کیا مرد صرف ہراساں کرتے ہیں یا ہوتے بھی ہیں
مرد بہادری اور شجاعت کی مثال ہے، اس لیے اگر وہ ہراسانی کی بات کرے تو معاشرہ اسے مزاح کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے
ISLAMABAD:
''محترمہ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔'' بھیجنے والے نے اس پیغام کو اتنی بار دہرایا تھا کہ لگا واقعی کسی مشکل میں ہوں گے۔ کہانی طویل اور صبرآزما تھی۔ شہر اقتدار کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالبعلم کا کہنا تھا کہ انہیں پچھلے تقریباً دس ماہ سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ہراساں کرنے والی ان ہی کی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔
مختصر یہ کہ طالبہ نے طالبعلم کے خلاف ہراسگی کی درخواست دی جو کہ وہ طالبعلم خود بھی طالبہ کے خلاف دے چکے تھے۔ مگر یونیورسٹی نے بغیر انہیں سنے یونیورسٹی آنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک وہ یونیورسٹی اٹینڈ نہیں کرسکتے۔ طالبعلم تمام ثبوتوں کے ساتھ راولپنڈی کی عدالت میں طالبہ کے خلاف ہراسگی، موبائل ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے اور انہیں دھمکانے کی درخواست بھی جمع کروا چکے۔ جس پر پہلی تین پیشیوں میں نہ تو یونیورسٹی کی طرف سے کوئی پیش ہوا اور نہ ہی طالبہ اور ان کی فیملی کی جانب سے۔
انجینئرنگ کے متاثرہ طالبعلم کا کہنا ہے کہ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور اب خودکشی ہی واحد حل نظر آتا ہے۔
لاہور شہر کے لیکچرار افضل کی خودکشی نے بھی شاید ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کیا کہ جنسی ہراسگی یا ہراسگی کا سامنا مرد کرے یا خاتون، دونوں ہی کےلیے اتنا ہی تکلیف دہ عمل ہے۔
ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسگی کے واقعات مرد کے ساتھ پیش آئیں یا خواتین کے ساتھ، اس گھناؤنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جملے بازی کرکے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی، اس سب کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
خواتین کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کی اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 2010 میں پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔ قانون کے تحت باقاعدہ سزاؤں کا اعلان ہوا کہ اگر کوئی بھی شخص کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ہراساں کرے گا تو آئینِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں۔ بعد میں 2012 میں ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات اور پبلک مقامات پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی اس ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی حالیہ ریسرچ میں ایک غیر متوقع بات سامنے آئی کہ عرب دنیا میں خواتین کی نسبت مردوں کی طرف سے ہراسگی کی شکایات زیادہ سامنے آئی ہیں۔ انھیں زبانی اور جسمانی طور پر جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تیونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں تیونس میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق صرف ایک فیصد تھا، یعنی مردوں میں ایک فیصد زیادہ۔ عراق میں یہ فرق زیادہ نظر آیا، جہاں مردوں میں سے 39 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں لوگوں سے زبان سے جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ خواتین کا تناسب 33 فیصد تھا۔ اس کے علاوہ 20 فیصد عراقی مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ خواتین میں یہ شکایت 17 فیصد نے کی۔
اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں بھی خواتین کی نسبت مردوں نے اپنے تجربات کا اظہار زیادہ کیا۔ عراق میں خواتین کے حقوق کی صورتحال جس قدر خراب ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو یہ نتائج حیران کن ہیں۔
پاکستان میں جب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سے اس ضمن میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مردوں کی جانب سے ہراسگی کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ جبکہ کشمالہ طارق، جو وفاقی محتسب میں خواتین کے حقوق کی نمائندہ اور ہراسگی ایکٹ 2010 پر سختی سے عمل کرنے پر یقین رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مردوں کی جانب سے چند شکایات موصول ہوئی ہیں، مگر ابھی ان کو نمٹایا نہیں گیا۔
