بڑھتا ہوا کرونا وائرس
جان لیوا وائرس سے نمٹنے کے لیے جس باہمی اتحاد و کوششوں کی ضرورت ہے، اُس کے لیے دنیا تیار نظر نہیں آتی۔
چین کے شہر 'ووہان' سے شروع ہونیوالے وائرس ''کرونا'' نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 650 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 35ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں جب کہ یہ وائرس اب چین کی حدود سے نکل کر دنیا کے 38مختلف ممالک میں پھیل چکا ہے ۔ اس وقت امریکا ، دبئی اور بھارت تک یہ وائرس پہنچ چکا ہے ۔
اب تک دنیا کے مختلف ممالک میں کرونا متاثرین کے تصدیق کیسز کی صورتحال کچھ یوں ہے : چین 28018، تائیوان 13، تھائی لینڈ 25، ویتنام 10، ملائیشیا 14، کمبوڈیا 1، جاپان 45، سنگاپور 28، جنوبی کوریا 23، فلپائن 2، یو اے ای 5، سری لنکا 1، بھارت 3، نیپال 1، امریکا 12، کینیڈا 4، آسٹریلیا 14، برطانیہ 2، فن لینڈ 1، اٹلی 2، فرانس 6، جرمنی 12، روس 2، سوئیڈن 1، اسپین 1 اور بیلجیم میں 1کیس کی تصدیق ہوئی ہے ۔جس کے باعث یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں یہ وائرس ایسی عالمی وبا نہ بن جائے ، جس سے بنی نوع ِ انسان کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہوجائے ۔
اس بات کا خدشہ اس لیے بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس جان لیوا وائرس سے نمٹنے کے لیے جس باہمی اتحاد و کوششوں کی ضرورت ہے، اُس کے لیے دنیا تیار نظر نہیں آتی۔ اس وقت جب کرونا وائرس کے لیے اینٹی ٹوکسن (Antitoxin)کی تیاری میں چین کو دنیا کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ ایسے میں مختلف ممالک چین سے منہ پھیر رہے ہیں۔ اپنے شہریوں کو چین سے واپس بلارہے ہیں ، یہاں تک کہ چین سے مواصلاتی ، کاروباری ، سیاسی و سماجی روابط ختم کرتے جارہے ہیں ۔ ان کا یہ قدم نہ صرف چین کے عوام کو اس مصیبت میں تنہا چھوڑنے کا عندیہ ہے بلکہ یہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے اعداد و شمار سے چشم پوشی کا باعث بھی ہوگا ۔ جس کا خدشہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی ظاہر کیا ہے ۔
اُن کیمطابق چین پر اس وقت نفسیاتی دباؤ ہے۔ اس سے ایک تو چینی حکام مریضوں کی تعداد چھپائیں گے اور اس سے لاکھوں افراد بغیر علاج کے مرجائیں گے اوراگر چین پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں تو لوگ غیرقانونی طریقوں سے چین چھوڑ کر بھاگیں گے اور ایسے میں اُن کا نہ کوئی ریکارڈ ہوگا اور نہ ہی اُن کے ٹیسٹ ہوسکیں گے ۔ یوں وہ لوگ اپنے اپنے ملک میں خاموشی سے وائرس منتقل کردیں گے اور یہ دنیا بھر میں مزید اموات کا باعث ہوگا۔ اس مد میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے اعلانیہ چین پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔
30جنوری کو وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونیوالے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہمیں چین پر اعتماد ہے اور ہم اپنے شہریوں کو چین سے واپس نہیں بلائیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ چین اس وبا پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور بہت جلد وہ اس پر قابو پالے گا۔
