خیرپور میرس اسٹیٹ کے میر علی نواز ٹالپر
والی میر علی نواز ٹالپر کی کہانی بھی مشہور اور دلچسپ رہی ہے جس پر ایک سندھی ڈرامہ بھی بنایا گیا تھا۔
یوں تو پوری دنیا کے اندر کئی بادشاہوں اور رانیوں کے عشق کی داستانیں مشہور ہیں جس میں انھوں نے اپنے تخت چھوڑ دیے۔ اس سلسلے میں سندھ میں خیرپور میرس اسٹیٹ کے والی میر علی نواز ٹالپر کی کہانی بھی مشہور اور دلچسپ رہی ہے جس پر ایک سندھی ڈرامہ بھی بنایا گیا تھا اور اس پر کئی مضمون لکھے گئے ہیں اور تحقیق کرکے کتاب بھی لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بہرحال محبت اور عشق کسی سے بھی کب ہوجائے یہ اختیار انسان کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔
میر علی نواز جو شاعر بھی تھے اور ان کا تخلص ناز تھا جن کی پیدائش 9 اگست 1884 میں شہر کوٹ ڈجی میں ہوئی تھی جس پر ان کے والد جو اس وقت خیرپور میرس اسٹیٹ کے بادشاہ تھے نے اپنے بیٹے کی پیدائش پر بڑا جشن کروایا اور غریبوں میں کھانا، کپڑے اور بہت ساری قیمتی چیزیں بانٹی گئیں۔
علی نواز کے والد میر امام بخش ٹالپر نے اپنے بیٹے کی پرورش بڑے پیار اور لاڈ کے ساتھ کی تھی۔ میر علی نواز کو موسیقی، ادب اور غریبوں سے بڑا پیار تھا، اپنی ابتدائی تعلیم کوٹ ڈجی سے حاصل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے چیفس کالج لاہور گئے، اس کے بعد پرنس کالج دہلی پڑھنے کے لیے گئے تھے۔
ان کے والد میر امام بخش ٹالپر کا جب 8 فروری 1921 میں انتقال ہوا تو میر علی نواز کو 13 فروری کو تخت پر بٹھایا گیا۔ ان کے والد کے مرنے سے پہلے میر علی نواز کو انھوں نے ناراض ہوکر نکال دیا تھا اور وہ دہلی میں رہتے تھے اور وہ دن علی نواز کے لیے بڑے تکلیف والے تھے کیونکہ شاہی خاندان میں پرورش اور پھر لاڈ پیار کی وجہ سے وہ تکالیف کے عادی نہیں تھے۔ اس زندگی کی وجہ سے انھیں غربت اور غریبوں کا پتا چلا اور وہ زیادہ نرم دل ہوگئے تھے۔ جب انھیں اسٹیٹ کا والی بنایا گیا تو انھوں نے غریبوں کا بڑا خیال رکھا اور ایک سخی انسان بن گئے۔ ان کے پاس جو بھی کوئی عرض لے کر آتا تو وہ ان کے در سے خالی اور مایوس نہیں لوٹتا اور اس سخاوت سے کئی افراد نے ناجائز فائدے بھی اٹھائے۔
جب وہ اسٹیٹ کو سنبھالنے کے لیے آئے تو اس موقع پر ایک بڑے جشن کا اہتمام کیا گیا اور انھوں نے خوشی کے موقع پر لوگوں سے جو کھانے کے عوض محنت کا کام لیا جاتا تھا جو اجتماعی ہوتا تھا اس عمل کو ختم کروانے کا اعلان کیا اور ٹیکس میں رعایت کی گئی۔ زرعی ترقی کے لیے مزید آبپاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے چھوٹے موٹے پانی کی برانچیں کھدوائیں، لوگوں کی سہولت کے لیے ہر جگہ کنوئیں اور ہینڈ پمپ لگوائے جس سے خیرپور شہر اور نواہی علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی آسانی سے ملنے لگا، کئی پرائمری اسکول قائم کیے گئے تاکہ گاؤں کی سطح تک تعلیم کا فروغ ہو اور انگریزی کی تعلیم دینے کے لیے بھی سیکنڈری لیول کے اسکول کھلتے گئے جس میں ایک اسکول اب بھی ناز ہائی اسکول خیرپور میرس شہر میں چل رہا ہے جس میں معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔
ان کے اقتدار کے شروع والے دنوں میں بہت ترقی ہوئی اور اسٹیٹ میں خوشحالی آگئی مگر جب سے ان کا عشق ایک لاہور کی گانے والی اقبال بالی سے ہوا تو میر کی ساری توجہ اسٹیٹ کے کاموں سے ہٹ کر بالی کے عشق کی طرف مڑ گیا جس سے سرکاری خزانے لٹتے چلے گئے کیونکہ بالی کو حاصل کرنے کے لیے وہ بالی اور اس کے بھائیوں اور رشتے داروں کو راضی رکھنے کے لیے دولت لٹاتے رہے جس کی وجہ سے خزانہ خالی ہو رہا تھا اور ترقیاتی کام پیچھے رہتے گئے اس وجہ سے برطانیہ حکومت نے اسٹیٹ کو چلانے کے لیے ایک کونسل بنائی تاکہ اسٹیٹ کا کام صحیح طریقے سے چلتا رہے جس کی وجہ سے میر علی نواز کو خرچہ کرنے میں کافی دشواری پیش آئی کیونکہ کونسل نے ایک رقم مقرر کی تھی جس سے زائد وہ خرچ کرنے کے لیے کونسل سے رجوع کرنا پڑتا تھا جو کافی دشوار تھا۔
