ماؤں کی تربیت کون کرے گا

کیا حکومت کو خود بھی سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت کا کوئی شعور ہے؟


سید معظم حئی February 08, 2020
[email protected]

آپ پہلے ان خاتون کی مثال لے لیجیے۔ یہ بڑی بی کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی کے فیز ون میں رہتی ہیں اور بڑی مستقل مزاج واقع ہوئی ہیں۔ یہ دن رات اپنے کمرے کا ٹی وی آن رکھتی ہیں۔

یہ ٹی وی روز رات ڈھائی تین بجے تک انتہائی اونچی آواز سے چلتا رہتا ہے اور پڑوسیوں کی نیندیں حرام رکھتا ہے۔ ان کے پڑوسی کئی بار ان لوگوں سے درخواست کرچکے ہیں کہ کم از کم رات بارہ بجے کے بعد ہی اپنے ٹی وی کی آواز کچھ کم کردیا کریں تاکہ دوسرے انسان چین سے سو تو سکیں مگر جناب مجال ہے جو بڑی بی ذرا بھی رعایت کر جائیں۔ ان خاتون کا دوسرا شوق باقاعدگی سے اپنے گھر کا کوڑا پڑوسیوں کے گھر کے آگے پھینکنا ہے۔

بڑی بی کو درختوں سے نفرت ہے اور اگر پڑوسیوں کے لگائے گئے درختوں میں سے کسی کی ایک شاخ کا معمولی سا حصہ بھی جو ان کے گھر تک پہنچ جائے تو یہ اسے فوراً کٹوا کر ہی دم لیتی ہیں۔ اپنے پڑوسیوں کو مستقل مزاجی سے اذیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ خاتون علاقے کے گھروں میں جا جا کر خواتین کو دین کا درس بھی دیتی ہیں۔ اب آپ ذرا بتائیے کہ جس خاتون کو حقوق العباد کی تعلیمات کا بنیادی شعور تک نہیں کہ ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانیٔ خلق ہے۔'' فرمان نبویؐ ہے کہ ''پڑوسی کو ستانے والا دوزخی ہے، اگرچہ تمام رات عبادت کرتا رہے اور تمام دن روزہ دار رہے۔''

ایسی خاتون گھر گھر جا کر دوسری عورتوں کو دین کا کیا درس دیتی ہو گی اور اس درس کا دوسری عورتوں پہ کیا اثر ہوتا ہوگا کہ اسے حقوق العباد کا کوئی شعور ہی نہیں۔ یہ بھی ذرا دیکھ لیتے ہیں، ان خاتون کے باریش صاحبزادے نے اپنے گھر میں سکشن پمپ لگوا رکھا ہے اور جو اگر کبھی بھولے بھٹکے لائن میں پانی آ جائے تو یہ پمپ چلا کر پڑوسیوں کے حق کا پانی بھی کھینچ لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے گھر کی اوپری منزل والے کرائے داروں کو پانی کے لیے اکثر دق کرتے ہیں۔

باریش صاحبزادے کے دوست ہفتے میں کم ازکم ایک دو بار ضرور ان کے ہاں بیٹھ کے رات گئے تک کی محفل جماتے ہیں اور وہ غل مچتا ہے کہ پڑوسی کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان خاتون کے یہ باریش صاحبزادے کئی دوسرے حضرات کے ساتھ محلے میں تبلیغ کے سلسلے میں گشت کرتے بھی پائے جاتے ہیں تاکہ یہ گناہ گار لوگوں کو دین کی جانب راغب کر سکیں۔ ان صاحب کی '' دین داری '' سے ایک اور مثال کا خیال آیا۔

یہ ایک اور خاتون ہیں جو کراچی شہر کے ایک بالکل دوسری طرح کے علاقے ناظم آباد نمبر 5 میں کئی فلیٹوں پہ مشتمل ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور پہ رہائش پذیر ہیں۔ یہ خاتون خیر سے نہ صرف حج کرچکی ہیں بلکہ عمرے کی سعادت بھی حاصل کرکے آئیں۔ اب اتفاق کچھ ایسا ہوا کہ یہ حجن بی بی جس دن عمرہ کر کے آئیں۔ اس کے دوسرے دن صبح گیارہ بارہ بجے گھروں میں پانی کے کین پہنچانے والا لڑکا اوپری منزل کے فلیٹوں میں پانی کے کین دینے جا رہا تھا کہ بدقسمتی سے اس کا پیر پھسلا اور ایک کین جو گرا تو حجن بی کے گھر کے سامنے تھوڑا سا پانی گر گیا۔

