پھانسی کی رات شہید کی آخری چائے
فروری کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر ہی کے ایک اور نوجوان افضل گرو کو بھی تہاڑ جیل ہی میں پھانسی دے کر شہید کیا گیا تھا
یہ عجب اتفاق ہے کہ فروری کے مہینے میں ہم سب اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہُوئے یومِ یکجہتی کشمیر بھی مناتے ہیں اوراِسی مہینے میں،36 برس قبل، مقبوضہ کشمیر کے مقبول و معروف حریت پسند نوجوان رہنما مقبول بٹ دہلی کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کر دیے گئے تھے۔
فروری کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر ہی کے ایک اور نوجوان حریت پسند رہنما ، افضل گرو، کو بھی تہاڑ جیل ہی میں پھانسی دے کر شہید کیا گیا تھا۔ یہ المناک اور سفاک سانحہ سات سال قبل وقوع پذیر ہُوا ۔ افضل گرو پر ظالم بھارت نے جھوٹا الزام عائد کیا تھا کہ اُس نے اپنے دو ساتھیوں سمیت بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ کیا ۔ پھانسی کے وقت شہید افضل گرو کی عمر صرف43 برس تھی۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا: غالب گرو ۔ شہید افضل گرو کی با وفا اہلیہ، محترمہ تبسم گرو ، نے اسے بڑی محبت سے پالا ہے ۔
غالب گرو نے چار سال پہلے سرینگر میں میٹرک کے امتحان میں مقبوضہ کشمیر تعلیمی بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی ۔ اب وہ ڈاکٹر بن رہا ہے۔ افسوس بیٹے کی یہ خوشی دیکھنے سے پہلے ہی افضل گرو اپنے وطن کی آزادی کا خواب دیکھتے دیکھے اللہ کے حضور جا پہنچا۔ اللہ کریم جنت آشیانی شہید افضل گرو کے مقامات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے۔ آمین۔
دہلی کی تہاڑ جیل میں جب افضل گرو کو پھانسی دی گئی، اُس وقت اس جیل کا سربراہ (جیلر) سنیل گپتا تھا جو اَب ریٹائر ہو چکا ہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد سنیل گپتا نے جیل میں گزرے شب و روز پر مبنی اپنی یادداشتیں لکھی ہیں جو خاصی انکشاف خیز ہیں ۔ یہ یادداشتیں Black Warrant : Confessions of a Tihar Jailerکے زیر عنوان کتابی شکل میں شایع ہُوئی ہیں۔
یہ کتاب 200 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔ تہاڑ جیل کی ملازمت کے ابتدائی ایام میں سنیل گپتا کی موجودگی ہی میں مقبول بٹ کو سُولی دی گئی تھی ۔ اس کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔ مذکورہ کتاب کو ترتیب دینے میں بھارت کی ایک مشہور خاتون صحافی ، سنیترا چوہدری ، نے بھی برابر کا حصہ ڈالا ہے ۔ اسی وجہ سے کتاب پر دونوں کے نام لکھے گئے ہیں ۔ کتاب میں شہید افضل گرو کی پھانسی کی رات کا احوال بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے ۔ یہ غمناک کہانی پڑھ کر آنکھیں چھلک اُٹھتی ہیں ۔ اب جب کہ 9 فروری کو افضل گرو شہادت کی ساتویں برسی منائی جانے والی ہے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے معزز قارئین کو یہ احوال سنایا جائے۔
