می ٹو کے بعد می رقصم
بے خودی میرا سراپا خودی میں اپنے ہی سراپے پر قربان ہوجاتاہے اور میں ’’پرکار‘‘کی طرح اپنے مرکز کے گرد ناچتاہوں۔
ان دنوں اخبارات میں ''می رقصم''کے بڑے چرچے ہیں جسے دیکھو تصوف تصوف کر رہا ہے یہاں تک کہ صوفی نائٹ صوفی میوزک۔بلکہ ایک محترمہ تو اس سلسلے میں خاصا نام بھی کماچکی ہے اور پاکستان کو اٹھارہ چاند بھی لگاچکی ہے۔
''تصوف''کی اچانک اس مقبولیت پرکچھ لوگ حیران کچھ پریشان اور کچھ شادان وفرحاں کہ جی بھر کرمی ٹو می ٹو اور می رقصم بھی ہم خرما ہم ثواب۔لیکن ہم نہ شاداں ہیں نہ فرحاں بلکہ حیران وپریشان ہیں کہ وہ ایک پاکیزہ چیز رہ گئی تھی باقی دین کا سارا مال ومتاع تو بازار میں پہنچایا جاچکاہے۔ایک تصوف باقی تھا اسے بھی اغوا کرکے می رقصم کر دیا گیا ہے۔ ہم دو تین بار بھارت بھی گئے ہیں عالمی کانفرنس کے سلسلے میں اور یہاں بھی اس صوفے کے تصوف کے مناظر دیکھے ہیں اور ہم نے محسوس کیاہے کہ ابلیس نے باقی توسب کچھ قبضہ کرکے رسوا کیاتھا یہ ایک تصوف باقی تھا اس پر ہاتھ ڈال دیاگیا۔
بعض خوش فہم لوگوں کا خیال ہے کہ ابلیس کے نمایندے ہتھیاروں خونریزیوں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ناکام ہونے پر اب ''امن''کے لیے اس''اصل دوا''کے قائل ہوگئے ہیں جان گئے ہیں مان گئے ہیں کہ تشدد خونریزی جنگ وجدل اور نفرت کی آگ بجھانے کے لیے تصوف ہی واحدنسخہ ہے اسے اختیارکررہے ہیں۔لیکن یہ اتنا ہی غلط خیال ہے جتنا تصوف سے ناواقفیت غلط ہے۔
یہ دراصل اب انسانیت کی آخری پناہ گاہ اور قلعہ امن کو بھی فتح کرکے مکمل طور پرابلیسیت کاراج قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے تصوف ہی کولے کر اسے غلط راہ پر ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں دکھاوے کے پروگرام نمائشی سیمناراور کانفرنس۔اور جھوٹ موٹ کے نعرے۔ تصوف تصوف۔جب کہ تصوف چیزہی دیگراست۔ جو شاید کہیں کہیں پچاسی فیصد عوام میں موجود ہو ورنہ بیسٹ سیلر ہونے کی وجہ سے اس کی نقلوں سے دنیا بھر چکی ہے۔
''می رقصم''یا تصوف پرمیوزیکل شو''می رقصم'' میں کیاہوگا یہ ہمیں بغیردیکھے یہیں سے پتہ ہے ہزاروں روپے کے ٹکٹ اور مشہور ومعروف''می ٹو''والیوں کا رقص؟؟می رقصم۔دراصل حضرت عثمان ہارونی کی مشہور غزل ہے جسے عام طور پر عثمان مروندی (شہبازقلندر) کے نام کیاجاتاہے بلکہ کیاگیاہے حالانکہ یہ عثمان ہارونی نام کے ایک ایرانی بزرگ شاعر کی غزل ہے
منم عثمان ہارونی مریدشیخ منصورم
ملامت مہ کنم خلقے ومن بردارمی رقصم
لیکن لوگ اسے ''عثمان مروندی''کردیتے ہیں جو غلط ہے۔غزل کا مطلع یوں ہے
نہ مے دانم کہ آخرچوں دم دیدارمی رقصم
مگرنازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یارمی رقصم
