بلدیاتی انتخابات حکومت کی عوام سے آنکھ مچولی

سیاسی جوڑ توڑ اور سرگرمیاں جاری، ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود بدامنی کا خوف۔

سندھ حکومت کے رویے سے یہ تأثر مل رہا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔فوٹو : فائل

لاہور:
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ حکومت کے مؤقف میں بار بار تبدیلی سے کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔

پچھلے ہفتے ایک مرتبہ پھر نئی تاریخ کے اعلان کی بات سامنے آئی ہے، جس سے یہ تأثر مل رہا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔ اس سے قبل حکومت سندھ نے بلدیاتی الیکشن کے لیے 27 نومبر کی تاریخ دی تھی اور اس سلسلے میں تیاریاں بھی مکمل ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن معاملہ سات دسمبر اور پھر جنوری تک پہنچ گیا، مگر گذشتہ دنوں وزیر بلدیات شرجیل میمن نے مارچ کے تیسرے ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حکومت کے مؤقف میں بار بار تبدیلی سے شاید جمہوریت اور عوام کی خدمت کی دعوے دار دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو، لیکن عوام شدید مایوس نظر آرہے ہیں۔ شہری اپنے مسائل کا حل اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن مسلسل تاخیر سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ منتخب عوامی نمایندوں پر مشتمل حکومت اختیارات اور مالی وسائل کی خاطر انہیں ان کے حق سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔

پچھلے دنوں صوبۂ سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے کاغذاتِ نام زدگی جمع کروائے تھے اور کراچی میں سیاسی اتحاد اور جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر تھا، مگر الیکشن کمیشن کی درخواست پر عدالت کی طرف سے نئے شیڈول کی منظوری دے دی گئی۔ اب صوبۂ سندھ میں 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد متوقع ہے۔ تاہم صوبائی وزیر کے بیان سے بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔

یوم عاشور پر سانحۂ راول پنڈی کے بعد کراچی میں تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف حکومتِ پنجاب سے اس واقعے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جب کہ مختلف مسالک کے علما اور سیاست دانوں نے عوام سے مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنے اور پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ شہر میں پولیس اور رینجرز کا گشت اور چیکنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کا مقصد سیکیورٹی کو بہتر بنانا ہے، لیکن شہر کے مختلف علاقوں میں ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات میں متعدد افراد زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب لیاری کے معصوم شہری متحارب گروپوں کے مسلح تصادم کے بعد اپنے گھروں میں گویا قیدی بن کر رہ گئے۔ اس دوران متعدد ہلاکتیں بھی ہوئیں اور یہ سب کراچی شہر میں ٹارگیٹڈ آپریشن اور لیاری میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی سے متعلق حکومتی اقدامات پر سوالیہ نشان ہے۔


کراچی میں یوم عاشور کے ماتمی جلوسوں میں علما نے اپنے خطاب میں شہدائے کربلا کے مصائب اور ان پر ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر حال میں حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیا۔ پچھلے ہفتے شہر کے مختلف علاقوں اور محرم الحرام کے مرکزی جلوس کی گزرگاہوں پر سخت حفاظتی انتظامات دیکھے گئے۔ مساجد اور امام بارگاہوں سمیت حساس مقامات پر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی، جب کہ خفیہ کیمروں کی مدد سے جلوسوں کی نگرانی بھی کی جاتی رہی اور اس دوران کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا جس پر صوبائی حکومت اور عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ عاشورہ کے دنوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کر لیا تھا، لیکن اب ایک مرتبہ پھر بلدیاتی انتخابات کے لیے رابطوں اور سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔

اب تک تو یہی نظر آرہا ہے کہ کراچی کے عوام مقامی سطح پر کام کرنے کے لیے 18 جنوری کو اپنے نمایندوں کا انتخاب کریں گے۔ اس سلسلے میں صوبائی الیکشن کمشنر طارق قادری نے کہا ہے کہ پرانے انتخابی شیڈول کے تحت کاغذات نام زدگی جمع کرانے والے امیدواروں سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ تاہم تمام امیدواروںکو ازسرنو کاغذات جمع کرانا ہوں گے۔ پچھلے دنوں سندھ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کے تحت کونسلر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کی نشستوں پر کاغذات نام زدگی جمع کرانے والے امیدواروں سے 2 ہزار روپے فیس وصول کی تھی اور کراچی سمیت اندرون سندھ اس مد میں کروڑوں روپے الیکشن کمیشن کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے تھے۔

ہفتے کے دن لال قلعہ گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کا تنظیمی اجلاس منعقد ہوا، جس میں مختلف شعبہ جات کے اراکین شریک تھے۔ اجلاس کی صدارت لندن سے ٹیلی فون پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کی۔ اجلاس میں رابطہ کمیٹی میں توسیع سے متعلق فیصلے بھی کیے گئے۔ رابطہ کمیٹی میں قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار، رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل اور سیف یار خان کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ سینیٹر بابر غوری اور عادل صدیقی رابطہ کمیٹی کے معاون مقرر ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ذرایع نے بتایاکہ اجلاس میں ملک کی حالیہ سیاسی صورت حال،کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن، بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں سمیت دیگر اہم امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی اور دیگر راہ نماؤں سے تفصیلی مشاورت کی۔ ایم کیو ایم کے ذرایع کے مطابق پارٹی کے مختلف شعبہ جات اور تنظیمی سیٹ اپ میں بھی مرحلہ وار تبدیلی کی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ایم کیو ایم کراچی سمیت ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور آیندہ ماہ عوامی رابطہ مہم بھی شروع کر دی جائے گی۔

دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے سندھ بھر میں پارٹی کی تنظیم نو اور رکنیت سازی کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں افتتاحی تقریب مردان ہاؤس میں منعقد ہوئی، جس میں صوبائی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئر مین الطاف ایڈووکیٹ نے سینیٹر شاہی سید کو رکنیتی کارڈ جاری کیا۔ الطاف ایڈووکیٹ کے جاری کردہ بیان کے مطابق سندھ بھر میں آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہان کو ممبر شپ کارڈ بھیج دیے گئے ہیں۔ رکنیت کے خواہش مند اپنے وارڈ یا ضلعی ارکان سے کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ انفرادی سطح پر کسی کو باچا خان مرکز یا مردان ہاؤس سے ممبر شپ کارڈ جاری نہیں کیے جائیں گے، صرف وارڈ، ضلعی یا صوبائی آرگنائزنگ کمیٹی کے اراکین یہ کارڈ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
Load Next Story