جیلر سنیل گپتا لکھتے ہیں : ''8 اور 9 فروری 2013کی درمیانی شب تہاڑ جیل کے سبھی ذمے داران اور متعلقہ جلاد افضل گرو کو پھانسی دینے کی تیاریاں کرتے رہے تھے ۔ آدھی رات گزر چکی تھی جب ایک بڑے مسئلے نے سر اُٹھایا ۔ جیل مینوئل کے مطابق، جس شخص کو پھانسی دی جاتی ہے ، جلاد اُس شخص کے وزن اور قد کے مطابق ریت سے بھری بوریاں پھانسی کے پھندے کے ساتھ لٹکا کر تختہ دار کھینچتے ہیں تا کہ یقین کر لیا جائے کہ پھانسی دیتے ہُوئے رسّہ اور تختہ کوئی پرابلم پیدا نہ کرے ۔ متعلقہ شخص کو پھانسی دینے سے پہلے یہ تجربہ دو تین بار کیا جاتا ہے ۔ افضل گرو کو پھانسی دینے والی رات مگر یہ تجربہ بڑا سنگین صورت اختیار کر گیا تھا۔ افضل گرو کے وزن اور قد کے مطابق جب ریت سے بھری بوریاں پھانسی کے پھندے سے لٹکائی گئیں تو اچانک رسّہ ٹوٹ گیا۔ بڑی مشکل پڑ گئی تھی۔ دریائے گنگا کے کنارے اُگنے والی ایک خاص گھاس سے یہ رسہ تیار کیا جاتا ہے ۔ اسے ''منیلا روپ'' کہا جاتا ہے۔
یہ رسّہ ہم نے بہار کی ''بکسر جیل'' سے اُسی وقت منگوا لیا تھا جب افضل گرو کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اس رسّے کی قیمت 860 روپے تھی۔ چونکہ اس فیصلے کو سات آٹھ سال گزر چکے تھے ، شائد اس لیے رسّہ بھی نسبتاً کمزور ہو چکا تھا۔ تہاڑ جیل میں جب پھانسی کا یہ رسّہ ٹوٹا ، اُس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔ پریشانی کے عالم میں جلادوں نے نہایت احتیاط سے دوسری بار یہ عمل دہرایا۔ مگر دوسری بار بھی جونہی پھانسی کا لیور کھینچا ، رسّہ پھر ٹوٹ گیا ۔ پھانسی صبح چھ بجے دینا تھی اور اوپر سے یہ افتاد پڑ گئی تھی۔ کئی وسوے دل میں گھر کر گئے تھے۔ افضل گرو کو پھانسی دیتے وقت بھی اگر یہی ہُوا تو؟ یہ خبر اگر باہر نکل گئی تو کیا ہم سب اس سیکنڈل سے بچ پائیں گے ؟ مَیں پھانسی گھاٹ کے سامنے مضطرب کھڑا تھا اور میرا آخری سہارا صرف جلاد ہی رہ گئے تھے۔ تیسری بار تجربہ مگر کامیاب رہا تو ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔''
جیلر سنیل گپتا یہ سنسنی خیز داستان مزید یوں لکھتا ہے : '' ہماری پریشانیوں کے برعکس افضل گرو اپنی کوٹھڑی میں پُر سکون سو رہا تھا۔ اُسے ایک رات قبل تنہا کوٹھڑی سے ایک دوسری کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ کوٹھڑی پھانسی گھاٹ سے نزدیک پڑتی تھی۔ اس منتقلی پر شائد افضل گرو کو بھی کچھ کچھ احساس ہو گیا ہو گا کہ اُس کا آخری وقت قریب آ پہنچا ہے۔ افضل گرو سے میری اکثر بات چیت نہیں ہوتی تھی لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کو خوب جانتے تھے۔ وہ پانچ وقت نمازیں باقاعدہ ادا تو کرتا ہی تھا، اس کے علاوہ بھی سارا دن عبادت کرتا رہتا تھا۔ جب اس سے فارغ ہوتا تو قرآن شریف اور دیگر مذہبی کتابیں پڑھتا رہتا۔ شاعری میں اُسے اُردو کے کلاسیکی شاعر، اسد اللہ غالبؔ، بڑا پسند تھا ۔
صبح چھ بجے سے ایک گھنٹہ پہلے مَیں خود افضل گرو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور اُسے اٹھایا۔ مَیں نے بوجھل دل سے اُسے بتایا: تمہاری پھانسی کا وقت ہُوا چاہتا ہے۔ افضل گرو نے میری بات تحمل سُنی اور پھر چند ثانیے کے بعد بڑے صبر کے ساتھ کہا: 'ہاں، مجھے بھی کچھ اندازہ ہے' ۔ مَیں اُس کے پُر سکون لہجے پر حیران تھا۔ ہم آمنے سامنے بیٹھ گئے تھے۔