حکومت ِ پاکستان کی اس بات سے ہم بھی متفق ہیں کیونکہ چین کی حکومت کی جانب سے جو ملک صرف 4 دن کی مدت میں 1000بیڈ کا جدید ترین اسپتال قائم کرسکتا ہے اور نہ صرف 'ووہان' بلکہ دیگر شہروں میں بھی اس وائرس کی تشخیص ، علاج اور ملک کی ڈیڑھ ارب آبادی کے لیے اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کا بندوبست کرسکتا ہے ، اُس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس وباسے بہتر طور پر نبرد آزما ہوسکتا ہے ۔ویسے بھی ہمارے ملک سمیت دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن میں نہ تو اس وائرس کی تشخیص کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ اور علاج کی سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے پیمانے پر احتیاطی اقدامات کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔
ہم تو اب تک گیسٹرو اور ملیریا جیسی عام بیماریوں پر بھی قابو نہیں پاسکے اور ہیپا ٹائٹس و HIVجیسے قابل تشخیص و روک تھام والے وائرس نے ہی ہمارے یہاں تباہی مچا رکھی ہے ، ایسے میں یہ نامعلوم اور قابو میں نہ آنیوالے وائرس تو ہماری 22کروڑ آبادی کے لیے ایک بھیانک اور جان لیوا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی بھی وبائی بیماری کی مانیٹرنگ و تشخیص اور علاج کی سہولیات میسر نہیں ۔ جس کی مثال پیر جو گوٹھ ضلع خیرپور میرس میں چین سے نجی طور پر واپس آنیوالے نوجوان 'شاہزیب راہو جو 'کی ہے ، جسے چین سے قطر کے راستے پاکستان آنے کے دوران نارمل فلو و زکام بخار ہونے کی وجہ سے ظاہری علامات کی بناء پر کرونا متاثر مشہور کیا گیا اور پھر اس کے معاملے کو تماشہ بنا دیا گیا ۔
پہلے اُسے خیرپور کے سول اسپتال لایا گیا جہاں کرونا وائرس کے شک کی بناء پر ملک بھر میں واحد تشخیصی مرکز پمز اسلام آباد ریفر کیا گیا ، جب اُسے ایمبولنس میں روانہ کیا گیا تو ملتان کے قریب پنجاب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اُسے زبردستی واپس خیرپور روانہ کردیا ۔ اُس کے بعد اُسے چانڈکا میڈکل کالج لاڑکانہ لایا گیا ، جہاں ایسے وائرس سے نمٹنے کی کوئی سہولت موجود نہیں ۔ دودن کے اندر نوجوان واپس خیرپور اسپتال پہنچ گیا ، جہاں ڈاکٹرز و عملہ اس کو دیکھنے اور علاج کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ، بالآخر نوجوان چپ چاپ اسپتال سے کھسک گیا ۔
میڈیا میں بات آنے کے بعد نوجوان کو گمس انسٹی ٹیوٹ ، گمبٹ میں ایڈمٹ کیا گیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ گمس میں 3بیڈ پر مشتمل 3آئیسولیشن وارڈز قائم کیے گئے ہیں۔ یہاں نوجوان کے ابتدائی ٹیسٹ کرکے اُسے کلیئر قرار دیاگیا اورمزید ٹیسٹ سیمپل اسلام آباد بھیجے گئے ہیں ۔ لیکن تب تک یہ نوجوان معاشرے میں حقارت اور ڈر کی علامت بن گیا اور اب نہ تو یہ پتا ہے کہ وہ وائرس سے متاثر ہے یا نہیں اور نہ ہی لوگ اس سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ اب بتائیں ایسے معاشرے و ملکی صورتحال میں ہم بھلا اس امکانی وبا پر کیسے قابو پاسکتے ہیں ۔
یوں تو جنگل میں شیر اور بھیڑیا تقریباًجانوروں کے دشمن ہوتے ہیں اور موقع پاتے ہی چھوٹے ، کمزور اور سادہ لوح جانوروں کو مارکر کھاجاتے ہیں لیکن جب بھی جنگل پر قحط یا دوسری کسی مصیبت کا وقت آتا ہے تو ایسے میں تمام جانور نہ صرف ایک ہوجاتے ہیں بلکہ اُس مصیبت سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہم انسان ہیں جو عام حالات میں تو ایک دوسرے کو نوچنے و مسلنے میں مصروف ہوتے ہی ہیں مگر مصیبت کے وقت بھی صرف اپنی فکر میں ہوتے ہیں اوراُس مصیبت کو دوسروں کے لیے کٹھن سے کٹھن بنانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں ، نتیجتاْ آہستہ آہستہ تمام لوگ ہی اُس مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اِس کرونا وائرس والے معاملے میں بھی ہمارا کردار ایسا ہی ہے ۔ اس وقت ایسی متعدی امراض پر تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ ایٹلانٹا، امریکا میں قائم ہے ، اس کے ساتھ ساتھ خلاء و سیاروں پر کنٹرول کرنے اور جینیاتی سائنس ، خلیوں پر تحقیق میں کمال و نباتات سے علاج میں مہارت کا کمال رکھنے والے امریکا ، فرانس و برطانیہ ہوں یا ایلو پیتھک و ہومیوپیتھک میں مہارت کے حامل جرمنی ، اسرائیل و دیگر ممالک سب نے اس کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے متحد ہوکر جلد از جلد اینٹی ٹوکسن تیار کرنے اور لوگوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنے میں چین کا ہاتھ تھامنے کے بجائے اس مصیبت کو چین کے لیے شدید بنانے کے لیے اُسے تنہا چھوڑنے کے اعلانات کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
جب کہ چین کے تعصب میں دنیا بھر کے نیم فلسفی 2011میں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم Contagionکی بنیاد پر کرونا وائرس سے متعلق سازشی تھیوری ڈھونڈنے کی کوشش میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں ۔ بقول اُن کے ایک ہفتے کے بعد اس وائرس کی ویکسین کی ایجاد کا چائنہ سے اعلان کیا جائے گا اور پوری دنیا اس ویکسین کو خریدنے کے لیے لائین لگادیگی اور یہ چائنہ کا تجارتی حربہ ہے کیونکہ دنیا میں وائرس پھیلانا اور وائرس کا علاج ایجاد کرکے فروخت کرنا نئے دور کی تجارت ہے ۔
اس تھیوری میں یوں بھی دم نہیں ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی ملک اپنے ہی ملک میں ایسا بایولوجیکل ہتھیارتجربے کے لیے استعمال کرے ۔ ایسے میں واحد پاکستان ہے جو سائنسی کمالیت سے عاری ہونے کے باوجود چین کے ساتھ کھڑا ہے ،یہ بھلے ہی چین کو کوئی عملی فائدہ نہ پہنچا سکے لیکن اُس کے اس اعتماد نے چین کے عوام کو ڈھارس بندھائی ہے اور انھیں یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ جنگ چاہے ہتھیاروں کی ہو ، معاشی ہو یا پھر جینیاتی ، اُس میں سب سے زیادہ ضرورت حوصلے کی ہوتی ہے ، جس سے انسان میں ایک نئی توانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ مزید قوت کے ساتھ بالمقابل مصیبت سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔ شاید اسی لییرعنا سحری نے کہا تھا کہ :
منزل نہ دے ، چراغ نہ دے ، حوصلہ تو دے
تنکے کا ہی سہی تُو مگر ، آسرہ تو دے!
کرونا وائرس 1960 میں پہلی مرتبہ دریافت ہوا۔ یہ وائرس جانوروں اور پرندوں میں موجود ہوتا ہے۔ یہ مختلف حالتوں میں مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے لیکن یہ ہر صورت میں انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ وائرس سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے ۔ اس وائرس سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی لیول بھی کم ہوجاتی ہے ، جس سے جلد خطرناک نمونیا ہوجاتی ہے اور پھر مریض کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ وائرس چین سے شروع ہوا اور چین میں ہی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا علاج بھی چین میں ہی ممکن ہے ، کیونکہ اس وائرس کی تشخیص اور علاج کی چین کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مفت و آسان سہولت میسر ہے۔
جہاں خدانخواستہ بیمار ہونے کی صورت میں ہر طبی سہولت بروقت مل جائے گی ۔ جب کہ پاکستان میں تو بیمار نہ ہونے کی صورت میں کی جانیوالی احتیاطی تدابیر کی بھی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں تو ماسک جیسی معمولی احتیاطی چیز بھی میڈیکل اسٹورز سے عدم دستیابی اور بلیک پر فروخت کی اطلاعات ہیں ۔ چین بھر میں کرونا وائرس متاثرین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر علاج کے لیے اسپتال پہنچایا جارہا ہے اور چین میں ڈاکٹرز ووہان شہر میں ڈیوٹی کرنے کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ متاثرہ عورت کی ڈیلیوری کراکر ایک صحت مند بچے کی پیدائش سمیت کئی لوگوں کے علاج کے لیے مسلسل ماسک اور دستانے ( Gloves) پہنے رکھنے سے اُن کے ہاتھوں اور چہروں پر زخم ہوگئے ہیں ۔
