مس کنڈکٹ پر وکلا کا لائسنس منسوخ کرنیکی تجویز

ڈسپلنری ایکشن کیلیے میکنزم موجود،حکومت ہمیں ٹارگٹ کرناچاہتی ہے، عابد ساقی

ترمیمی بل پرآپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں،وزارت قانون نے پاکستان بار کوخط لکھ دیا۔ فوٹو: فائل

وزارت قانون وانصاف نے تشدد اوردنگا فساد میں ملوث وکلا کے لائسنس منسوخ کرنے سے متعلق تجویز پر پاکستان بارکونسل سے رائے مانگ لی ہے۔

وکلاء کی اپیکس ریگولیٹری باڈی کو وزارت قانون کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ وزارت وکلاء کی طرف سے کسی بھی شخص پرتشددکی صورت میں اسکا لائسنس منسوخ کرنے جیسے سخت فیصلے کے بل پرآپ کی رائے جاننا چاہتی ہے۔

خط کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے امجد علی خان نے'' لیگل پریکٹیشنراوربارکونسل ایکٹ 2019ء'' کے نام سے ایک بل متعارف کرایا ہے جس میں بعض نئی شقیں شامل کی گئیں ہیںکہ اگر کوئی وکیل کسی شخص کیخلاف تشددکا مرتکب قرار پایا تو اسکی پریکٹس پر تاعمر پابندی عائد کردی جائیگی۔ اگرکوئی وکیل دھوکہ دہی ، فراڈ، جعل سازی، غلط شہادت، حقائق کودانسہ چھپانے جیسے کسی بھی معاملے میں ملوث ہوا تو اسکا لائسنس منسوخ کردیا جائیگا۔

بل کو پیش کرنے کا محرک حالیہ دنوں میں وکلا کا احتجاج کے دوران متشدد کارروائیوں میں ملوث ہونا بنا ہے، بل پیش کرنے کا مقصد قانونی شعبہ میں پرامن فضا کویقینی بنانا اور عدالتی نظام کو مستقبل میں آگے بڑھانا ہے۔ تاہم پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کا مجوزہ ترمیم کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مس کنڈکٹ پر وکلاء کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لینے کے لئے میکنزم پہلے سے ہی موجود ہے۔

عابد ساقی کو یہ یقین ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ترمیمی بل لانے کا مقصد وکلاء کوٹارگٹ کرنا ہے، جو ہمیشہ ملک میں آزادی اظہار اور عوامی بالادستی کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگا یا کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم پہلے دن سے ہی آزاد وکلاء اورججو ں کی آوازکو دبانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ ہم وکلاء کوٹارگٹ کرنے کی کسی غیر حقیقی اورمن مانی کوشش کوقبول نہیںکریں گے۔ ہم جلد وکلاء کی نمائندہ اداروں کی میٹنگ کال کر رہے ہیں جس میں اس تجویز پرردعمل سامنے لایا جائیگا۔

پاکستان بارکونسل کے رکن راحیل کامران شیخ نے تجویز پر ردعمل میں کہا کہ کم سے کم سزاایک خاص مدت تک لائسنس کی معطلی سے زیادہ سے زیادہ مدت تک منسوخی تک ہونی چاہیئے۔

کراچی کے معروف وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ سزا کی تبدیلی مس کنڈکٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات کوکنٹرول کرنے کا موثر ذریعہ نہیں ہوسکتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پروفیشنلز کسی بھی مس کنڈکٹ کی صورت میں خود کوسزا نہیں دے سکتے۔ ایسے ٹریبونل بنائے جائیں جس کے اراکین کا تعلق مذکورہ پروفیشن سے نہیں بلکہ سول سوسائٹی سے ہو۔

قانون کے مطابق اعلی عدلیہ کے ججزان ٹریبونلز کے سربراہ ہیں جو ججزکے خلاف شکایات سنتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے ٹریبونلز مس کنڈکٹ کے مرتکب وکلاء کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے۔ سانحہ پی آئی سی لاہور کے بعد وکلاء کی ریگولیٹری باڈیزمس کنڈکٹ میں ملوث وکلاء کیخلاف کوئی بھی ڈسپلنری ایکشن لینے میں ناکامی پر شدید تنقیدکی زد میں ہیں۔

 
Load Next Story