مَیں نے پوچھا: گرو، چائے پیؤ گے؟ اُس نے ہاں میں جواب دیا۔ چائے آ گئی تو صبحِ کاذب کے اُن لمحات میں ہم دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے ۔ ہر لمحہ بڑا ہی بوجھل اور گمبھیر تھا۔ پھر اچانک افضل گرو نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے ٹھہرے لہجے میں کہا: 'جیلر صاحب، اللہ گواہ ہے مَیں دہشت گرد نہیں ہُوں، مَیں بے قصور ہُوں، کسی نے انڈیا میں میری بات نہیں سُنی۔' تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ مشہور پرانی فلم 'بادل' کا ایک گیت گانے لگا : اپنے لیے جیئے تو کیا جیئے، تُو جی اے دل زمانے کے لیے !! حیرانی کی بات ہے کہ مذکورہ فلم میں ہیرو ( سنجیو کمار) بھی یہ گانا جیل کی کوٹھڑی ہی میں گاتا سنائی دیتا ہے۔
افضل گرو یہ گیت گانے لگا تو مَیں بھی اس کا ساتھ دیتے ہُوئے گانے کے بول دہرانے لگا۔ مجھے یہ گانا پوری طرح یاد ہے۔ مَیں نے پوری طرح محسوس کیا کہ گیت گاتے ہُوئے افضل گروکی آواز میں خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ پھر اُس نے مضبوط لہجے میں مجھے براہِ راست مخاطب کرتے ہُوئے دو باتیں کہیں: (۱) مجھے آپ نرم دل لگتے ہیں۔ پھانسی دیتے وقت جلدی کرنا (۲) مَیں نے اپنی زندگی بہتر مقصد کی خاطر گزاری ہے۔ مَیں نے خاموشی سے اُس کی باتیں سُنیں۔ پھر اُس سے پوچھا: گرو، چائے اور پئیں گے؟ اُس نے کہا: ہاں۔ چائے لانے والا بد بخت مگر جا چکا تھا۔ افسوس، افضل گرو کی یہ آخری خواہش مَیں پوری نہ کر سکا۔ صبح ٹھیک 6 بجے افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی تو دو گھنٹے بعد اُسے تہاڑ جیل کے صحن کے ایک کونے پر وہیں دفن کر دیا گیا جہاں کئی سال پہلے مقبول بٹ کو پھانسی کے بعد دفن کیا گیا تھا ۔''
فروری کے مہینے میں مقبوضہ کشمیر ہی کے ایک اور نوجوان حریت پسند رہنما ، افضل گرو، کو بھی تہاڑ جیل ہی میں پھانسی دے کر شہید کیا گیا تھا۔ یہ المناک اور سفاک سانحہ سات سال قبل وقوع پذیر ہُوا ۔ افضل گرو پر ظالم بھارت نے جھوٹا الزام عائد کیا تھا کہ اُس نے اپنے دو ساتھیوں سمیت بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ کیا ۔ پھانسی کے وقت شہید افضل گرو کی عمر صرف43 برس تھی۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا: غالب گرو ۔ شہید افضل گرو کی با وفا اہلیہ، محترمہ تبسم گرو ، نے اسے بڑی محبت سے پالا ہے ۔
غالب گرو نے چار سال پہلے سرینگر میں میٹرک کے امتحان میں مقبوضہ کشمیر تعلیمی بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی ۔ اب وہ ڈاکٹر بن رہا ہے۔ افسوس بیٹے کی یہ خوشی دیکھنے سے پہلے ہی افضل گرو اپنے وطن کی آزادی کا خواب دیکھتے دیکھے اللہ کے حضور جا پہنچا۔ اللہ کریم جنت آشیانی شہید افضل گرو کے مقامات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے۔ آمین۔
