اسلامی جمہوریہ مصر

مصر کی تاریخ میں سب سے پہلا بننے والا احرام 2600 قبل مسیح فرعون دن خوزر نے بنوایا تھا

KARACHI:
ہمیں راستے مصر کی قدیم تہذیب، احرام، تاریخی مقامات تک لے جاتے ہیں۔ وہ اپنی خاموشی سے ساری داستان سنا دیتے ہیں ایسی کہانیاں جو آج بھی حقیقت ہیں۔ مصر اکثر قدیم تہذیب احرام ، دریائے نیل ان سب کے علاوہ مصر اسلامی تہذیب کا گہوارا رہا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت یوسفؑ کے دور نبوت میں مصر کا بڑا نام تھا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے انبیا کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تو یہ لوگ دیوی دیوتاؤں کی پوجا کیا کرتے تھے۔

کہا جاتا ہے بنی اسرائیل کے کم و بیش 1400 دیوی دیوتا تھے جن کی وہ پوجا کیا کرتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا دیوتا راہو تھا جسے وہ سوچ دیوتا کہا کرتے تھے۔ مصرکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ خطہ تھا جہاں 32 سو قبل مسیح میں بادشاہ ماریانا نے مصرکی تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کو فتح کرکے ایک حکومت کے زیر تسلط کر لیا۔ اس طرح فرعونوں کی حکومت چل پڑی ، فرعون مصر میں حکومت کرنیوالے بادشاہ کوکہا جاتا تھا۔ فرعونوں کے بارے میں اس وقت لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب وہ دوبارہ زندہ ہوکر اپنی زندگی گزاریں گے۔ اسی مقصد کے لیے فرعونوں نے کئی احرام تعمیر کرائے جہاں ان کی لاش کو محفوظ کیا کرتے تھے جن کو ممی کہا جاتا ہے۔

محققین کے نزدیک ان احراموں کا مقصد بادشاہوں کے اپنے جسد خاکی کو ممی کی صورت میں یہاں محفوظ کرکے رکھا جاتا ، اس لیے ان احراموں کا آغازکیا گیا۔ مصر کی تاریخ میں سب سے پہلا بننے والا احرام 2600 قبل مسیح فرعون دن خوزر نے بنوایا تھا۔ چند سالوں بعد مصر کے اگلے فرعون نے غیزہ کا عظیم الشان احرام تعمیر کرایا۔ مجھے رہبر نے بتایا کہ اس کو تعمیر کرنے میں تقریباً بیس برس کا عرصہ لگا ، جن میں بیس لاکھ سے زائد چونے اور پتھر کی اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ چونے کا پتھر جس طرح دیگر پتھروں کے ساتھ لگایا گیا ہے توجہ طلب ہے۔ اس فرعون کو فوفو کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس احرام کو فرضے فوفو بھی کہا جاتا ہے۔ اس فرعون بادشاہ نے 2589 قبل از مسیح تک مصر میں حکمرانی کی نہ صرف مصر بلکہ اردن، شام کے زیادہ تر علاقوں میں بھی اس کا قبضہ رہا۔

مصر کے بادشاہوں فرعونوں نے اپنی سلطنت بڑھانے کے لیے افریقہ اور عرب کے بیشتر ممالک کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ طاقت ور بنتے چلے گئے ان فرعونوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی کی اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے رب تبارک و تعالیٰ نے سیکڑوں انبیا کو اس قوم پر مبعوث فرمایا۔ تیسرا فرعون امسینیا ساسانی تھا جس کے دور حکومت میں حضرت موسیٰ کی ولادت ہوئی۔ اسی بادشاہ کے گھر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کی پرورش بھی ہوئی۔

فرعون بادشاہ امسینیا ساسانی نے دور حکومت میں ہی اپنے بیٹے مستنسا کو آگے بڑھایا۔ ایمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحیرہ قلزم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ جب فرعون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سمندر میں بنے ہوئے اس راستے کے درمیان میں پہنچے تو رب تبارک و تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ مل جا تو وہ مل گیا۔ فرعون اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسی سمندر (بحیرہ قلزم) میں غرق ہوگیا۔

فرعونوں کی لاشوں (ممی)، احراموں اور نقش و نگار سے ان کے دور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو آج کل مصر کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔

664 قبل مسیح سے 333 قبل مسیح تک یعنی دو صدیوں سے زائد عرصہ مصر فارس کے قبضے میں چلا گیا۔ جسے ایلگزینڈر نے دوبارہ فتح کرتے ہوئے مقدونیہ کا حصہ بنادیا۔ یہی وہ بادشاہ تھا جسے تاریخ سکندر اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ ایلگزینڈر یعنی سکندر اعظم کی موت کے بعد اس کے جانشینوں نے کچھ عرصہ بادشاہت کے سلسلے کو جاری رکھا۔

سکندر اعظم کی موت کے بعد سے یونان اور مصر کے علاقوں پر جو حکومت قائم رہی اسے سلطنت بطلیموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سلطنت کی آخری ملکہ قلوپطرہ کو مانا جاتا ہے۔ قلوپطرہ مصر کی وہ شہرہ آفاق ملکہ جس کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی نے سلطنت روم کے نامور جرنیلوں کو خاک و خون میں نہلا کر عظیم الشان سلطنتوں کو ہمیشہ کے لیے ہستی سے مٹا دیا لیکن ان کے نشانات باقی ہیں۔ قدرت نے اس فرعون ملکہ کو دلکش حسن اور جادوئی شخصیت سے نواز تھا۔ افسوس کہ وہ اس حسن کی قیمت وصول کرتے ہوئے خود نیلامی کی سولی پر چڑھ گئی۔ ایک ناقابل فراموش داستان عشق و بے وفائی بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی۔


