ٹڈی دل کے خاتمہ کے لیے عملی اقدام کی ضرورت

ٹڈی دل رات کو درختوں پر بسیرا کرتے ہیں اور سورج نکلنے کے بعد درختوں سے فصلوں پر لشکر کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔

ٹڈی دل رات کو درختوں پر بسیرا کرتے ہیں اور سورج نکلنے کے بعد درختوں سے فصلوں پر لشکر کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

QUETTA:
حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ کر لیا، قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت غذائی تحفظ حکام نے ٹڈی دل پر تفصیلی بریفنگ دی۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لیکن ہمارا المیہ ہے کہ سب سے زیادہ اسی شعبے کو نظر اندازکیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملکی زراعت کا شعبہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ ٹڈی دل کے حملے گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں لیکن ماسوائے خوش کن دعوؤں اور بیانات کے عملی طورپر ٹڈی دل کے حملوں سے بچاؤکے لیے کسی بھی قسم کے حکومتی اقدامات سامنے نہیں آئے۔

دوران اجلاس فوڈ سیکیورٹی کمشنر نے بتایا کہ ٹڈی دل سولہ ملین مربع کلومیٹر پر موجود ہے، پندرہ فیصد پنجاب اور 35 فیصد سندھ میں ہے، پی سی ایس آئی آر میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے عملہ ہے نہ ادویات 35 ہزار ادویات اور چار جہازوں سے اسپرے ہوتا تھا جو اب نہیں، ان اعداد و شمارکو ہی درست مان لیا جائے تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ٹڈی دل بھارت اور پاکستان میں پیدا ہوتا اور جگہ بدلتا رہتا ہے۔

ٹڈی دل رات کو درختوں پر بسیرا کرتے ہیں اور سورج نکلنے کے بعد درختوں سے فصلوں پر لشکر کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں ، تو یہ شدید نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ کسان ڈھول اور ٹین کے ڈبے پیٹ پیٹ کر ان کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ناکام رہتے ہیں ۔ پاکستان میں ٹڈی دل کا حملہ نئی بات نہیں لیکن اس بار ٹڈی دل کے لشکروں کی تعداد اور فصلوں پر حملوں میں اضافے نے ماہر ینِ حشرات کو پریشان کر دیا ہے ،بڑھتے ہوئے ٹڈی دل کے حملوں کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹڈی دل پر تحقیق کے لیے ملک کا پہلا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کیا گیا۔


ٹڈی دل کی بازگشت چند دن پیشتر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنی گئی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی جانب سے صوبہ سندھ میں ٹڈی دل کے حملوں پر وفاقی حکومت کی 'لاپروائی' کی مذمت کی گئی۔ قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے اپوزیشن ارکان نے سندھ میں تباہ کن صورتحال سے نمٹنے کے لیے درکار اور منظور کردہ فنڈز فراہم نہ کرنے پرحکومت پر تنقید کی اور تنبیہ کی کہ اگر بروقت علاج کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو صورتحال بے قابو ہوسکتی ہے اور دوسرے صوبوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

حقیقت میں ہوا بھی یہ ہے کہ اس وقت پنجاب ٹڈی دل کے شدید حملوں کی زد میں ہے۔سرکاری حکام کہتے ہیں کہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے تیس کروڑ روپے کا فنڈز مانگا گیا تھا تاہم اب تک چودہ کروڑ روپے ہی ملے ہیں۔ وہی بیوروکریسی کی پالیسیاں جو عوام دشمنی پر مبنی اب بھی نئے پاکستان میں بھی جاری وساری ہیں۔ فنڈزکی کمی کا رونا ،حکومتی نااہلی کی نشاندہی کرتا نظر آرہا ہے۔ ٹڈی دل کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والی گندم ، سبزیاں ، تیلی بیج اور دیگر فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔

ہماری حکومت نے اس مسئلے کو انتہائی غیرسنجیدگی سے لیا ہے، جب کہ زمینی حقائق کے مطابق ٹڈی دل کے مسلسل کئی ماہ سے جاری سندھ، بلوچستان اور اب پنجاب میں جاری حملوں کے نتیجے میں ملک میں غذائی قلت اور خاکم بدہن قحط پیدا ہونے کے امکانات واضح نظر آرہے ہیں۔ غذائی قلت اور قحط کے شکار ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے لیے چشم کشا تو ہے ہی بلکہ عبرت انگیز بھی ہے۔

پاکستان کی آبادی کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے پہلے ہی ہماری ضروریات پوری نہیں ہورہی ہیں۔ ہمیں اپنی فصلوں کے لیے پانی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، چہ جائیکہ ہم ٹڈی دل کے حملوں کے نتیجے میں قحط کا شکار ہوجائیں تو تباہی وبربادی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے اور وزراء ہنسی مذاق اور ٹڈی دل کی بریانی اور دیگر ڈشوں کی تراکیب بتاکر انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے عالمی سطح پرکنٹرول پروگرام اور ہر ملک کی جانب سے علیحدہ وارننگ نظام کئی عشروں سے جاری ہے لیکن دیگر اْمور کی طرح بحیثیت ریاست اس معاملے سے بھی نمٹنے میں ہم ناکام نظر آرہے ہیں۔ ان سطورکے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔
Load Next Story