سوال یہ ہے کہ پچھلے کچھ سال میں جنسی درندگی نے جس تیزی سے بچے اور بچیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، تو قانون اب تک اس چستی سے حرکت میں نہیں آیا۔ مگر اب اسمبلی میں سرعام پھانسی کے بل کے منظور ہونے سے کچھ ڈھارس بندھی۔
ہمارے معاشرے میں عام رویہ ہے کہ مرد بہادری اور شجاعت کی ایک مثال ہے۔ اس لیے اگر وہ ہراسگی کی بات کرے تو معاشرہ اسے مزاح کی نظر سے دیکھنے لگے گا، جبکہ یہ رویہ انسان کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔
یہاں نہ صرف قانون بلکہ رویے بدلنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کیریئر صرف مذکورہ طالبہ کا ہی نہیں بلکہ متاثرہ طالب علم کا بھی بہت اہم ہے۔ مگر صرف تعلقات کی بنا پر کمزور کو دبا دینا اور موت تک لے جانا انسانیت کی تذلیل ہے۔
خواتین کے حق میں نعرے بلند کرنے والے اور جنسی ہراسگی کو خواتین کے تحفظ کےلیے استعمال کرنے والوں کےلیے یہ موضوع ناپسندیدہ ہے۔ ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف انہی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئے تو وہ قابل برداشت نہیں ہوتی۔ شاید اسی لیے خواتین پر ہونے والے تشدد پر ہر کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر قسم کے تشدد کو باآسانی مردوں کی طرف منتقل کردینے پر کوئی غور نہیں کرتا۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر ایک مرد سڑک پر کسی کو چھیڑ رہا ہے تو پورا بازار اس عورت کی حمایت میں میدان میں آجاتا ہے۔ کسی دفتر میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں کا پورا اسٹاف بھی حقوق نسواں کی پاسداری کے لیے یک زبان ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ سب رویے بھی محترم ہیں مگر مرد کو بہت بہادر، مضبوط اور چٹان والی تشبہات سے ذرا دیر الگ کرکے ایک عام انسان کی نظر سے دیکھنا بھی اہم ہے اور زندگی کے کسی ایک برے تجربے کی بنیاد پر سب کو اسی جیسا سمجھ لینا بھی غلط ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''محترمہ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔'' بھیجنے والے نے اس پیغام کو اتنی بار دہرایا تھا کہ لگا واقعی کسی مشکل میں ہوں گے۔ کہانی طویل اور صبرآزما تھی۔ شہر اقتدار کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالبعلم کا کہنا تھا کہ انہیں پچھلے تقریباً دس ماہ سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ہراساں کرنے والی ان ہی کی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔
مختصر یہ کہ طالبہ نے طالبعلم کے خلاف ہراسگی کی درخواست دی جو کہ وہ طالبعلم خود بھی طالبہ کے خلاف دے چکے تھے۔ مگر یونیورسٹی نے بغیر انہیں سنے یونیورسٹی آنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک وہ یونیورسٹی اٹینڈ نہیں کرسکتے۔ طالبعلم تمام ثبوتوں کے ساتھ راولپنڈی کی عدالت میں طالبہ کے خلاف ہراسگی، موبائل ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے اور انہیں دھمکانے کی درخواست بھی جمع کروا چکے۔ جس پر پہلی تین پیشیوں میں نہ تو یونیورسٹی کی طرف سے کوئی پیش ہوا اور نہ ہی طالبہ اور ان کی فیملی کی جانب سے۔
انجینئرنگ کے متاثرہ طالبعلم کا کہنا ہے کہ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں اور اب خودکشی ہی واحد حل نظر آتا ہے۔
لاہور شہر کے لیکچرار افضل کی خودکشی نے بھی شاید ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کیا کہ جنسی ہراسگی یا ہراسگی کا سامنا مرد کرے یا خاتون، دونوں ہی کےلیے اتنا ہی تکلیف دہ عمل ہے۔
ہمارے معاشرے میں جنسی ہراسگی کے واقعات مرد کے ساتھ پیش آئیں یا خواتین کے ساتھ، اس گھناؤنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، جملے بازی کرکے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی، اس سب کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