بعدازاں سلطنت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ساتویں صدی عیسوی میں مصر کو عرب مسلمانوں نے فتح کیا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں مصر کے کافی علاقوں کو فتح کیا گیا۔ جب کہ الیگزینڈرا کا علاقہ بازنطینیوں کے پاس رہنے دیا عربوں نے مصر کے مفتوحہ علاقے کو خستاد کا نام دیا۔

986 عیسوی میں فاطمی دور حکومت میں قاہرہ شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ خستاد کے نام سے آج بھی مصر میں ایک شہر آباد ہے جہاں حضرت عمرو بن عاص نے اپنا خیمہ لگایا تھا۔ چونکہ عربی زبان میں خیمے کو خستاد کہتے ہیں اسی نسبت سے اس شہر کو یہ نام ملا۔ 1517 عیسوی میں ترک مسلمانوں نے مصر پر قبضہ کرلیا عثمانیہ نے مصر کو عثمانی سلطنت کے صوبے کا درجہ دیا۔ مگر آخر وقت تک مصر عثمانیوں کے لیے مشکل سے قابو آنے والا صوبہ رہا۔ جہاں عثمانیہ سے زیادہ مملوک سلطنت کا حکم چلتا تھا۔ 1798 عیسوی میں نپولین بوناپارٹ نے مصر کے متعدد حصوں پر قبضہ کیا اور مصر کو فرانسیسی حکومت کے ماتحت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر اس کی تمام کوششوں کو برطانیہ نے ناکام بنا دیا اور برطانیہ مصر پر قابض ہونے لگا۔ ایک طرف برطانوی فوج دوسری طرف عثمانی حکومت جب کہ تیسری جانب مملوک سلطنت اس ملک پر حکمرانی کے بجائے قبضہ کر رہی تھی۔

اندرونی طور پر مصر میں محمد علی پاشا کے خاندان کا راج قائم ہو چکا تھا۔ جو البینیہ اور عثمانی حکومت کے ایک بہادر سپہ سالار تھے۔ 28 فروری 1922 میں اسی خاندان نے برطانیہ کے قبضے کو ماننے سے انکار کردیا۔ واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ مصر ایک آزاد خودمختار ملک ہے۔ ترکی اور برطانیہ کے درمیان ایک صدی سے زائد اس خطے پر جنگ ہوتی رہی۔ 1922 میں آزادی کا اعلان کرنے کے ساتھ ملک میں انقلابیوں نے زور پکڑا اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے تحریکیں چلائیں۔23 جولائی 1952 مصر میں انقلابی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اگلے سال 18 جون 1952 میں مصر جمہوری ملک قرار پایا۔ آزادی کے بعد سے مصر کے اسرائیل سے تعلقات خراب ہوگئے جو آج تک خراب ہیں۔ مصر اور اسرائیل کی جنگیں و جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

مصر کی آبادی تقریباً 10کروڑ کے لگ بھگ ہے، قاہرہ اس ملک کا دارالحکومت ہے مصر کی کرنسی کو مصری پونڈ کہا جاتا ہے۔ 2013 میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سے مصر فوج کے جنرل عبدالفتح السیسی مصر کے صدر ہیں اور مصطفیٰ کمال وزیر اعظم کی حیثیت میں ہیں مصر کا ویزہ حاصل کرنا پاکستانیوں کے لیے آسان ہے۔

1946 میں ''آسماں ڈیم'' کا اضافہ کرنے کے لیے اس کی تعمیر میں امریکا اور برطانیہ نے 270 ملین ڈالر کا قرض منظور کرلیا۔ لیکن 1952 میں مذکورہ قرضہ روک دیا گیا۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے دوبارہ بند کی تعمیر کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے نے یورپ میں تہلکہ مچا دیا۔ فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کو پوری فوجی و مالی معاونت کی اور مصر پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا۔ اقوام متحدہ اور روس کی مداخلت سے اسرائیل کو روک دیا گیا۔

1958 میں سوویت یونین نے مصر سے تعلقات اچھے کرنے کے لیے امریکا کے خلاف ایک اور ساتھی بنانے کی غرض سے آسمان ڈیم پر آنیوالی لاگت کا ایک تہائی حصہ دینے کا اعلان کردیا۔ اور بھاری مشینری بھی مہیا کی۔

1960 میں آسمان ڈیم کا آغاز ہوا اور 1970 میں مکمل ہو گیا۔ یہ ڈیم آج مصر کی کاشت کاری میں اپنا بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ مصر میں صرف ایک دریا ہے جسے دریائے نیل کہا جاتا ہے۔ اونیز اور ازرک سے مل کر نیل تشکیل پاتا ہے۔ یہ 6695 کلو میٹر سفر طے کرتا بحیرہ روم میں گرتا ہے۔ دریائے ایمازون سے دریائے نیل دوسرا بڑا دریا ہے۔

مصرکے احرام آج بھی اپنی اصل شکل میں ہیں اس کے علاوہ بے شمار تاریخی مقامات موجود ہیں ان سے دلچسپی سیاحوں کی آمد ہے جو ہر سال 90 ہزار سے زائد سیاح مصر آتے ہیں۔ ان کی آمد سے مصر کی معیشت کو خاصا منافع حاصل ہوتا ہے۔
Load Next Story