یعنی میں نہیں جانتا کہ آخر میں دیدار کے وقت ناچتاکیوں ہوں لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ کہیں اور نہیں بلکہ یار کے سامنے ناچتاہوں۔لیکن ہمارے ہاں اکثر ترجمے کی غلطیاں ہوجاتی ہیں چنانچہ ''می رقصم''کا ترجمہ بھی ڈانس یا ناچ بلکہ اب تو پاپ اور مائیکل جیکسن ٹائپ خرافات بھی کرلیاجاتاہے یا مغرب کے بریک ڈانس کو بھی اردو میں می رقصم میں ترجمہ کیا جاتاہے اور یہ ترجمہ صرف الفاظ کا نہیں ڈانس کا یا بقول جوش صاحب ''اعضا''کا ترجمہ بھی ہوتاہے چنانچہ غزل آزاد نظم بنادی جاتی ہے اور ملبوس کے فالتو پردے اتار کر اعضا کا صاف اور کھلا ترجمہ بھی پیش کیاجاتاہے۔حضرت عثمان ہارونی کی یہ غزل انتہائی کمال کی غزل اور تغزل وتصوف سے بھرپور ایک شاہکارہے دوسرا شعر ہے
توہردم می سرائی نغمہ وہربارمی رقصم
بہرطرزے کہ می رقصائی من اے یارمی رقصم
یعنی تم جب بھی نغمہ چھیڑتے ہو تو ہربار میں رقص کرتاہوں اور جس طرز پربھی تم مجھے نچاو ناچونگا۔ اور شاید اس ''بہرطرزے''سے یار لوگوں نے ''ہرقسم کا ڈانس''نکالا ہوا ہے
بیا جانان تماشا کن کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم
اس میں بھی کافی گنجائش نکالی جاسکتی ہے بصد ''سامان رسوائی''میں رسوائی کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اگر کوئی نکالنا چاہے تو؟اور می رقصم والے نکال لیتے ہیں آخر ہزار روپے ٹکٹ لینے والے ''صوفوں کے صوفی'' رسوائی ہی کے تو رسیاہوتے ہیں۔ تیسرا شعرہے
خوشارندی کہ پامالش کنم صدیارسائی
زہے تقویٰ کہ من باجبہ ودستارمی رقصم
اب باجبہ ودستاربھی کوئی ڈانس ہوتاہے اس لیے جبہ ودستار کے ساتھ باقی لباس بھی اترکر الگ رکھ دیا جاتا وغیرہ خراب نہ ہو۔اور اس شعر میں کمال کی تشبہہ استعمال کی گئی ہے
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پوئد برسرخارے
من آں قطرہ شبنم بہ نوک خارمی رقصم
یعنی کانٹے پرشبنم کا قطرہ نہیں ٹکتا لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو گرتے گرتے بھی کانٹے کی نوک پر ناچتاہے
تو آں قاتل کہ بہریک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیزخنجرخونخوارمی رقصم
یہ شعر عام سا روایتی عشق ومحبت پرمبنی ہے لیکن تصوف اور وحدت الوجود پرکمال کا شعریہ ہے
سراپا برسرپائے خودم از بے خودی قربان
زیرگرد مرکز خودصورت پرکار می رقصم
یعنی بے خودی میرا سراپا خودی میں اپنے ہی سراپے پر قربان ہوجاتاہے اور میں ''پرکار''کی طرح اپنے مرکز کے گرد ناچتاہوں۔اب تھوڑی سی اس رقص کی بات کرتے ہیں جو تصوف کا مخصوص رقص ہوتاہے اور قونیہ کے درویش پیش کرتے ہیں اگرآپ نے کہیں رومی ٹوپی والے سفیددرویشوں کا ناچ دیکھا ہو تو اس میں رقص کا بنیادی اور مرکزی نکتہ یہ ہوتاہے کہ وہ درویش ایک خاص انداز میں جھکے ہوئے ایک ہاتھ زمین کی طرف دراز کیے ہوئے ہوتے اور اس کے متوازی دوسرا ہاتھ سیدھا آسمان کی طرف اٹھا ہوتاہے جو آسمان اور زمین کے استعارے میں انسان اور روح اعلیٰ کے درمیان رابطے اور تعلق کی نشاندہی کرتاہے۔ وحدت الوجود کا اس سے بہترخاموش اظہار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
