منتظر زخم خوردہ ٹیلنٹ
فیملی کی شب و روز کی محنت کے تین سال کے بعد برکات اس قابل ہوا کہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔
میری کُرسی کے سامنے دیوار پر پولو میچ کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کی چار کول سے بنائی گئی پینٹنگ لگی ہے جو میںنے الحمرا کی ایک Exhibition Painting میں تین سال قبل اس نمائش کے آرٹسٹ برکات مظہر سے ملاقات کے بعد خریدی تھی۔ میں نے کئی سو پینٹنگز کی نمائیشیں دیکھی ہوں گی۔
میری اپنی بیٹی مہر النساء نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) کی گریجویٹ ہے اس کے کالج سیکڑوں بار اسے لینے اور آرٹس کی Exhibitions دیکھنے جانا ہوا لیکن چونکہ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے جیب اجازت ہی نہیں دیتی تھی اس لیے نہ کبھی کوئی پینٹنگ خریدی نہ ہی اس کی خواہش ہوئی۔ یہ سامنے دیوار پر آویزاں سیاہ و سفید پولو کھیل والی اکلوتی Painting ہے جو خریدی۔ اسے دیکھنے کے دوران خدا کی قدرت کا ایک بار پھر شکر گزار ہونے کا لمحہ دل و جان میں اُتر گیا۔
برق رفتار گھوڑوں پر سوار پولو پلیئرز کو دیکھتے ہوئے مجھے بے شمار افراد جو جسمانی طور پر معذور ہیں لیکن جنھوں نے طاقتور اور جری لوگوں کو علم و کمال میںکوسوں پیچھے چھوڑا، یا د آئے۔ ایسے با کمال لوگوں کی تعداد سے تاریخ بھری پڑی ہے اور انھی سائنس ادب اور آرٹ میں نام پیدا کرنے والے تاریخ ساز لوگوں کی یاد آنے پر میں نے آرٹسٹ برکات کی بابت اسی حوالے سے معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
برکات نے چارٹرڈ اکائونٹنسی کے لیے بارہ سال قبل کالج میں داخلہ لے رکھا تھا کہ اس کی موٹر بائیک حادثے کا شکار ہوئی جس میں وہ شدید زخمی ہوا۔ اس کے سر دائیں بازو اور ٹانگوں پر چوٹیں آئیں۔ وہ ایک محتاط اور اچھا بائیک ڈرائیور تھا لیکن جب کوئی حادثہ ہونا ہو تو وہ اگر اپنی نہیں تو دوسرے کی غلطی سے بھی ہو سکتا ہے۔ گویا وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ برکات کو 27 اگست 2006 کو حادثہ پیش آیا جس نے برکات اور اس کے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔
حادثہ اندوہناک تھا اس کے سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ ابتدائی طبّی امداد میں تاخیر ہوئی جو ناقص بھی تھی ۔ وہ اڑھائی ماہ بیہوش رہا۔ ہوش میں آیا تو معلوم ہوا اس کا دایاں پہلو مکمل مفلوج ہو چکا تھا۔ دائیں ٹانگ اور بازو بھی مفلوج تھے۔ قوت ِ گویائی جا چکی تھی اور دماغی صلاحیتیں منتشر تھیں ۔ والد کے وسائل محدود تھے۔ برکات کا علاج بھی ضروری تھا ۔ یوں پورے خاندان کو ایک بڑی آزمائش نے آگھیرا۔ گھر کے سب افراد نے برکات کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی ذمے داری آپس میں تقسیم کر کے گھر ہی کو بحالی مرکز بنا لیا۔
کچھ وقت گزرنے پر برکات کی ذہنی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اس کو حالات کا ادراک ہونے پر پریشان کن مایوسی نے آن گھیرا کہ کیا یہی اس کی زندگی اور مقدر ہے اسے روشنی کی کوئی کرن نظر نہ آتی جو اس میں جینے کی تمنا پیدا کرتی ۔ ان مایوس کن اور صبر آزما روز و شب نے اس پر ایک دن مایوسی اور نا امیدی نے ایسا حملہ کیا کہ اس نے ایک شام کمرے کی اندر سے چٹخنی لگائی اور بستر پر گر کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔
گھر والوں نے اس کی رونے کی آواز سنی تو آوازیں دیں لیکن برکات نے دروازہ نہ کھولا۔ کافی دیر کے بعد والدہ کے اصرار پر دروازہ کھلا تو اس کی حالت غیر تھی اور اس کے بستر پر کاغذ کا ٹکڑا پڑا تھا جس برکات نے بائیں ہاتھ سے دو الفاظ '' خود کشی'' لکھے تھے۔ یہ الفاظ اس کی ذہنی حالت کے عکاس تھے۔ اب تمام فیملی ممبر اس کی حالت غیر کو سنبھالنے اور اس کے بائیں بازو اور ہاتھ کو گارگر بنانے میں مصروف ہو گئے جس میں بتدریج بہتری آنے لگی۔
فیملی کی شب و روز کی محنت کے تین سال کے بعد برکات اس قابل ہوا کہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ چھ سال تک پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن میں بیچلر آف آرٹس (BFA) کرنے کے بعد اسے NCA میںایم فل Visual Arts میں داخلہ مل گیا جہاں سے اُس نے ڈگری مکمل کی۔ بائیس سال کے برکات نے CA کرنے کے بجائے حادثے کا شکا ہو کر پانچ سرجریاں کروائیں ۔ تین ماہ کو ما میں رہا۔ بولنے سے قاصر ہوا۔ دائیں جانب سر سے پائوں تک مفلوج ہوا لیکن خدائی مدد اور اہل ِ خانہ کی رات دن نگہداشت اور محنت کے نتیجے میں شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں کچھ افاقہ ہونے پر اس نے بائیں ہاتھ سے لکھنا اور پینٹنگ کرنا شروع کر دیا۔
برکات کو ٹریفک حادثہ بارہ سال قبل پیش آیا تو اس کی عمر 22 سال تھی اب وہ 34 سال کا ہے وہ سُن ، چل ، دیکھ سکتا ہے لیکن بمشکل چل سکتا ہے۔ اس کے ادا کیے الفاظ کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے سن اور دیکھ لیتا ہے۔ تین سال قبل اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش الحمرا آرٹ گیلری میں تھی جہاں میں نے اپنی پہلی پینٹنگ خریدی۔ اب تک اس کی پینٹنگز کی کئی Exhibitions ہو چکی ہیں لیکن وہ اپنے ہنر اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود اس پذیرائی سے محروم ہے جو اگر وہ یورپ ، امریکا یا برطانیہ میں ہوتا تو اسے بغیر مانگے حکومت سے ملتی۔
ہمارے ملک کا وزیر ِ اعظم عمران خاں ہنر مندوں کا قدر دان ہے ۔ دیکھیں میری آواز کب اس تک پہنچتی ہے۔ برکات کو علاج کے علاوہ روزگار کی بھی ضرورت ہے۔ اب میں اس کی آیندہ ہونے والی پینٹنگز کی Exhibition اور دعوت کا منتظر ہوں کہ ایک اور پینٹنگ خرید سکوں۔
میری اپنی بیٹی مہر النساء نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) کی گریجویٹ ہے اس کے کالج سیکڑوں بار اسے لینے اور آرٹس کی Exhibitions دیکھنے جانا ہوا لیکن چونکہ سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے جیب اجازت ہی نہیں دیتی تھی اس لیے نہ کبھی کوئی پینٹنگ خریدی نہ ہی اس کی خواہش ہوئی۔ یہ سامنے دیوار پر آویزاں سیاہ و سفید پولو کھیل والی اکلوتی Painting ہے جو خریدی۔ اسے دیکھنے کے دوران خدا کی قدرت کا ایک بار پھر شکر گزار ہونے کا لمحہ دل و جان میں اُتر گیا۔
برق رفتار گھوڑوں پر سوار پولو پلیئرز کو دیکھتے ہوئے مجھے بے شمار افراد جو جسمانی طور پر معذور ہیں لیکن جنھوں نے طاقتور اور جری لوگوں کو علم و کمال میںکوسوں پیچھے چھوڑا، یا د آئے۔ ایسے با کمال لوگوں کی تعداد سے تاریخ بھری پڑی ہے اور انھی سائنس ادب اور آرٹ میں نام پیدا کرنے والے تاریخ ساز لوگوں کی یاد آنے پر میں نے آرٹسٹ برکات کی بابت اسی حوالے سے معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
برکات نے چارٹرڈ اکائونٹنسی کے لیے بارہ سال قبل کالج میں داخلہ لے رکھا تھا کہ اس کی موٹر بائیک حادثے کا شکار ہوئی جس میں وہ شدید زخمی ہوا۔ اس کے سر دائیں بازو اور ٹانگوں پر چوٹیں آئیں۔ وہ ایک محتاط اور اچھا بائیک ڈرائیور تھا لیکن جب کوئی حادثہ ہونا ہو تو وہ اگر اپنی نہیں تو دوسرے کی غلطی سے بھی ہو سکتا ہے۔ گویا وقت کرتا ہے پرورش برسوں ، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ برکات کو 27 اگست 2006 کو حادثہ پیش آیا جس نے برکات اور اس کے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔
حادثہ اندوہناک تھا اس کے سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ ابتدائی طبّی امداد میں تاخیر ہوئی جو ناقص بھی تھی ۔ وہ اڑھائی ماہ بیہوش رہا۔ ہوش میں آیا تو معلوم ہوا اس کا دایاں پہلو مکمل مفلوج ہو چکا تھا۔ دائیں ٹانگ اور بازو بھی مفلوج تھے۔ قوت ِ گویائی جا چکی تھی اور دماغی صلاحیتیں منتشر تھیں ۔ والد کے وسائل محدود تھے۔ برکات کا علاج بھی ضروری تھا ۔ یوں پورے خاندان کو ایک بڑی آزمائش نے آگھیرا۔ گھر کے سب افراد نے برکات کی نگہداشت اور دیکھ بھال کی ذمے داری آپس میں تقسیم کر کے گھر ہی کو بحالی مرکز بنا لیا۔
کچھ وقت گزرنے پر برکات کی ذہنی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اس کو حالات کا ادراک ہونے پر پریشان کن مایوسی نے آن گھیرا کہ کیا یہی اس کی زندگی اور مقدر ہے اسے روشنی کی کوئی کرن نظر نہ آتی جو اس میں جینے کی تمنا پیدا کرتی ۔ ان مایوس کن اور صبر آزما روز و شب نے اس پر ایک دن مایوسی اور نا امیدی نے ایسا حملہ کیا کہ اس نے ایک شام کمرے کی اندر سے چٹخنی لگائی اور بستر پر گر کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔
گھر والوں نے اس کی رونے کی آواز سنی تو آوازیں دیں لیکن برکات نے دروازہ نہ کھولا۔ کافی دیر کے بعد والدہ کے اصرار پر دروازہ کھلا تو اس کی حالت غیر تھی اور اس کے بستر پر کاغذ کا ٹکڑا پڑا تھا جس برکات نے بائیں ہاتھ سے دو الفاظ '' خود کشی'' لکھے تھے۔ یہ الفاظ اس کی ذہنی حالت کے عکاس تھے۔ اب تمام فیملی ممبر اس کی حالت غیر کو سنبھالنے اور اس کے بائیں بازو اور ہاتھ کو گارگر بنانے میں مصروف ہو گئے جس میں بتدریج بہتری آنے لگی۔
فیملی کی شب و روز کی محنت کے تین سال کے بعد برکات اس قابل ہوا کہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ چھ سال تک پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن میں بیچلر آف آرٹس (BFA) کرنے کے بعد اسے NCA میںایم فل Visual Arts میں داخلہ مل گیا جہاں سے اُس نے ڈگری مکمل کی۔ بائیس سال کے برکات نے CA کرنے کے بجائے حادثے کا شکا ہو کر پانچ سرجریاں کروائیں ۔ تین ماہ کو ما میں رہا۔ بولنے سے قاصر ہوا۔ دائیں جانب سر سے پائوں تک مفلوج ہوا لیکن خدائی مدد اور اہل ِ خانہ کی رات دن نگہداشت اور محنت کے نتیجے میں شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں کچھ افاقہ ہونے پر اس نے بائیں ہاتھ سے لکھنا اور پینٹنگ کرنا شروع کر دیا۔
برکات کو ٹریفک حادثہ بارہ سال قبل پیش آیا تو اس کی عمر 22 سال تھی اب وہ 34 سال کا ہے وہ سُن ، چل ، دیکھ سکتا ہے لیکن بمشکل چل سکتا ہے۔ اس کے ادا کیے الفاظ کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے سن اور دیکھ لیتا ہے۔ تین سال قبل اس کی بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش الحمرا آرٹ گیلری میں تھی جہاں میں نے اپنی پہلی پینٹنگ خریدی۔ اب تک اس کی پینٹنگز کی کئی Exhibitions ہو چکی ہیں لیکن وہ اپنے ہنر اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود اس پذیرائی سے محروم ہے جو اگر وہ یورپ ، امریکا یا برطانیہ میں ہوتا تو اسے بغیر مانگے حکومت سے ملتی۔
ہمارے ملک کا وزیر ِ اعظم عمران خاں ہنر مندوں کا قدر دان ہے ۔ دیکھیں میری آواز کب اس تک پہنچتی ہے۔ برکات کو علاج کے علاوہ روزگار کی بھی ضرورت ہے۔ اب میں اس کی آیندہ ہونے والی پینٹنگز کی Exhibition اور دعوت کا منتظر ہوں کہ ایک اور پینٹنگ خرید سکوں۔