دہلی کی تہاڑ جیل میں جب افضل گرو کو پھانسی دی گئی، اُس وقت اس جیل کا سربراہ (جیلر) سنیل گپتا تھا جو اَب ریٹائر ہو چکا ہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد سنیل گپتا نے جیل میں گزرے شب و روز پر مبنی اپنی یادداشتیں لکھی ہیں جو خاصی انکشاف خیز ہیں ۔ یہ یادداشتیں Black Warrant : Confessions of a Tihar Jailerکے زیر عنوان کتابی شکل میں شایع ہُوئی ہیں۔
یہ کتاب 200 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔ تہاڑ جیل کی ملازمت کے ابتدائی ایام میں سنیل گپتا کی موجودگی ہی میں مقبول بٹ کو سُولی دی گئی تھی ۔ اس کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔ مذکورہ کتاب کو ترتیب دینے میں بھارت کی ایک مشہور خاتون صحافی ، سنیترا چوہدری ، نے بھی برابر کا حصہ ڈالا ہے ۔ اسی وجہ سے کتاب پر دونوں کے نام لکھے گئے ہیں ۔ کتاب میں شہید افضل گرو کی پھانسی کی رات کا احوال بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے ۔ یہ غمناک کہانی پڑھ کر آنکھیں چھلک اُٹھتی ہیں ۔ اب جب کہ 9 فروری کو افضل گرو شہادت کی ساتویں برسی منائی جانے والی ہے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے معزز قارئین کو یہ احوال سنایا جائے۔
جیلر سنیل گپتا لکھتے ہیں : ''8 اور 9 فروری 2013کی درمیانی شب تہاڑ جیل کے سبھی ذمے داران اور متعلقہ جلاد افضل گرو کو پھانسی دینے کی تیاریاں کرتے رہے تھے ۔ آدھی رات گزر چکی تھی جب ایک بڑے مسئلے نے سر اُٹھایا ۔ جیل مینوئل کے مطابق، جس شخص کو پھانسی دی جاتی ہے ، جلاد اُس شخص کے وزن اور قد کے مطابق ریت سے بھری بوریاں پھانسی کے پھندے کے ساتھ لٹکا کر تختہ دار کھینچتے ہیں تا کہ یقین کر لیا جائے کہ پھانسی دیتے ہُوئے رسّہ اور تختہ کوئی پرابلم پیدا نہ کرے ۔ متعلقہ شخص کو پھانسی دینے سے پہلے یہ تجربہ دو تین بار کیا جاتا ہے ۔ افضل گرو کو پھانسی دینے والی رات مگر یہ تجربہ بڑا سنگین صورت اختیار کر گیا تھا۔ افضل گرو کے وزن اور قد کے مطابق جب ریت سے بھری بوریاں پھانسی کے پھندے سے لٹکائی گئیں تو اچانک رسّہ ٹوٹ گیا۔ بڑی مشکل پڑ گئی تھی۔ دریائے گنگا کے کنارے اُگنے والی ایک خاص گھاس سے یہ رسہ تیار کیا جاتا ہے ۔ اسے ''منیلا روپ'' کہا جاتا ہے۔
یہ رسّہ ہم نے بہار کی ''بکسر جیل'' سے اُسی وقت منگوا لیا تھا جب افضل گرو کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اس رسّے کی قیمت 860 روپے تھی۔ چونکہ اس فیصلے کو سات آٹھ سال گزر چکے تھے ، شائد اس لیے رسّہ بھی نسبتاً کمزور ہو چکا تھا۔ تہاڑ جیل میں جب پھانسی کا یہ رسّہ ٹوٹا ، اُس وقت رات کے دو بج رہے تھے ۔ پریشانی کے عالم میں جلادوں نے نہایت احتیاط سے دوسری بار یہ عمل دہرایا۔ مگر دوسری بار بھی جونہی پھانسی کا لیور کھینچا ، رسّہ پھر ٹوٹ گیا ۔ پھانسی صبح چھ بجے دینا تھی اور اوپر سے یہ افتاد پڑ گئی تھی۔ کئی وسوے دل میں گھر کر گئے تھے۔ افضل گرو کو پھانسی دیتے وقت بھی اگر یہی ہُوا تو؟ یہ خبر اگر باہر نکل گئی تو کیا ہم سب اس سیکنڈل سے بچ پائیں گے ؟ مَیں پھانسی گھاٹ کے سامنے مضطرب کھڑا تھا اور میرا آخری سہارا صرف جلاد ہی رہ گئے تھے۔ تیسری بار تجربہ مگر کامیاب رہا تو ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔''