بس جناب ! پھر تو غضب ہو گیا۔ حجن بی گلا پھاڑتی چیخیں مارتی گھر سے باہر آگئیں اور وہ فیل مچایا کہ مرد لوگ بھی بغلیں جھانکنے لگے۔ پانی کے کین والے لڑکے اور جن کے گھر وہ پانی کے کین لے جا رہا تھا ان سب نے حجن بی سے معافیاں مانگیں حتیٰ کہ ان کے گھر کے باہر فرش پہ پڑا پانی بھی خود سے صاف کیا مگر بی بی کا غصہ کم نہ ہو سکا۔ اب ذرا سوچئے کہ خاتون نے اپنے بچوں کی کیا تربیت کی ہو گی۔

یہ صرف دو خواتین کی مثالیں نہیں بلکہ یہ دو خواتین عمومی اور مجموعی طور پہ اس گلے سڑے معاشرے کی خواتین کی عظیم ترین اکثریت کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایک طرف وہ خواتین ہیں جن کے خیال میں اچھے مسلمان کا تعلق صرف چند عبادات سے ہوتا ہے باقی وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں جنت پکی ہے۔ دوسری طرف وہ خواتین ہیں جن کے خیال میں ماڈرن اور ترقی یافتہ انسان وہ خواتین ہیں جو دوپٹہ نہیں اوڑھتیں۔ دونوں طرح کی خواتین کو حقوق العباد کا نہ شعور ہے اور نہ ہی سماجی و شہری آداب کی کوئی تمیز۔

اور آپ اس صورتحال کو معمولی معاملہ نہ سمجھیے کیونکہ اس معاشرے میں جہاں دوسروں کو اذیت پہنچانا، دوسروں کا حق مارنا، حرام کمانا، حرام کھانا، دوسروں کے مال، جائیداد اور حقوق پہ قبضہ جمانا، بے ایمانی، جھوٹ، دھوکا، چوری ڈاکے، قتل، ہر معاشرتی برائی اتنی عام ہے کہ کوئی برائی اب برائی ہی نہیں رہی ہے اس معاشرے کے بگاڑ کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی مائیں تقریباً 5 دہائیوں سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہیں اور موجودہ مائیں اپنے بچوں کی کیا تربیت کر رہی ہوں گی کہ جب ان ماؤں کی خود کی ہی کوئی سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت سرے سے ہوئی نہیں۔

اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں ان ماؤں کا سارا زور اس حد تک محدود ہے کہ نہ یہ خود اپنے بچوں کو کسی بات پہ ٹوکیں نہ ہی کوئی دوسرا ایسی جرأت کرے اگر کوئی جو کر بیٹھے تو یہ اس پہ چڑھ دوڑتی ہیں یہاں تک کہ اسکولوں میں ٹیچرز بھی ان کے بچوں کو ٹوک نہیں سکتے یہ وہاں بھی لڑنے پہنچ جاتی ہیں۔

مارننگ شوز کی میزبان خواتین سے بات بات پہ منہ پہ ہاتھ کا چھجا بنا کر ''ہوہو'' کی آوازیں نکالنے کی تربیت حاصل کرنے والی ماؤں کے اس تیزی سے زوال پذیر معاشرے میں آپ کو ڈھونڈنے سے بھی ایسی مائیں عمومی طور پہ نہ مل پائیں گی کہ جو اپنے بچوں کو سچ بولنے، ایماندار بننے، دوسروں اور دوسروں کے حقوق کا خیال کرنے، جگہ جگہ کوڑا نہ پھینکنے، دوسروں کو اذیت نہ پہنچانے، پانی بچانے، درخت لگانے، بے ایمانی نہ کرنے، حرام مال اور حرام کمائی سے ہر صورت بچنے، منافقت نہ کرنے، پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال نہ کرنے، تھینک یو اور سوری کرنے، بڑوں کا احترام کرنے، قطار میں لگنے، ملکی قوانین بشمول ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے، ہارن نہ بجانے، اپنی عبادت سے بھی دوسروں کو بے آرام نہ کرنے جیسی بنیادی باتوں کی تربیتی دیتی ہوں۔ کیسے دیں گی کہ جب خود ان کی ہی ایسی تربیت نہیں ہوئی۔

سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت یافتہ معاشرے ہی ترقی یافتہ ملک بناتے ہیں، سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت یافتہ معاشرہ تیار کرنے کے لیے اس معاشرے کی ماؤں کی سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت کرنی ہوگی جس کے لیے حکومت کو الیکٹرانک میڈیا پہ مذہبی، سماجی اور شہری اسکالرز اور ماہرین کی مدد سے میڈیا اور میڈیا کی شخصیات سے مل کر آگہی مہم کا مسلسل سلسلہ شروع کرنا ہوگا۔

اس بہانے میڈیا انڈسٹری کو بھی مالی سپورٹ ملے گی اور حکومت سے میڈیا کے تعلقات بھی بہتر ہو سکیں گے یعنی معاشرے اور ملک سمیت سب کا فائدہ۔ مگر سوال اب یہ ہے کہ کیا حکومت کو خود بھی سماجی، اخلاقی اور شہری تربیت کا کوئی شعور ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں