خود نوشت ’’بقلم خود‘‘ قومی دستاویز
یہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی مکمل سیاسی تاریخ ہے۔
''بقلم خود'' بزرگ سیاستدان، دانشور، معلم، صحافی، ادیب اور مصنف آزاد بن حیدرکی صرف گزری ہوئی زندگی کی کہانی نہیں ہے یہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی مکمل سیاسی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں جو کچھ بھی سیاسی سماجی مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں رونما ہوئیں یا محلاتی اور غیر محلاتی سازشیں وقوع پذیر ہوئیں آپ نے اس خودنوشت میں انھیں بڑی تفصیل اور تحقیق سے تحریر کیا اور آپ ان تمام واقعات کے چشم دید شاہد ہیں۔ آپ کی خودنوشت کے معتبر ہونے کی دور حاضر کے کئی معتبر دانشوروں، تاریخ دانوں اور مصنفین نے گواہی دی ہے۔
خواجہ رضی حیدر نے بقلم خود پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ''آپ ہمارے لیے اس لیے معتبر ہیں کہ آپ استحکام پاکستان کے لیے خلوص دل سے جدوجہد کرنیوالے پاکستان دوست اور قائد اعظم کے عاشق صادق ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے لکھا ''جس شخص نے بچپن ہی سے بامقصد زندگی کو اپنے ایمان کا حصہ بنایا ہو اور وقت کے زیاں سے اجتناب کیا ہو صرف وہی شخص اتنے اہم اور بڑے کام کرسکتا ہے ۔''
آپ اٹھاسی برس کی عمر میں بھی متحرک اور فعال ہیں اور یادداشت کا یہ عالم ہے کہ تحریک پاکستان سے آج کے دور تک کی تاریخ کی چلتی پھرتی اور بولتی کتاب ہیں۔ آپ 2 جنوری 1932 کو پنجاب کے مردم خیز شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے اسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ جب 1944 میں قائد اعظم سیالکوٹ کے دورے پر آئے تو آپ نے اسکول کے دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر ہاتھ میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے پرچم لہرا کر ان کا استقبال کیا اور پاکستان اور قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگائے۔
یہ پہلا موقع تھا جب آپ نے قائد اعظم کی ایک جھلک دیکھی اور تب سے ہی ان پر اور ان کی تحریک پر مر مٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ بچہ مسلم لیگ میں فعال کردار ادا کرنے لگے۔ پھر وہ وقت آیا جب قائد اعظم پاکستان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آپ اور آپ کے دوستوں کو حکم دیا گیا کہ کراچی جا کر وہاں مہاجر کیمپ میں آنیوالے مہاجروں کی خدمت کی جائے۔
کراچی میں 17 اگست 1947 کو عید کے دن جب قائد اعظم عید گاہ میں نماز پڑھنے آئے تو آپ بھی آخری صف میں موجود تھے۔ آپ نے کراچی میں اپنی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی ساتھ ہی سیاست میں عملی حصہ لینا شروع کیا۔ ابتدا میں ہی آپ کا تعلق مولانا عبدالحامد بدایونی جیسے جید عالم دین اور سیاسی بصیرت کے حامل بزرگ سے جڑ گیا جس سے آپ کو دینی اور سیاسی شعور کا خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ آپ پاکستان میں رونما ہونیوالے کئی اہم تاریخی قومی واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ جب آپ وکالت کر رہے تھے تو آپ کا دفتر بندر روڈ پر بہادر شاہ ظفر مارکیٹ میں قائم تھا وہیں شیخ مجیب الرحمن کا دفتر بھی تھا اس سے آپ کی سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی وہ عوامی لیگ کا لیڈر تھا اور آپ کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔
فروری 1966 میں اعلان تاشقند کے بعد لاہور میں سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی کوٹھی میں نیشنل کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ملک کے تمام سرکردہ سیاسی رہنما شریک تھے۔ اس کانفرنس میں جہاں تاشقند معاہدے کی سخت مذمت کی گئی وہیں اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات پیش کیے تھے۔ آپ نے ان نکات کی مخالفت کی تو مجیب الرحمن نے ایک فائل دکھائی جس میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے فوجی سربراہان اور افسران کی تعداد درج تھی۔ اس کے مطابق مشرقی پاکستان کے لوگوں کی کل تعداد 15 تا20 فیصد تھی۔
