انصاف کب ملے گا
افسوس کا مقام ہے کہ نیب چن چن کر ہمارے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہوں نے اِس ملک کی خاطراپنا خون پسینہ بہایا۔
سابق وزیر خزانہ اور میاں محمد نواز شریف کے سمدھی اسحق ڈار اگر بے گناہ اور بے قصور ہیں تو پھر مفرور کیوں ہیں؟
یہ سوال پی ٹی آئی کے اکثر رہنما ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے شدومد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اُن کے علاوہ ہمارے بہت سے سادہ صفت لوگ بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسحق ڈار نے اگر کوئی مالی بدعنوانی نہیں کی ہے تو پھر بیماری کا بہانہ بنا کر دو سال سے کیوں خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہیں۔ یہاں اُن کے خلاف مقدمات دائرکیے جا چکے ہیں اور نیب اُنکی جائیدادیں نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے اور وہ ہیں کہ واپس نہیں آرہے۔
بظاہر یہ سب باتیں ہمارے دل و دماغ کو جائز اور درست معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب تک جن لوگوں کے خلاف احتساب کے نام پر گرفتاری اور مقدمہ بازی ہو چکی ہے کیا وہ سب کے سب عدل و انصاف کے پروسس اور مراحل سے گزار کر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کے خلاف کیسے کیسے الزامات نہیں لگائے گئے۔ قطر سے ایل این جی امپورٹ کرنے اور اُس کے لیے ٹرمینل بنانے سے لے کر قومی ایئر لائن پی آئی اے کی تباہی تک کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ نیب انھیں گزشتہ برس جولائی کے مہینے سے گرفتار کیے ہوئے ہے لیکن ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کر سکا۔
شاہد خاقان عباسی کو اپنی بے گناہی کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے اپنے لیے ضمانت کی درخواست بھی نہیں کی۔ اُن کا خیال تھا کہ گرفتارکرنے والے جب معاملے کی اچھی طرح چھان بین کر لیں گے اور انھیں ایل این جی ٹرمینل کے بارے میں جب کچھ سمجھ اور سوجھ بوجھ ہو جائے گی تو وہ خود ہی انھیں رہا کر دیں گے، مگر یہاں جب گرفتار کرنے والوں کی نیتیں ہی مشکوک ہوں اور وہ کسی کی بے گناہی سے قطع نظر بس صرف سیاسی وابستگی پر بے بنیاد الزامات کے تحت کسی کو غیر معینہ مدت تک گرفتار رکھنا چاہتے ہوں تو وہاں شریف سے شریف انسان بھی وہی کچھ کرے گا جو اسحق ڈار نے کیا ہے۔ جب حالات ایسے ہی ہوں تو بلا وجہ کوئی اپنا سر کسی مصیبت میں کیوں پھنسائے گا۔
شاہد خاقان عباسی کا خیال تھا کہ وہ دو سے تین ماہ میںگرفتار کرنے والوں کو ایل این جی پروجیکٹ سے متعلق ساری حقیقت اور پیچیدگیاں سمجھا دیں گے ۔ اِسی لیے انھوں نے از خود ضمانت کی درخواست دائر کرنے سے بھی اجتناب برتا اور جسمانی ریمانڈ دینے والوں سے خود ہی زیادہ دنوں کا ریمانڈ دینے کی درخواست بھی کی تاکہ وہ اِس مدت میں نیب والوں کو معاہدے کے اصل خدوخال اور اِس پروجیکٹ کی اہمیت و افادیت سمجھا سکیں۔ مگر افسوس کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود نیب انھیں ابھی تک رہا کرنے سے کترا رہا ہے۔
اِسی پروجیکٹ کے ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما مفتاح اسمعیٰل کو بھی رگیدا گیا مگر وہ اب عدالت کے ایک حکم پر ضمانت حاصل کر کے رہائی پا چکے ہیں۔ قطر سے کیا جانے والا ایل این جی کا معاہدہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے فوائد و برکات سے ہم سب پاکستانی مستفید ہو رہے ہیں اور اِس میں ایسی کوئی مالی کرپشن یا کک بیک کے شواہد آج تک نہیں مل پائے جس کے بارے میں شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے لوگ عوام الناس کو بتا بتا کر اپنی سیاسی دکان چمکاتے رہے۔ حکومت کے ایماء پر ہمارے سب سے متحرک ادارے نیب نے بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ابھی تک کچھ ثابت نہ کر سکا۔
شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ اِس ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ انھیں اِس طرح بے بنیاد الزامات لگا کر سزائیں دینے سے اچھے پرخلوص لوگوں کے لیے جو اِس ملک کی کوئی خدمات کرنا چاہتے ہیں اچھا پیغام نہیں جاتا۔ یہ شاہد خاقان عباسی ہی کی انتھک محنت اور کوششوںکا نتیجہ ہے کہ ہم گیس کے بحران کے ساتھ ساتھ بجلی کے بحران سے بھی 2018ء میں باہر نکل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہو سکے۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اِس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا کیا حال تھا۔
