چکما دے کر فرار ہوگئے۔ بات یہاں تک نہیں رکتی، وہ تو آپ کی زبان سے یہ تک کہلوا گئے کہ وہ واقعی بیمار ہیں۔ آج اسی بیماری کا جب آپ اور آپ کے وزرا مذاق اڑاتے ہیں تو بات سمجھ سے باہر ہوجاتی ہے۔
خان صاحب مارا گیا تو بس غریب۔ کچلا گیا تو بس عام آدمی۔ بتائیے خان صاحب اس عام آدمی کا کیا قصور ہے کہ ستر سال سے ایک اس بدقسمت عام آدمی ہی کے پسینے سے کمائی کی جارہی ہے۔ آپ کے جلسے بھرے یہ عام آدمی، ان میں نعرے لگائے یہ عام آدمی، آپ کی پارٹی کے نغمے گائے یہ عام آدمی، مگر پٹرول میں ساڑھے بیالیس روپے کا اضافہ بھی یہ عام آدمی بھرے، گیس کی قیمتوں میں تین سو فیصد اضافے کا اطلاق بھی اسی عام آدمی پر ہو، دوائوں میں دو سو فیصد اضافہ بھی یہی غریب سہے اور آٹے چینی کے بحران کا شکار بھی یہی بدقسمت ہو۔ آج ہی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بوڑھی ماں آپ سے فریاد کررہی ہے کہ یا تو ہمیں خواب نہ دکھایا ہوتا یا اب ہمیں مکمل جواب دے دیں کہ اس ملک کو سنبھالنا آپ کے بس کی بات نہیں، تاکہ ہم ایک طرف سمجھوتہ کرکے بیٹھ جائیں۔
پیارے وزیرِاعظم! آپ تو جمہوریت کے علمبردار تھے اور بادشاہت سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ بھلا یہ کیسی جمہوریت ہے خان صاحب، جہاں آپ کا ایک ایک ووٹر چیخ چیخ کر تھک گیا کہ عثمان بزدار نامی یہ شخص اس صوبے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ ڈلیور نہیں کرسکتے مگر آپ کی زد اور آپ کی انا ان سب کی آہ و بکا پر بھاری ہے۔ بھلا یہ کیسی جمہوریت ہے خان صاحب جہاں آپ کا کہنا حرفِ آخر اور عوام کی پکار سنی اَن سنی کردی جائے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ آپ کے دور میں میرٹ ہوگا اور تمام فیصلے ٹھوس ثبوتوں کی بنا پر ہوں گے۔ مگر یہ کیا کہ ایک شخص کو بغیر کسی وجہ کے تاحیات حکومت آپ نے یہ گارنٹی دے دی کہ جب تک میری حکومت ہے اس صوبے کے عثمان بزدار ہی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ آج آپ وزیرِاعظم ہیں تو آپ کے حق میں بائیس سال کمپین کرنے والا، لوگوں کی لعن طعن سننے کے باوجود آپ کا پیغام در در پہنچانے والا عاطف خان باہر پھینکا جاچکا اور اس کے اوپر ایک پیراشوٹر محمود خان فوقیت حاصل کرچکا۔ بتائیے ناں کہ اگر یہ نظریے کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟
خان صاحب سوچ لیجئے کہ آپ کے ساتھ تین نسلوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ اس قوم کو مایوسی کی دلدل سے آپ نے نکالا اور انہیں خواب دکھائے کہ ان کا پرانا اور بوسیدہ پاکستان بھی صاف شفاف اور نیا ہوسکتا ہے۔ خدارا اب بھی وقت ہے۔ ایک تہائی حصہ بیت چکا اور دو تہائی اب بھی باقی ہے۔ جنہیں سن کر ڈیڑھ کروڑ لوگ پچیس جولائی کو ووٹ دینے گھروں سے نکلے، ان باتوں اور وعدوں میں اگر آپ نصف کو بھی پورا کر بیٹھے تو یقین مانیے کہ یہ قوم آپ کو دعائیں دے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وہ جنہیں الٹا لٹکانا تھا اور وہ جنہیں رلانا تھا، وہ ریلیف لے کر دور پار کی فضاؤں میں رچ بس چکے ہیں۔ مگر جنہیں آسانی مہیا کرنی تھی اور جنہیں آرام پہنچانا تھا، انہیں الٹا لٹکا کر ان کی کھال کھینچی جارہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کہیں گے کہ سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں، ثمرات ملنے میں وقت لگتا ہے۔ مگر خان صاحب یہ بات بھی صرف کہنے کی حد تک ہی ٹھیک ہے۔ جلد قرضوں کے غلط استعمال کے حقائق سامنے لانے سے لے کر بیرونِ ملک دو سو ارب ڈالر واپس لانے تک اور این آر او نہ دینے سے لے کر نوّے دن میں کرپشن ختم کرنے تک، حقائق سامنے آنے پر آپ کے یہ الفاظ بھی پاؤں کی بیڑیاں بن جائیں گے۔