''تصوف''کی اچانک اس مقبولیت پرکچھ لوگ حیران کچھ پریشان اور کچھ شادان وفرحاں کہ جی بھر کرمی ٹو می ٹو اور می رقصم بھی ہم خرما ہم ثواب۔لیکن ہم نہ شاداں ہیں نہ فرحاں بلکہ حیران وپریشان ہیں کہ وہ ایک پاکیزہ چیز رہ گئی تھی باقی دین کا سارا مال ومتاع تو بازار میں پہنچایا جاچکاہے۔ایک تصوف باقی تھا اسے بھی اغوا کرکے می رقصم کر دیا گیا ہے۔ ہم دو تین بار بھارت بھی گئے ہیں عالمی کانفرنس کے سلسلے میں اور یہاں بھی اس صوفے کے تصوف کے مناظر دیکھے ہیں اور ہم نے محسوس کیاہے کہ ابلیس نے باقی توسب کچھ قبضہ کرکے رسوا کیاتھا یہ ایک تصوف باقی تھا اس پر ہاتھ ڈال دیاگیا۔
بعض خوش فہم لوگوں کا خیال ہے کہ ابلیس کے نمایندے ہتھیاروں خونریزیوں اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں کے ناکام ہونے پر اب ''امن''کے لیے اس''اصل دوا''کے قائل ہوگئے ہیں جان گئے ہیں مان گئے ہیں کہ تشدد خونریزی جنگ وجدل اور نفرت کی آگ بجھانے کے لیے تصوف ہی واحدنسخہ ہے اسے اختیارکررہے ہیں۔لیکن یہ اتنا ہی غلط خیال ہے جتنا تصوف سے ناواقفیت غلط ہے۔
یہ دراصل اب انسانیت کی آخری پناہ گاہ اور قلعہ امن کو بھی فتح کرکے مکمل طور پرابلیسیت کاراج قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے تصوف ہی کولے کر اسے غلط راہ پر ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں دکھاوے کے پروگرام نمائشی سیمناراور کانفرنس۔اور جھوٹ موٹ کے نعرے۔ تصوف تصوف۔جب کہ تصوف چیزہی دیگراست۔ جو شاید کہیں کہیں پچاسی فیصد عوام میں موجود ہو ورنہ بیسٹ سیلر ہونے کی وجہ سے اس کی نقلوں سے دنیا بھر چکی ہے۔
''می رقصم''یا تصوف پرمیوزیکل شو''می رقصم'' میں کیاہوگا یہ ہمیں بغیردیکھے یہیں سے پتہ ہے ہزاروں روپے کے ٹکٹ اور مشہور ومعروف''می ٹو''والیوں کا رقص؟؟می رقصم۔دراصل حضرت عثمان ہارونی کی مشہور غزل ہے جسے عام طور پر عثمان مروندی (شہبازقلندر) کے نام کیاجاتاہے بلکہ کیاگیاہے حالانکہ یہ عثمان ہارونی نام کے ایک ایرانی بزرگ شاعر کی غزل ہے
منم عثمان ہارونی مریدشیخ منصورم
ملامت مہ کنم خلقے ومن بردارمی رقصم
لیکن لوگ اسے ''عثمان مروندی''کردیتے ہیں جو غلط ہے۔غزل کا مطلع یوں ہے
نہ مے دانم کہ آخرچوں دم دیدارمی رقصم
مگرنازم بہ ایں ذوقے کہ پیش یارمی رقصم