گیس کے بحران نے تو ہماری ساری انڈسٹری ہی بند کر کے رکھ دی تھی۔ سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ہمار ی حالت زار کا منہ بولتا ثبوت تھیں، مگر ہم شاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن کی حوصلہ شکنی پر لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلہ تو ایک روز ہمارے یہاں کوئی بھی اچھا انسان اِس ملک و قوم کی خدمت کے لیے دستیاب نہ ہو گا۔
احسن اقبال کا شمار بھی ایسے ہی چند دیانتدار لوگوں میں ہوتا ہے جن کی نیک نیتی اور خلوص کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ ہم نے اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیارکر کے انھیںگزشتہ کئی ماہ سے جیل میں بند کر رکھا ہے۔ لگتا ہے انھیں بھی میاں نواز شریف کے ساتھ یکجہتی اور وفا داری نبھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انھیں نارووال اسپورٹس پروجیکٹ کے ایک ایسے کیس میں پکڑا گیا ہے جس کی ابتدا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور 2009ء میں شروع کی گئی تھی۔
پروجیکٹ کے وقت پر مکمل نہ ہونے اور اُس میں اضافی سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے اخراجات کا تخمینہ 35 ملین سے 97 ملین تک پہنچ گیا۔ اُسے احسن اقبال کے کھاتے میں ڈال کر انھیں زبردستی پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک ڈھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو پائی ہے لیکن نیب احسن اقبال کو رہا کرنے پر تیار نہیں۔ احسن اقبال ہمارے اُن سیاستدانوں میں سے ہیں جن پرآج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔
افسوس کا مقام ہے کہ نیب چن چن کر ہمارے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہوں نے اِس ملک کی خاطر اپنا خون پسینہ بہایا ہے اور جنہوں نے شرافت اور ایمانداری کی مثالیں قائم کی ہیں ، مگر جب یہاں صورتحال ایسی ہی ہو اور اچھے اور شریف لوگوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہو وہاں اسحق ڈار جیسا شخص بھلا کیوں کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالے گا۔ جہاں اعداد و شمار اور ثبوت و شواہد کوئی اہمیت نہ رکھتے ہیں اور جہاں محض کسی کی سیاسی وابستگی ہی جرم عظیم سمجھی جائے وہاں احتساب اور عدل و انصاف پر سے اعتماد کا اُٹھ جانا ایک لازمی امر ہے ، ہماری عدالتیں کب تک ضمانتیں دیتی رہیں گی۔
یہاں ایک کے بعد دوسرا شخص جھوٹے اور بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کر دیا جاتا ہے۔ جسمانی اور جیوڈیشل ریمانڈوں کی درخواستیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر روز ایک نیا الزام لگا کر شریف النفس شخص کی عزت و ناموس مجروح کر دی جاتی ہے۔ اُسے ہتھکڑیاں لگا کر اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھا کر بد نام اور بے عزت کر دیا جاتا ہے۔ عزت نفس اور خود ی اور انا کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ وہ اگر چھ ماہ یا سال بعد بھی رہا ہو جائے تو اُس نے جو ایام پس دیوارِ زنداں گزارے ہیں وہ تو واپس نہیںآ سکتے۔ جو ڈپریشن اور ذہنی دباؤ اور تناؤ وہ برداشت کر چکا ہوتا ہے اُس کے نقصانات کا ازالہ کون کرے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ الزام لگانے والے یا اُسے بلاوجہ بدنام کرنے والے کے لیے بھی کوئی سزا ہمارے قانون میں تجویز ہونی چاہیے ، تبھی جا کے یہ سلسلہ رکے گا۔ ورنہ یہاں ہر روز یہ تماشہ لگا رہے گا۔ جس کا دل چاہے بے بنیاد الزام لگا کے اپنے سیاسی حریف کو رسوا اور بدنام کر دے ۔ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا۔ انھیں جس جرم یا الزام کے تحت بلاوجہ اذیت میں رکھا گیا وہ جرم آج تک کسی عدالت میں ثابت ہی نہیں کیا جا سکا۔
سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل ، رانا ثناء اللہ جیسے سر پھرے اور جنونی لوگ ہمیں اپنی سیاست میں بہت کم کم ہی ملیں گے جنھیں اپنی سچائی اور بے گناہی کا مکمل یقین بھی ہو اور وہ پھر بھی خود کو وقت کے حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔
یہ سوال پی ٹی آئی کے اکثر رہنما ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے شدومد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ اُن کے علاوہ ہمارے بہت سے سادہ صفت لوگ بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسحق ڈار نے اگر کوئی مالی بدعنوانی نہیں کی ہے تو پھر بیماری کا بہانہ بنا کر دو سال سے کیوں خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہیں۔ یہاں اُن کے خلاف مقدمات دائرکیے جا چکے ہیں اور نیب اُنکی جائیدادیں نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے اور وہ ہیں کہ واپس نہیں آرہے۔
بظاہر یہ سب باتیں ہمارے دل و دماغ کو جائز اور درست معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اب تک جن لوگوں کے خلاف احتساب کے نام پر گرفتاری اور مقدمہ بازی ہو چکی ہے کیا وہ سب کے سب عدل و انصاف کے پروسس اور مراحل سے گزار کر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کے خلاف کیسے کیسے الزامات نہیں لگائے گئے۔ قطر سے ایل این جی امپورٹ کرنے اور اُس کے لیے ٹرمینل بنانے سے لے کر قومی ایئر لائن پی آئی اے کی تباہی تک کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ نیب انھیں گزشتہ برس جولائی کے مہینے سے گرفتار کیے ہوئے ہے لیکن ابھی تک کوئی فرد جرم عائد نہیں کر سکا۔
شاہد خاقان عباسی کو اپنی بے گناہی کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے اپنے لیے ضمانت کی درخواست بھی نہیں کی۔ اُن کا خیال تھا کہ گرفتارکرنے والے جب معاملے کی اچھی طرح چھان بین کر لیں گے اور انھیں ایل این جی ٹرمینل کے بارے میں جب کچھ سمجھ اور سوجھ بوجھ ہو جائے گی تو وہ خود ہی انھیں رہا کر دیں گے، مگر یہاں جب گرفتار کرنے والوں کی نیتیں ہی مشکوک ہوں اور وہ کسی کی بے گناہی سے قطع نظر بس صرف سیاسی وابستگی پر بے بنیاد الزامات کے تحت کسی کو غیر معینہ مدت تک گرفتار رکھنا چاہتے ہوں تو وہاں شریف سے شریف انسان بھی وہی کچھ کرے گا جو اسحق ڈار نے کیا ہے۔ جب حالات ایسے ہی ہوں تو بلا وجہ کوئی اپنا سر کسی مصیبت میں کیوں پھنسائے گا۔
شاہد خاقان عباسی کا خیال تھا کہ وہ دو سے تین ماہ میںگرفتار کرنے والوں کو ایل این جی پروجیکٹ سے متعلق ساری حقیقت اور پیچیدگیاں سمجھا دیں گے ۔ اِسی لیے انھوں نے از خود ضمانت کی درخواست دائر کرنے سے بھی اجتناب برتا اور جسمانی ریمانڈ دینے والوں سے خود ہی زیادہ دنوں کا ریمانڈ دینے کی درخواست بھی کی تاکہ وہ اِس مدت میں نیب والوں کو معاہدے کے اصل خدوخال اور اِس پروجیکٹ کی اہمیت و افادیت سمجھا سکیں۔ مگر افسوس کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود نیب انھیں ابھی تک رہا کرنے سے کترا رہا ہے۔
اِسی پروجیکٹ کے ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما مفتاح اسمعیٰل کو بھی رگیدا گیا مگر وہ اب عدالت کے ایک حکم پر ضمانت حاصل کر کے رہائی پا چکے ہیں۔ قطر سے کیا جانے والا ایل این جی کا معاہدہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے فوائد و برکات سے ہم سب پاکستانی مستفید ہو رہے ہیں اور اِس میں ایسی کوئی مالی کرپشن یا کک بیک کے شواہد آج تک نہیں مل پائے جس کے بارے میں شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے لوگ عوام الناس کو بتا بتا کر اپنی سیاسی دکان چمکاتے رہے۔ حکومت کے ایماء پر ہمارے سب سے متحرک ادارے نیب نے بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ابھی تک کچھ ثابت نہ کر سکا۔
شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ اِس ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ انھیں اِس طرح بے بنیاد الزامات لگا کر سزائیں دینے سے اچھے پرخلوص لوگوں کے لیے جو اِس ملک کی کوئی خدمات کرنا چاہتے ہیں اچھا پیغام نہیں جاتا۔ یہ شاہد خاقان عباسی ہی کی انتھک محنت اور کوششوںکا نتیجہ ہے کہ ہم گیس کے بحران کے ساتھ ساتھ بجلی کے بحران سے بھی 2018ء میں باہر نکل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہو سکے۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اِس سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا کیا حال تھا۔