دوسری جانب ہمارے یہاں کرونا وائرس کا سن کر ڈاکٹر و عملہ اسپتال چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ اس لیے جب تک کرونا کا علاج دریافت نہیں ہوتا تب تک چین سے لوگوں کو باہر نہیں نکالنا چاہیے ۔ خاص طور پر ہمارے جیسے ممالک جن میں صحت کی سہولیات بہتر و مؤثر نہیں ہیں ۔ ویسے بھی اس وقت چین میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح 2%ہے جو کہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ محض ملیریا سے ہونے والی اموات کی شرح بھی 5%ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت 28000سے زائد پاکستانی طلبہ چین کے مختلف شہروں کی جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔
اُن کے والدین کا اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ جس کے لیے حکومت ِ پاکستان کو ''ووہان '' شہر کو چھوڑ کر چین کے باقی شہروں میں موجود طلبہ کی اسکریننگ کے بعد صحت مند زندگی اور محفوظ طریقے سے واپسی کی ذمے داری ادا کرنی چاہیے ۔ جب کہ ووہان شہر میں موجود طلبہ وہ دیگر پاکستانی شہریوں کے حالات اور علاج سے متعلق بھی والدین کو مسلسل آگاہی کا انتظام کرنا چاہیے ۔ شایداس بات کا احساس چینی حکام کو بھی ہے اس لیے پاکستان کے اس اعتماد پر پاک چین فضائی آپریشن بحال کردیا گیاہے ۔ جب کہ چین نے ووہان کو چھوڑ کر دیگر شہروں سے پاکستانیوں کو اسکریننگ کے بعد واپس پاکستان بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی اور اب تک 281پاکستانی ملک واپس آچکے ہیں ۔
کرونا وائرس کی وجہ سے چین کو 9ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ چین کی جی ڈی پی 3.1فیصد گرگئی ہے۔ لیکن چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی آبادی کا حامل معاشی و فوجی سپر پاور ملک ہے ۔ اس نے کرونا وائرس کے سیمپل دنیا بھر کے سائنسدانوں کو بھجوائے ہیں اور دنیا بھر میں تمام تیزی سے ویکسین کی تیاری ہورہی ہے ۔ پھر سب سے بڑی باتWHOنے چین میں کیے جانے والے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
بقول ڈی جی WHO، چین بہترین نمونے کرونا وائرس سے نبرد آزما ہے اگر یہ وائرس کسی غریب ملک پہنچا تو اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے پاکستان کی طرح دیگر ممالک کو بھی چین کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور WHOکے پلیٹ فارم سے متحد ہوکر اس بھیانک و موذی وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ جب کہ پاکستان کو تمام ہوائی ، سمندری و زمینی خارجی راستوں پر کرونا سمیت دیگر وائرس کی مانیٹرنگ کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ کی معیاری سہولت میسر کرنی چاہیے اور اسپتالوں میں پیشگی احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر آئیسولیشن وارڈز قائم کرنے چاہئیں۔ ساتھ ہی چائنہ سے آنیوالی اشیاء کی بھی اسکریننگ کا بندوبست کرنا چاہیے۔
اسی طرح وزیر اعظم کو چین کی مستعدی سے بھی سیکھنا چاہیے اور تھر میں مالنیوٹریشن سے مرتے بچوں سمیت ہیپا ٹائٹس ، ایڈز، تھیلیسمیا ، کانگواور نیگلیریا جیسے متعدی امراض سے بچاؤ کے لیے بھی تمام ضروری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں ۔ پھر ملک میں مرغی و گوشت میں وائرس کی افواہیں بھی بڑے پیمانے پر گردش میں ہیں ۔ اس لیے حکومت کو ان تمام اُمور سے متعلق ایک مانیٹرنگ ڈیسک قائم کرکے اس سے وقت بوقت صورتحال اور آگاہی کو عام کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے۔