خواتین کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کی اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ سال 2010 میں پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔ قانون کے تحت باقاعدہ سزاؤں کا اعلان ہوا کہ اگر کوئی بھی شخص کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ہراساں کرے گا تو آئینِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں۔ بعد میں 2012 میں ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات اور پبلک مقامات پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی اس ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی حالیہ ریسرچ میں ایک غیر متوقع بات سامنے آئی کہ عرب دنیا میں خواتین کی نسبت مردوں کی طرف سے ہراسگی کی شکایات زیادہ سامنے آئی ہیں۔ انھیں زبانی اور جسمانی طور پر جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے دس عرب ممالک اور فلسطینی علاقوں میں ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے دو ممالک، تیونس اور عراق، ایسے ملک ہیں جہاں زبانی اور جسمانی جنسی تشدد کی شکایات خواتین کی نسبت مرد زیادہ کرتے ہیں تیونس میں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق صرف ایک فیصد تھا، یعنی مردوں میں ایک فیصد زیادہ۔ عراق میں یہ فرق زیادہ نظر آیا، جہاں مردوں میں سے 39 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں لوگوں سے زبان سے جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ خواتین کا تناسب 33 فیصد تھا۔ اس کے علاوہ 20 فیصد عراقی مردوں کا کہنا تھا کہ انھیں جسمانی طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جبکہ خواتین میں یہ شکایت 17 فیصد نے کی۔
اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں بھی خواتین کی نسبت مردوں نے اپنے تجربات کا اظہار زیادہ کیا۔ عراق میں خواتین کے حقوق کی صورتحال جس قدر خراب ہے، اسے سامنے رکھا جائے تو یہ نتائج حیران کن ہیں۔
پاکستان میں جب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سے اس ضمن میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مردوں کی جانب سے ہراسگی کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ جبکہ کشمالہ طارق، جو وفاقی محتسب میں خواتین کے حقوق کی نمائندہ اور ہراسگی ایکٹ 2010 پر سختی سے عمل کرنے پر یقین رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس مردوں کی جانب سے چند شکایات موصول ہوئی ہیں، مگر ابھی ان کو نمٹایا نہیں گیا۔
سوال یہ ہے کہ پچھلے کچھ سال میں جنسی درندگی نے جس تیزی سے بچے اور بچیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، تو قانون اب تک اس چستی سے حرکت میں نہیں آیا۔ مگر اب اسمبلی میں سرعام پھانسی کے بل کے منظور ہونے سے کچھ ڈھارس بندھی۔
ہمارے معاشرے میں عام رویہ ہے کہ مرد بہادری اور شجاعت کی ایک مثال ہے۔ اس لیے اگر وہ ہراسگی کی بات کرے تو معاشرہ اسے مزاح کی نظر سے دیکھنے لگے گا، جبکہ یہ رویہ انسان کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتا ہے۔
یہاں نہ صرف قانون بلکہ رویے بدلنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کیریئر صرف مذکورہ طالبہ کا ہی نہیں بلکہ متاثرہ طالب علم کا بھی بہت اہم ہے۔ مگر صرف تعلقات کی بنا پر کمزور کو دبا دینا اور موت تک لے جانا انسانیت کی تذلیل ہے۔
خواتین کے حق میں نعرے بلند کرنے والے اور جنسی ہراسگی کو خواتین کے تحفظ کےلیے استعمال کرنے والوں کےلیے یہ موضوع ناپسندیدہ ہے۔ ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ ہم صرف اور صرف انہی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں جو ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئے تو وہ قابل برداشت نہیں ہوتی۔ شاید اسی لیے خواتین پر ہونے والے تشدد پر ہر کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر قسم کے تشدد کو باآسانی مردوں کی طرف منتقل کردینے پر کوئی غور نہیں کرتا۔
عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر ایک مرد سڑک پر کسی کو چھیڑ رہا ہے تو پورا بازار اس عورت کی حمایت میں میدان میں آجاتا ہے۔ کسی دفتر میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں کا پورا اسٹاف بھی حقوق نسواں کی پاسداری کے لیے یک زبان ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ سب رویے بھی محترم ہیں مگر مرد کو بہت بہادر، مضبوط اور چٹان والی تشبہات سے ذرا دیر الگ کرکے ایک عام انسان کی نظر سے دیکھنا بھی اہم ہے اور زندگی کے کسی ایک برے تجربے کی بنیاد پر سب کو اسی جیسا سمجھ لینا بھی غلط ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