جیلر سنیل گپتا یہ سنسنی خیز داستان مزید یوں لکھتا ہے : '' ہماری پریشانیوں کے برعکس افضل گرو اپنی کوٹھڑی میں پُر سکون سو رہا تھا۔ اُسے ایک رات قبل تنہا کوٹھڑی سے ایک دوسری کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ کوٹھڑی پھانسی گھاٹ سے نزدیک پڑتی تھی۔ اس منتقلی پر شائد افضل گرو کو بھی کچھ کچھ احساس ہو گیا ہو گا کہ اُس کا آخری وقت قریب آ پہنچا ہے۔ افضل گرو سے میری اکثر بات چیت نہیں ہوتی تھی لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کو خوب جانتے تھے۔ وہ پانچ وقت نمازیں باقاعدہ ادا تو کرتا ہی تھا، اس کے علاوہ بھی سارا دن عبادت کرتا رہتا تھا۔ جب اس سے فارغ ہوتا تو قرآن شریف اور دیگر مذہبی کتابیں پڑھتا رہتا۔ شاعری میں اُسے اُردو کے کلاسیکی شاعر، اسد اللہ غالبؔ، بڑا پسند تھا ۔
صبح چھ بجے سے ایک گھنٹہ پہلے مَیں خود افضل گرو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور اُسے اٹھایا۔ مَیں نے بوجھل دل سے اُسے بتایا: تمہاری پھانسی کا وقت ہُوا چاہتا ہے۔ افضل گرو نے میری بات تحمل سُنی اور پھر چند ثانیے کے بعد بڑے صبر کے ساتھ کہا: 'ہاں، مجھے بھی کچھ اندازہ ہے' ۔ مَیں اُس کے پُر سکون لہجے پر حیران تھا۔ ہم آمنے سامنے بیٹھ گئے تھے۔
مَیں نے پوچھا: گرو، چائے پیؤ گے؟ اُس نے ہاں میں جواب دیا۔ چائے آ گئی تو صبحِ کاذب کے اُن لمحات میں ہم دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے ۔ ہر لمحہ بڑا ہی بوجھل اور گمبھیر تھا۔ پھر اچانک افضل گرو نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے ٹھہرے لہجے میں کہا: 'جیلر صاحب، اللہ گواہ ہے مَیں دہشت گرد نہیں ہُوں، مَیں بے قصور ہُوں، کسی نے انڈیا میں میری بات نہیں سُنی۔' تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ مشہور پرانی فلم 'بادل' کا ایک گیت گانے لگا : اپنے لیے جیئے تو کیا جیئے، تُو جی اے دل زمانے کے لیے !! حیرانی کی بات ہے کہ مذکورہ فلم میں ہیرو ( سنجیو کمار) بھی یہ گانا جیل کی کوٹھڑی ہی میں گاتا سنائی دیتا ہے۔
افضل گرو یہ گیت گانے لگا تو مَیں بھی اس کا ساتھ دیتے ہُوئے گانے کے بول دہرانے لگا۔ مجھے یہ گانا پوری طرح یاد ہے۔ مَیں نے پوری طرح محسوس کیا کہ گیت گاتے ہُوئے افضل گروکی آواز میں خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ پھر اُس نے مضبوط لہجے میں مجھے براہِ راست مخاطب کرتے ہُوئے دو باتیں کہیں: (۱) مجھے آپ نرم دل لگتے ہیں۔ پھانسی دیتے وقت جلدی کرنا (۲) مَیں نے اپنی زندگی بہتر مقصد کی خاطر گزاری ہے۔ مَیں نے خاموشی سے اُس کی باتیں سُنیں۔ پھر اُس سے پوچھا: گرو، چائے اور پئیں گے؟ اُس نے کہا: ہاں۔ چائے لانے والا بد بخت مگر جا چکا تھا۔ افسوس، افضل گرو کی یہ آخری خواہش مَیں پوری نہ کر سکا۔ صبح ٹھیک 6 بجے افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کر دی تو دو گھنٹے بعد اُسے تہاڑ جیل کے صحن کے ایک کونے پر وہیں دفن کر دیا گیا جہاں کئی سال پہلے مقبول بٹ کو پھانسی کے بعد دفن کیا گیا تھا ۔''