کون سے اصلاحات خان صاحب، کون سی ریفارمز؟ معیشت کو بہتر بنانے کےلیے جو جو قدم اٹھائے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر میدان میں آپ کی حکومت کو منہ کی کھانی پڑی۔ نہ معیشت دستاویزی ہوئی، نہ کاروباری طبقے میں یقین پیدا ہوا، نہ ٹیکس نیٹ میں بڑھائے گئے افراد سے خاطر خواہ ریونیو جمع ہوا۔ بلکہ اس بار تو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا اور آئی ایم ایف کے غضب کے ڈر سے شبر زیدی صاحب بھی بیمار ہوگئے اور تعطیلات پر چلے گئے۔ خان صاحب آپ بھی میڈیا کو مافیا کہتے کہتے ان ہی کی بولی بولنے لگ گئے اور سنا ہے کہ آخری کابینہ کے اجلاس میں معاشی ٹیم کے غلط گائیڈ کرنے پر ان کی سرزنش بھی کر بیٹھے، اور تو اور یہاں تک کہہ بیٹھے کہ مہنگائی اتنی بھی نہیں ہونی چاہئے، جتنی آج کل ہورہی ہے۔
پیارے کپتان! ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو ریکارڈ تجارتی و مالیاتی خسارہ ملا۔ تمام ادارے بحران کی زد میں ملے۔ خزانہ خالی ملا۔ میں آپ سے ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں خسارہ ختم کرنے کا سوال کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں، مگر کوئی دو چار قدم جو آپ نے بہتری کےلیے اٹھائے ہوں اور ان کا ثمر عوام کو ملا ہو، جو آپ دکھا سکیں تو کچھ سکون ملے۔
افسوس تو یہ ہے کہ یہاں آپ کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ کوئی ٹیم نہیں ہے۔ ہیں تو بس پیراشوٹرز، جنہیں جوابدہی کا ڈر نہیں۔ ہیں تو بس موقع پرست گروہ، جو آپ کو سب اچھا کی رپورٹ دے کر آپ سے داد وصولی کررہا ہے۔
خان صاحب کچھ ہوش کیجئے۔ آپ تو اللہ سے وعدہ کرکے آئے تھے کہ آپ کسی چور اور ڈاکو کو ریلیف نہیں دیں گے۔ آپ تو کہتے رہے کہ اقتدار تو چھوٹی سی چیز ہے، جان بھی چلی جائے تو جائے مگر غریب عوام کا خون چوسنے والے آپ سے نہیں بچیں گے۔ مگر یہ کیا خان صاحب کہ سندھ ہائی کورٹ نے نثار مورائی، عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے، مگر آپ کی حکومت نے اس پر کسی مقدمے کا قیام تو دور، کسی کارروائی کا آغاز بھی نہیں کیا۔ الٹا اس پر اپنے ہونٹ سی لیے اور اپنے ممبران کو خاموش رہنے کی ہدایت کردی ہے، تاکہ آپ کے اتحادی ناراض نہ ہوں اور آپ کی حکومت بچی رہے۔
یہ آپ ہی کا دور ہے جہاں ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ اگر نیب آپ کے تابع ہوتا تو آپ چار ہزار لوگوں کو اندر کرکے چند دنوں میں پوری ریکوری کرتے۔ مگر آپ نے تو اپنے ہاتھوں سے ہی نیب کی اصلاحات کرکے نیب کے پر کاٹ دیے۔ جو کام گیلانی اور نواز شریف آپ کی تحریک کے ڈر سے نہ کرسکے، آپ کرگئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کے لواحقین آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اس اْمید پر مافیاز کا دور کاٹ دیا کہ جب آپ آئیں گے تو ان مظلومین کی آواز سنی جائے گی، مگر نہیں۔ ریلوے کے سانحات اور آئے روز بڑھتے ہوئے جرائم، مایوس لوگوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی شرح بھی آپ کا دھیان چاہتے ہیں۔ مگر عوام کے انصاف کی بات کیا کی جائے، جب آپ کے اپنے وزیر کہتے ہیں کہ انہیں جب کہیں سے انصاف ملتا دکھائی نہ دیا تو انہوں نے صحافیوں کو تھپڑ مارنا شروع کرکے قانون ہاتھ میں لینے کی نئی مثال قائم کردی۔ سوچا تھا آپ کے دور میں کچھ جوابدہی کا خوف ہوگا، مگر وہی وزیر موصوف اپنے حالیہ انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے کوئی سوال نہ کیا، کوئی ناراضگی نہ دکھائی، بس پوچھا کہ تم کیا ہر شادی میں جاکر لوگوں کو تھپڑ مار آتے ہو۔
