کراچی میں بڑھتے جرائم 

کراچی کو اگر جرائم سے پاک کرنا ہے تو قانون اور انصاف کی برتری قائم کرنا پڑے گی۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

کراچی بظاہر ایک ترقی یافتہ مہذب شہر کہلاتا ہے۔ شہر میں اندرون ملک سے ''بے روزگاروں'' کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے بھی ''بے روزگاروں'' کی آمد جاری رہتی ہے ایسی صورتحال میں اگر جرائم بڑھتے ہیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن اگر شہر پر ڈاکو راج ہی مسلط ہو جائے تو اس حوالے سے شہریوں کا خوف اور تشویش بجا ہی نہیں بلکہ افسوسناک ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جرم کا اصل ذمے دار مجرم ہی ہوتا ہے لیکن بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جرم کی ذمے داری انتظامیہ اور شہر کے پالیسی ساز بلکہ ملک کے پالیسی ساز اداروں پر آتی ہے لیکن یہ محترم لوگ ان الزاموں سے بچے رہتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق عموماً انتظامیہ سے ہوتا ہے۔

آج کل جرائم کے حوالے سے کراچی کی حالت کیا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہم صرف آج کی دو خبروں کا اختصار پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین اور عوام کو یہ اندازہ ہوکہ کراچی کے عوام دو ٹانگوں کے درندوں کے ساتھ کس طرح کی محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی پانچ کالمی خبر ہے '' تیسر ٹاؤن، چوروں نے دکان سے دو سو سے زیادہ پرندے چرا لیے، جن میں 70 بٹیر، 80 کبوتر، درجنوں آسٹریلین طوطے، قیمتی کاک ٹیل طوطوں کے دو دو جوڑے اس کے ساتھ صندوق میں رکھے 20 ہزار روپے بھی لے اڑے۔ چور دکان میں دیوار توڑ کر داخل ہوئے۔

دکاندارکا کہنا ہے کہ اس نے ایک لاکھ روپے سے کاروبار شروع کیا تھا۔ میں ایک غریب انسان ہوں، چھوٹا سا کاروبارکرکے بچوں کو پالنا چاہتا ہوں ، لیکن ظالموں نے میرا کاروبار چوری کرکے میرے بچوں کے آگے بھوک اور میرے آگے بے روزگاری رکھ دی۔ دوسری خبرکی سرخی ملاحظہ ہو۔ '' ڈاکو دندنانے لگے شہری سے موٹر سائیکل ، رقم اور موبائل چھین کر فرار، پی ای سی ایچ ایس میں4 ڈاکوؤں نے فلمی انداز میں واردات صرف تین سیکنڈ میں کی اور فرار ہوگئے۔ ڈاکوؤں نے چہرے چھپا رکھے تھے۔ اس دلچسپ خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

شہر قائد میں بے خوف ڈاکوؤں کی فیملی انداز میں ایک اور واردات سامنے آئی۔ 4 ڈاکو پی ای سی ایچ ایس میں شہری سے موٹرسائیکل، رقم اور موبائل فون چھین کر فرار ہوگئے۔ ڈاکو دن دیہاڑے اسلحے کے زور پر شہری سے موٹر سائیکل رقم اور موبائل چھین کر فرار ہوگئے۔ واردات کے قریب موجود دو مزدوروں نے شہری کو بچانے کے لیے ڈاکوؤں کو پکڑنے کی کوشش کی تو ڈاکوؤںنے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر پیچھے دھکیل دیا۔ ملزموں نے پولیس اور شہریوں کو چکما دینے کے لیے صاف کپڑے پہن رکھے تھے۔ ایک اور خبر کے مطابق لیاقت مارکیٹ میں سنار کی دکان سے کروڑوں مالیت کا سونا لوٹنے والے ڈاکو سالہ بہنوئی تھے جو قتل کی واردات میں بھی ملوث نکلے۔


یہ چند خبریں ہم نے اس لیے لگائیں کہ کراچی شہر میں ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری اور شہریوں کی مجبوریوں کا اندازہ ہوسکے۔ اس حوالے سے یہ بات عام ہے کہ اس قسم کے جرائم کرنے والے انتظامیہ کو معقول بھتہ دیتے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ کام پارٹنرشپ میں بھی کیے جاتے ہیں جب صورتحال یہ ہو تو مجرموں کا ڈنکے کی چوٹ پر وارداتیں کرنا قطعی تعجب خیز نہیں۔

یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اس میں اضافہ تو ہو رہا ہے کمی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی علاقوں میں روزگار کی کمی ہے اور دیہات کے بے روزگار نوجوان حصول روزگار کے لیے شہروں میں آتے ہیں یہ سلسلہ صرف کراچی یا پاکستان کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے۔ لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہو تو سارا کام نظر انداز نہیں کیا جاتا بلکہ شہروں کو جرائم سے بچانے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر میں دیہات سے شہروں میں آنے والوں کا ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے۔

شہروں میں ان کی باضابطہ رجسٹریشن ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ رہنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ان احتیاطوں کے ساتھ جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھی جاتی ہے۔ عادی مجرموں کی تھانوں میں حاضری بھی لازمی قرار دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اس قسم کی بندشوں کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے یہاں بڑے سے بڑا کام پیسے کے زور پر آسانی سے کرا لیا جاتا ہے جس ملک جس شہر میں مجرموں کو یہ سہولتیں حاصل ہوں وہ ملک پاکستان وہ شہر کراچی بن جاتا ہے۔

اس حوالے سے پہلی بات جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کلچر میں ہر حال میں دولت کا حصول ضروری ہے۔ اب دولت کس طرح حاصل کی جائے اس کا طریقہ پاکستان کی اشرافیہ سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ پچھلے تقریباً 15 ماہ سے حصول دولت کے حوالے سے ہمارے سیاستدانوں کے جو کارنامے میڈیا میں آ رہے ہیں اس کا لازمی نتیجہ لوٹ مار میں اضافے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جب ہماری اشرافیہ اربوں کی لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتی ہے تو اس کا نفسیاتی اثر شہریوں خاص طور پر جرائم پیشہ افراد پر پڑنا لازمی ہے عام جرائم پیشہ افراد اربوں کی کرپشن تو نہیں کرسکتے تو وہ اپنے ''اختیارات'' کے مطابق چھوٹے پیمانے پر لوٹ مار کا کاروبار کرتے ہیں چوری ڈاکے اسی اعلیٰ سطح اربوں کی لوٹ مار کا ایک چھوٹا حصہ ہوتے ہیں۔

اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر قانون اور انصاف کی برتری کا کوئی تصور موجود نہیں حالیہ تاریخی احتساب کے ملزم آج جس طرح آزاد گھوم پھر رہے ہیں اور جن کی خبریں میڈیا گاؤں گاؤں تک لے جاتا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے ذہنوں سے قانون اور انصاف کا خوف حرف غلط کی طرح نکل جاتا ہے۔ کراچی کو اگر جرائم سے پاک کرنا ہے تو قانون اور انصاف کی برتری قائم کرنا پڑے گی۔
Load Next Story