مجیب الرحمن نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا کہ آزاد بھائی! آپ ہی دیکھیے کہ مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے زیادہ آبادی ہے مگر ہمارا حصہ کم ہے۔ بس اس دن سے مجیب الرحمن نے مشرقی بازو کو مغربی بازو سے علیحدہ کرنے کی تحریک شروع کردی تھی اور بالآخر 16 دسمبر 1971 کو وہ اس میں کامیاب ہو گیا اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ آزاد بن حیدر نے انکشاف کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پر ''ادھر تم اِدھر ہم'' کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ صریحاً غلط ہے۔ انھوں نے 16 مارچ 1971 کو کراچی کے جہانگیر پارک کے ایک عظیم الشان جلسے میں کہا تھا کہ ملک کے دونوں بازوؤں میں اکثریتی پارٹیوں کو اقتدار منتقل کردیا جائے۔
انھوں نے متحدہ پاکستان کی پرزور حمایت کی اور کہا کہ چھ نکات کے مطالبے کے پس منظر میں ملک کے دونوں حصوں کی اکثریتی پارٹیوں کو ایک سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ اگلے دن بھٹو کی تقریر کم و بیش انھی الفاظ کے ساتھ تمام اخباروں میں شایع ہوئی مگر لاہور کے ایک روزنامے ''آزاد'' جو سنسنی خیز سرخیاں چھاپنے کا شوقین تھا نے اپنے اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں لگائی ''اُدھر تم اِدھر ہم''۔
اخبار کی اس سرخی کے بھٹو کے علم میں آنے کے بعد انھوں نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا۔ اخبار آزاد نے اس بیان کو بھی پہلے صفحے پر شایع کیا اور اس مرتبہ اس نے ''نہ میں نہ تم ہم دونوں'' کی سرخی لگائی۔ چنانچہ اس اخبار کی وجہ سے بھٹو کی وضاحت بھی کام نہ آسکی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لا چیف ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا تو آپ نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اسے عدالت میں بھی چیلنج کیا۔ آپ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوئے تھے اس وقت تک وہ بھارتی شہری تھے اور بمبئی میں موجود اپنی موروثی جائیداد کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں کیس لڑ رہے تھے۔
ان کے ہی مطابق جوناگڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے میں شاہ نواز بھٹو نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے اس سلسلے میں ثبوت کے طور پر ایک خط کا عکس شایع کیا ہے جو شاہ نواز بھٹو نے مسٹر بچ کو لکھا تھا۔ آپ نے 1964 میں محترمہ فاطمہ جناح کے ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا ذکر بھی کیا ہے آپ بحیثیت مسلم لیگی لیڈر فاطمہ جناح کے ساتھ ہر جلسے میں شریک تھے۔ فاطمہ جناح پوری حزب اختلاف کی جانب سے امیدوار تھیں۔ ایوب خان انھیں الیکشن لڑنے سے روکنا چاہتا تھا چنانچہ کاغذات نامزدگی کا الیکشن کمشنر تک پہنچانا ایک بڑا مسئلہ تھا مصلحتاً کاغذات نامزدگی کی تین فائلیں بنائی گئیں۔
پہلی فائل حسن اے شیخ، دوسری شیخ مجیب الرحمن اور تیسری آپ کو دی گئی۔ تینوں علیحدہ پروازوں سے اسلام آباد پہنچے تھے اس لیے کہ ڈر تھا کہ کہیں انھیں اغوا نہ کرلیا جائے مگر تینوں خیریت سے الیکشن کمیشن تک پہنچ گئے تھے اور پھر حسن اے شیخ نے کاغذات نامزدگی الیکشن کمشنر کے دفتر میں جمع کرا دیے تھے۔ آپ کی خود نوشت میں قائد اعظم کی ایک تحریر کا عکس پیش کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔
آپ کیمطابق قیام پاکستان کے بعد انتقال اقتدار کے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اکبر بادشاہ جیسا سلوک کیا جائے گا تو قائد اعظم فوراً اپنی نشست سے اٹھے اور مائیک پر جاکر فرمایا کہ مسٹر بیٹن! ہمیں اکبر بادشاہ کی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہم اپنے رسول پاکؐ کے نقش قدم پر چلیں گے کہ ان سے زیادہ بہتر سلوک اقلیتوں سے دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ خودنوشت ''بقلم خود'' قومی معاملات پر مبنی ایک اہم کتاب ہے جسے قومی دستاویزکا درجہ دیا جانا ضروری ہے۔