خان صاحب آپ ہی کا دور ہے جہاں آٹے اور چینی کے بحران سے آپ کے دوست مال بنارہے ہیں۔ سنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ بھی آپ کی میز پر پڑی ہے، مگر آپ نے اپنے دوستوں کی اس جرأت پر خاموش رہ کر گویا لوٹ مار کی نیم اجازت دے دی ہے۔ خان صاحب سوچا تھا چوروں اور لٹیروں سے وصولیاں ہوں گی، مگر دیکھیے ناں عدالت سے سزا پانے والے آپ کی نظروں سے آپ کے اپنے ڈاکٹروں کے ذریعے آپ کو چکما دے کر فرار ہوگئے۔ بات یہاں تک نہیں رکتی، وہ تو آپ کی زبان سے یہ تک کہلوا گئے کہ وہ واقعی بیمار ہیں۔ آج اسی بیماری کا جب آپ اور آپ کے وزرا مذاق اڑاتے ہیں تو بات سمجھ سے باہر ہوجاتی ہے۔
خان صاحب مارا گیا تو بس غریب۔ کچلا گیا تو بس عام آدمی۔ بتائیے خان صاحب اس عام آدمی کا کیا قصور ہے کہ ستر سال سے ایک اس بدقسمت عام آدمی ہی کے پسینے سے کمائی کی جارہی ہے۔ آپ کے جلسے بھرے یہ عام آدمی، ان میں نعرے لگائے یہ عام آدمی، آپ کی پارٹی کے نغمے گائے یہ عام آدمی، مگر پٹرول میں ساڑھے بیالیس روپے کا اضافہ بھی یہ عام آدمی بھرے، گیس کی قیمتوں میں تین سو فیصد اضافے کا اطلاق بھی اسی عام آدمی پر ہو، دوائوں میں دو سو فیصد اضافہ بھی یہی غریب سہے اور آٹے چینی کے بحران کا شکار بھی یہی بدقسمت ہو۔ آج ہی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بوڑھی ماں آپ سے فریاد کررہی ہے کہ یا تو ہمیں خواب نہ دکھایا ہوتا یا اب ہمیں مکمل جواب دے دیں کہ اس ملک کو سنبھالنا آپ کے بس کی بات نہیں، تاکہ ہم ایک طرف سمجھوتہ کرکے بیٹھ جائیں۔
پیارے وزیرِاعظم! آپ تو جمہوریت کے علمبردار تھے اور بادشاہت سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ بھلا یہ کیسی جمہوریت ہے خان صاحب، جہاں آپ کا ایک ایک ووٹر چیخ چیخ کر تھک گیا کہ عثمان بزدار نامی یہ شخص اس صوبے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ وہ ڈلیور نہیں کرسکتے مگر آپ کی زد اور آپ کی انا ان سب کی آہ و بکا پر بھاری ہے۔ بھلا یہ کیسی جمہوریت ہے خان صاحب جہاں آپ کا کہنا حرفِ آخر اور عوام کی پکار سنی اَن سنی کردی جائے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ آپ کے دور میں میرٹ ہوگا اور تمام فیصلے ٹھوس ثبوتوں کی بنا پر ہوں گے۔ مگر یہ کیا کہ ایک شخص کو بغیر کسی وجہ کے تاحیات حکومت آپ نے یہ گارنٹی دے دی کہ جب تک میری حکومت ہے اس صوبے کے عثمان بزدار ہی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ آج آپ وزیرِاعظم ہیں تو آپ کے حق میں بائیس سال کمپین کرنے والا، لوگوں کی لعن طعن سننے کے باوجود آپ کا پیغام در در پہنچانے والا عاطف خان باہر پھینکا جاچکا اور اس کے اوپر ایک پیراشوٹر محمود خان فوقیت حاصل کرچکا۔ بتائیے ناں کہ اگر یہ نظریے کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟
خان صاحب سوچ لیجئے کہ آپ کے ساتھ تین نسلوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ اس قوم کو مایوسی کی دلدل سے آپ نے نکالا اور انہیں خواب دکھائے کہ ان کا پرانا اور بوسیدہ پاکستان بھی صاف شفاف اور نیا ہوسکتا ہے۔ خدارا اب بھی وقت ہے۔ ایک تہائی حصہ بیت چکا اور دو تہائی اب بھی باقی ہے۔ جنہیں سن کر ڈیڑھ کروڑ لوگ پچیس جولائی کو ووٹ دینے گھروں سے نکلے، ان باتوں اور وعدوں میں اگر آپ نصف کو بھی پورا کر بیٹھے تو یقین مانیے کہ یہ قوم آپ کو دعائیں دے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