اس کونسل کے تین رکن تھے جن میں ایک امداد علی قاضی اور دو برطانیہ حکومت کے سرکار کے افسر تھے۔ اس کونسل نے بھی کوئی خاص پرفارمنس نہیں دکھائی اور وزیر مقرر کیا گیا جو بھی کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ ان ساری چیزوں کے بعد بھی اسٹیٹ کا آئینی سربراہ میر ہی تھا بہرحال وزرا تبدیل ہوتے رہے لیکن صورتحال میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آسکی۔
کہتے ہیں کہ بالی سے میر کا عشق اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ لاہور میں پڑھتے تھے اور ایک دن اپنے دوستوں کے ساتھ بالی کا گانا سننے گئے اور اس کی زلفوں کے اسیر بن گئے۔ آخر کار میر نے بالی کا رشتہ مانگ لیا جس کے لیے اس کے بھائی بگو راضی نہیں ہو رہے تھے اور دوسرے رشتے دار بھی پیسہ بٹورنے کے لیے بڑی بڑی شرطیں لگانے لگے۔ بالی نے بھی انکار کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ تنہا رہنا چاہتی ہیں کیونکہ اس کی شادی کسی سے ہوئی تھی جس سے اس نے طلاق لے لی تھی۔ جب میر نے بہت ساری دولت، زیورات اور اسٹیٹ کے اقتدار کا لالچ دیا تو وہ شادی کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔ بالی اور میر کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کیا گیا اور 1920 میں ان کی شادی ہوگئی۔
اس سلسلے میں پوری ٹرین خیرپور میرس سے لاہور تک بک کروائی گئی جس کے ذریعے بارات لاہور پہنچی جس میں شہر کے امرا اور عام آدمی بھی شامل تھے۔ پورا سفر گانے اور موسیقی بجتی رہی اور یہ شادی سندھ کی تاریخ میں اہم ہے۔ جب شادی سے واپسی ہوئی تو پورے ہندوستان سے مہمانوں کا ہجوم خیرپور شہر میں امنڈ آیا تھا جب کہ لاہور سے بھی بالی کے بہت سارے مہمان آئے تھے اور پورا شہر کئی دنوں تک روشنیوں، گہما گہمی، موسیقی اور گانے والوں کی آوازوں سے گونجتا رہا، شہر کے لوگوں نے کئی دن کھانا نہیں پکایا اور میر کی طرف سے لوگوں میں کھانا تقسیم ہوتا تھا۔
اس موقع پر ناز ہائی اسکول کے کمرے، ہاسٹل اور کئی اوطاقیں خالی کروا کر مہمان ٹھہرائے گئے تھے۔ ہندوستان اور لاہور کی بڑی بڑی گانے والی اور مجرا کرنے والی عورتیں، شعرا آئے ہوئے تھے اور شہر کے میدان بھی لوگوں اور مہمانوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہر جگہ پر خاص طور پر خیرپور ریلوے اسٹیشن سے لے کر محل تک ہر طرف خیمے اور جھونپڑیاں بنائی گئی تھیں اور ان کے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا کیونکہ وہ دن گرمیوں کے تھے تاکہ رہنے والوں کو ٹھنڈک ملے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ فقیروں، مسکینوں اور ناداروں کا بھی خیال رکھتے آئے تھے جس میں بیواؤں، یتیموں کے لیے کئی خیراتی کام کرتے تھے۔ جوانی کے دور میں وہ دبلے پتلے اور بہت حسین تھے مگر ڈھلتی عمر کے ساتھ ان کے جسم کی ساخت کچھ موٹی ہوگئی تھی۔ لیکن اس کی سخاوت اور ہمدردی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اقبال عرف بالی کو میر نے فرش دے اٹھا کر عرش تک پہنچایا مگر پھر بھی انھیں میر سے محبت نہ ہوسکی شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بالی کے رشتے داروں نے بالی کے دل میں میر کے لیے بہت ساری ایسی باتیں ذہن میں ڈال دی تھیں جن کی وجہ سے میر کی محبت اور نوازشیں بھی اسے متاثر نہیں کرسکیں۔ میر کی وفات کے بعد بالی کے دل میں میر کے لیے محبت پیدا ہوئی جس کی وجہ سے بالی نے پوری زندگی ایک جگہ گزار دی اور ساری دنیاداری، دھن دولت سے دور رہے۔ شادی کے وقت میر کی عمر بالی کی عمر سے دگنی تھی۔