یعنی میں نہیں جانتا کہ آخر میں دیدار کے وقت ناچتاکیوں ہوں لیکن اس بات کی خوشی ہے کہ کہیں اور نہیں بلکہ یار کے سامنے ناچتاہوں۔لیکن ہمارے ہاں اکثر ترجمے کی غلطیاں ہوجاتی ہیں چنانچہ ''می رقصم''کا ترجمہ بھی ڈانس یا ناچ بلکہ اب تو پاپ اور مائیکل جیکسن ٹائپ خرافات بھی کرلیاجاتاہے یا مغرب کے بریک ڈانس کو بھی اردو میں می رقصم میں ترجمہ کیا جاتاہے اور یہ ترجمہ صرف الفاظ کا نہیں ڈانس کا یا بقول جوش صاحب ''اعضا''کا ترجمہ بھی ہوتاہے چنانچہ غزل آزاد نظم بنادی جاتی ہے اور ملبوس کے فالتو پردے اتار کر اعضا کا صاف اور کھلا ترجمہ بھی پیش کیاجاتاہے۔حضرت عثمان ہارونی کی یہ غزل انتہائی کمال کی غزل اور تغزل وتصوف سے بھرپور ایک شاہکارہے دوسرا شعر ہے
توہردم می سرائی نغمہ وہربارمی رقصم
بہرطرزے کہ می رقصائی من اے یارمی رقصم
یعنی تم جب بھی نغمہ چھیڑتے ہو تو ہربار میں رقص کرتاہوں اور جس طرز پربھی تم مجھے نچاو ناچونگا۔ اور شاید اس ''بہرطرزے''سے یار لوگوں نے ''ہرقسم کا ڈانس''نکالا ہوا ہے
بیا جانان تماشا کن کہ درانبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم
اس میں بھی کافی گنجائش نکالی جاسکتی ہے بصد ''سامان رسوائی''میں رسوائی کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اگر کوئی نکالنا چاہے تو؟اور می رقصم والے نکال لیتے ہیں آخر ہزار روپے ٹکٹ لینے والے ''صوفوں کے صوفی'' رسوائی ہی کے تو رسیاہوتے ہیں۔ تیسرا شعرہے
خوشارندی کہ پامالش کنم صدیارسائی
زہے تقویٰ کہ من باجبہ ودستارمی رقصم
اب باجبہ ودستاربھی کوئی ڈانس ہوتاہے اس لیے جبہ ودستار کے ساتھ باقی لباس بھی اترکر الگ رکھ دیا جاتا وغیرہ خراب نہ ہو۔اور اس شعر میں کمال کی تشبہہ استعمال کی گئی ہے
اگرچہ قطرہ شبنم نہ پوئد برسرخارے
من آں قطرہ شبنم بہ نوک خارمی رقصم
یعنی کانٹے پرشبنم کا قطرہ نہیں ٹکتا لیکن میں وہ قطرہ شبنم ہوں جو گرتے گرتے بھی کانٹے کی نوک پر ناچتاہے
تو آں قاتل کہ بہریک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیزخنجرخونخوارمی رقصم
یہ شعر عام سا روایتی عشق ومحبت پرمبنی ہے لیکن تصوف اور وحدت الوجود پرکمال کا شعریہ ہے
سراپا برسرپائے خودم از بے خودی قربان
زیرگرد مرکز خودصورت پرکار می رقصم
یعنی بے خودی میرا سراپا خودی میں اپنے ہی سراپے پر قربان ہوجاتاہے اور میں ''پرکار''کی طرح اپنے مرکز کے گرد ناچتاہوں۔اب تھوڑی سی اس رقص کی بات کرتے ہیں جو تصوف کا مخصوص رقص ہوتاہے اور قونیہ کے درویش پیش کرتے ہیں اگرآپ نے کہیں رومی ٹوپی والے سفیددرویشوں کا ناچ دیکھا ہو تو اس میں رقص کا بنیادی اور مرکزی نکتہ یہ ہوتاہے کہ وہ درویش ایک خاص انداز میں جھکے ہوئے ایک ہاتھ زمین کی طرف دراز کیے ہوئے ہوتے اور اس کے متوازی دوسرا ہاتھ سیدھا آسمان کی طرف اٹھا ہوتاہے جو آسمان اور زمین کے استعارے میں انسان اور روح اعلیٰ کے درمیان رابطے اور تعلق کی نشاندہی کرتاہے۔ وحدت الوجود کا اس سے بہترخاموش اظہار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