نجی ملکیت کو محدود کیے بغیر
جب سے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام متعارف ہوا ہے، انسان طبقوں میں بٹ گیا ہے
جب سے دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام متعارف ہوا ہے، انسان طبقوں میں بٹ گیا ہے۔ طبقوں میں بٹنا بری بات نہ ہوتا اگر معاشی مساوات نہ سہی معاشی انصاف تو ہوتا۔ لیکن یہ طبقات انتہائی نامنصفانہ اور جارحانہ طبقات میں بٹ گئے ہیں۔ ایک طرف 70-80 ارب ڈالر کے مالکان ہیں جو اتنی بڑی دولت خرچ کرنا بھی چاہیں تو خرچ نہیں کر سکتے، یہ بہ مشکل دو فیصد ہیں جب کہ دوسری طرف نان جویں سے محتاج وہ 90 فیصد سے زیادہ انسان ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ اس طبقاتی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیاسی لوگ جو اصولاً اس ظلم زدہ نظام کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔
دوسرے اہل فکر اہل دانش جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بہتر متبادل پیش کر سکتے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی دولت بلکہ لامحدود دولت نے ان کی عقل و دانش کو خرید لیا ہے اور وہ اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے اس وحشیانہ نظام کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ صورتحال اس قدر خوفناک ہے کہ محروم طبقات کو پر تشدد انقلاب کی طرف دھکیل سکتی ہے جس کے آثار جگہ جگہ ملک ملک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پرتشدد مظاہروں کی شکل میں نظر آ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو یہ پورا پورا احساس تھا کہ ایک نہ ایک دن غریبوں اور بھوکوں کے قافلے باہر نکلیں گے اور وہ دن ان کا یوم حساب ہو گا۔ اس خوف سے سرمایہ دار طبقے نے ایسے قوانین بنائے جو نظام کے باغیوں کو کچلنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ ان قوانین میں لامحدود حق ملکیت سب سے ظالمانہ قانون ہے۔
اس وقت رات کے تین بج رہے ہیں۔ میں ایک گھنٹے سے بیٹھا سوچتا رہا کہ کیا انسانوں کی اس ظالمانہ تقسیم کا کبھی انت ہو گا؟ ذہن سے جواب آیا دیر ہی سے سہی اس کا انت ضرور ہو گا۔ مجھے اس نظام کے خلاف لکھتے ہوئے پچاس سال ہو رہے ہیں۔ ایکسپریس میں لکھتے ہوئے سترہ سال ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ اور اخبار میں بھی برسوں لکھتا رہا، روزناموں کے علاوہ کئی رسالوں میں بھی لکھتا رہا جن میں پی آئی اے یونین کی طرف سے نکالا جانے والا ماہنامہ منشور فیضؔ صاحب اور سبط صاحب کی نگرانی میں شایع ہونے والا لیل و نہار، لاہور سے نکلنے والے عوامی جمہوریت اور پارس شامل ہیں۔
ان کے علاوہ روزنامہ آغاز وغیرہ میں بھی لکھتا رہا، میرا موضوع ہمیشہ طبقاتی نظام کے مظالم رہا۔ ان پچاس سالوں میں جانے کتنے ہزار کالم لکھے لیکن اس حوالے سے دلچسپ حقیقت یہ رہی کہ میرے ہر کالم کا موضوع سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام اور انسانوں پر اس کے مظالم ہی رہا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایک ہی موضوع پر کوئی پچاس سال لکھتا رہا تو متعلقہ لوگ اس پر تحقیق کرتے ہیں اور کتابیں مرتب کرتے ہیں لیکن پاکستان جیسے بے حس ملک میں اس کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں جس کا حوالہ میں نے اپنی کوششوں سے 10 سال تک نکالے جانے والے ماہنامہ فردا میں کیا ہے، اس ماہنامے کو محض اپنی محنت اور کوششوں سے دس سال تک نکالتا رہا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن عزم راسخ ہو تو مشکل سے مشکل کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
بعض موضوع ایسے ہوتے ہیں جن پر بار بار لکھنا پڑتا ہے، طبقاتی نظام ایسے ہی موضوعات میں سے ایک ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا کے لیے ناگزیر کہنے اور سمجھنے والے پسماندہ ملکوں میں جن میں پاکستان اور ہندوستان بھی شامل ہیں، کوڑے کے ڈھیروں پر کتوں اور انسانوں کو جب اپنا پیٹ بھرتے دیکھتے ہیں تو پتہ نہیں انھیں شرم آتی ہے یا نہیں اصولاً تو انھیں اس قسم کے نظارے کر کے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے لیکن یہ لوگ پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے لیے ناگزیر ہے۔ دنیا اپنی تاریخ کے دوران جانے کتنے نظاموں کے ساتھ چلتی رہی ہو گی لیکن یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام سے بدتر حیوانی نظام کوئی نہیں گزرا ہو گا، اس نظام کے مظالم دیکھنا ہوں تو غریب بستیوں میں جا کر دیکھیں۔
اس نظام میں انسان حیوان بن کر اور شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر کس قدر گر جاتا ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ بے نظیر امداد سے گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے افسران بالا تین ماہ میں 4 ہزار روپے اس نظیر فنڈ سے لیتے رہے ہیں، وہ بھی اپنی بیویوں کے نام پر اس حوالے سے اب تک مسلسل خبریں آ رہی ہیں، فنڈ کا استعمال کرنے والوں کے خلاف اب باضابطہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ ہر قیمت پر پیسے کا حصول اس نظام کی پہچان ہے، اس نظام میں پیسے کے لیے جان دی اور لی جاتی ہے۔
اس نظام میں دو قسم کے ڈاکو ہوتے ہیں ایک وہ جنھیں اسٹریٹ کرمنل کہا جاتا ہے، دوسرے وہ جو خوبصورت اور اے سی لگے آفسوں میں بیٹھ کر ہر روز کروڑوں کی ڈکیتیاں ڈالتے ہیں، آج کے اخباروں میں ایک بڑی خبر لگی ہے جس کا عنوان ہے ڈاکوؤں نے بہن کے سامنے بھائی کو گولی مار دی۔ وہ بھائی ویت نام میں ٹیچر تھا اور چھٹیوں پر اپنے گھر کراچی آیا تھا ڈاکوؤں کی گولی کا شکار ہو گیا، ڈاکو وہ رقم لے گئے جو ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے لیے مقتول انعام نبی نے بینک سے نکالی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے یہ وہ مظالم ہیں جن کا نظارہ قدم قدم پر کیا جا سکتا ہے، اس نظام کی ناک میں لامحدود حق ملکیت کو ختم کر کے نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