گیس کے بحران نے تو ہماری ساری انڈسٹری ہی بند کر کے رکھ دی تھی۔ سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ہمار ی حالت زار کا منہ بولتا ثبوت تھیں، مگر ہم شاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن کی حوصلہ شکنی پر لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلہ تو ایک روز ہمارے یہاں کوئی بھی اچھا انسان اِس ملک و قوم کی خدمت کے لیے دستیاب نہ ہو گا۔
احسن اقبال کا شمار بھی ایسے ہی چند دیانتدار لوگوں میں ہوتا ہے جن کی نیک نیتی اور خلوص کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ ہم نے اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیارکر کے انھیںگزشتہ کئی ماہ سے جیل میں بند کر رکھا ہے۔ لگتا ہے انھیں بھی میاں نواز شریف کے ساتھ یکجہتی اور وفا داری نبھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انھیں نارووال اسپورٹس پروجیکٹ کے ایک ایسے کیس میں پکڑا گیا ہے جس کی ابتدا پاکستان پیپلز پارٹی کے دور 2009ء میں شروع کی گئی تھی۔
پروجیکٹ کے وقت پر مکمل نہ ہونے اور اُس میں اضافی سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے اخراجات کا تخمینہ 35 ملین سے 97 ملین تک پہنچ گیا۔ اُسے احسن اقبال کے کھاتے میں ڈال کر انھیں زبردستی پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک ڈھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو پائی ہے لیکن نیب احسن اقبال کو رہا کرنے پر تیار نہیں۔ احسن اقبال ہمارے اُن سیاستدانوں میں سے ہیں جن پرآج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا۔
افسوس کا مقام ہے کہ نیب چن چن کر ہمارے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے جنہوں نے اِس ملک کی خاطر اپنا خون پسینہ بہایا ہے اور جنہوں نے شرافت اور ایمانداری کی مثالیں قائم کی ہیں ، مگر جب یہاں صورتحال ایسی ہی ہو اور اچھے اور شریف لوگوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہو وہاں اسحق ڈار جیسا شخص بھلا کیوں کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالے گا۔ جہاں اعداد و شمار اور ثبوت و شواہد کوئی اہمیت نہ رکھتے ہیں اور جہاں محض کسی کی سیاسی وابستگی ہی جرم عظیم سمجھی جائے وہاں احتساب اور عدل و انصاف پر سے اعتماد کا اُٹھ جانا ایک لازمی امر ہے ، ہماری عدالتیں کب تک ضمانتیں دیتی رہیں گی۔
یہاں ایک کے بعد دوسرا شخص جھوٹے اور بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کر دیا جاتا ہے۔ جسمانی اور جیوڈیشل ریمانڈوں کی درخواستیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر روز ایک نیا الزام لگا کر شریف النفس شخص کی عزت و ناموس مجروح کر دی جاتی ہے۔ اُسے ہتھکڑیاں لگا کر اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھا کر بد نام اور بے عزت کر دیا جاتا ہے۔ عزت نفس اور خود ی اور انا کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ وہ اگر چھ ماہ یا سال بعد بھی رہا ہو جائے تو اُس نے جو ایام پس دیوارِ زنداں گزارے ہیں وہ تو واپس نہیںآ سکتے۔ جو ڈپریشن اور ذہنی دباؤ اور تناؤ وہ برداشت کر چکا ہوتا ہے اُس کے نقصانات کا ازالہ کون کرے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ الزام لگانے والے یا اُسے بلاوجہ بدنام کرنے والے کے لیے بھی کوئی سزا ہمارے قانون میں تجویز ہونی چاہیے ، تبھی جا کے یہ سلسلہ رکے گا۔ ورنہ یہاں ہر روز یہ تماشہ لگا رہے گا۔ جس کا دل چاہے بے بنیاد الزام لگا کے اپنے سیاسی حریف کو رسوا اور بدنام کر دے ۔ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا۔ انھیں جس جرم یا الزام کے تحت بلاوجہ اذیت میں رکھا گیا وہ جرم آج تک کسی عدالت میں ثابت ہی نہیں کیا جا سکا۔
سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل ، رانا ثناء اللہ جیسے سر پھرے اور جنونی لوگ ہمیں اپنی سیاست میں بہت کم کم ہی ملیں گے جنھیں اپنی سچائی اور بے گناہی کا مکمل یقین بھی ہو اور وہ پھر بھی خود کو وقت کے حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