سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف

پیپلز پارٹی کے مقامی راہ نماؤں کی ناراضی ختم کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔

بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی روایت برقرار رکھنے کے لیے حیلے بہانوں سے کام لیا گیا۔ فوٹو : فائل

حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت کے حکم پر رواں ماہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے اقدامات کے ساتھ پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروائے جانے والے بلدیاتی نظام میں بعض تبدیلیاں کرنے کے بعد اسے قانون کا حصہ بنانے کے لیے اسمبلی سے منظوری بھی لی گئی تھی۔

جس سے عوام کو اپنے مسائل مقامی سطح پر حل ہونے کی امید ہو چلی تھی، مگر جمہوری دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی ''روایت'' برقرار رکھنے کے لیے حیلے بہانوں سے کام لیا گیا اور الیکشن کمیشن کی درخواست پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات جنوری تک ملتوی کردیے گئے اور اب یہ تاریخ بھی اِدھر اُدھر ہوتی نظر آرہی ہے۔ سندھ کے تیسرے بڑے شہر میں سیاست دانوں کے آپس میں رابطوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ف) کی جانب سے پارٹی اجلاس ہورہے ہیں۔

جس میں بلدیاتی انتخابات میں حصّہ لینے اور اس سے متعلق مختلف امور پر غور کیا جارہا ہے۔ سکھر ضلع میں متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کی تیاریاں زوروں پر ہیں جب کہ دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی ملکی صورت حال اور مختلف معاملات پر پریس ریلیز کی حد تک بیانات اور اعلانات سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔

سکھر میں متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلزپارٹی نے بلدیاتی الیکشن کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرستوں کو حتمی شکل دے دی ہے اور مرکزی قیادت سے ان ناموں کی منظوری بھی حاصل کر لی ہے۔ سکھر شہر کی حدود میں 26 وارڈوں میں واضح برتری اور اس کے بل بوتے پر میونسپل کارپوریشن کی میئر شپ کے حصول کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور سینیٹر اسلام الدین شیخ نے اپنی سرگرمیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت سے ایسے افراد کو ٹکٹ دلوانے میں کام یابی حاصل کر لی ہے، جو ان کے انتہائی نزدیک سمجھے جاتے ہیں۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ اپنے صاحب زادے ارسلان شیخ کو اہم ذمہ داریاں دلانے کے لیے پارٹی راہ نماؤں اور مختلف برادریوں کی بااثر شخصیات سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ عرصے کے بعد انہوں نے سکھر کے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔


متوقع الیکشن میں ضلع کونسل کی سطح پر سابق تعلقہ ناظم روہڑی محمد اسلم شیخ کی کام یابی یقینی نظر آتی ہے۔ ضلع سکھر میں پیپلزپارٹی کے نام زد امیدواروں کی کام یابی کے لیے صوبائی قیادت اسلام الدین شیخ اور سید خورشید احمد شاہ کے درمیان جاری سرد جنگ کے خاتمے کے لیے بھی پس پردہ مصروف ہے، کیوں کہ عام انتخابات میں پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے صوبائی نشست1 سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ ان اختلافات کا فائدہ متحدہ قومی موومنٹ کو ہوا تھا اور یہ سیٹ اس نے جیت لی تھی۔ پیپلزپارٹی کے بعض راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات وقت کی ضرورت ہیں۔ تاہم اس میں چند تبدیلیاں بھی ضروری ہیں۔ مقامی سطح پر پارٹی کی دو اہم شخصیات کے اختلافات ختم کروانے کے لیے مرکزی راہ نماؤں کی کوششیں جارہی ہیں اور جلد اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

دوسری جانب پاکستان سنی تحریک کے کراچی میں موجود بعض ذمہ داران کے اختلافات کی شدت کا اثر سکھر اور دیگر اضلاع میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ سنی تحریک میں اکھاڑ پچھاڑ اور اختلافات کے بعد سکھر اور دوسرے علاقوں میں تنظیم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کے کارکنوں کی بڑی تعداد اب دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف دیکھ رہی ہے، جب کہ بعض ذمہ داران مرکز کی ہدایات کے منتظر ہیں۔ سکھر شہر میں رضوان قادری، مولانا نور احمد قاسمی اور محبوب سہتو الگ الگ سمت میں سیاست کررہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سنی تحریک کا سکھر میں سیاسی کردار ختم ہونے کے قریب ہے تو غلط نہ ہوگا۔

10محرم الحرام کو سانحۂ پنڈی کے بعد پورے ملک میں سوگ کی فضاء قائم ہو گئی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور یہاں ہلاکتوں کے خلاف جمعیت علمائے اسلام، سنی ایکشن کمیٹی کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ ریلی کے شرکاء نے دھرنا دے کر حکومت سے واقعے میں ملوث ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ ایک احتجاجی ریلی کے دوران خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا کہنا تھاکہ امریکا، افغانستان کی جنگ کو پاکستان منتقل کرنا چاہتا ہے، جس کی واضح مثال پنڈی کا واقعہ ہے۔ مختلف عقائد اور مسالک کے درمیان جنگ ہم نہیں بلکہ امریکا کرانا چاہتا ہے۔

انہوں نے میڈیا اور سول سوسائٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے پر واویلا کرنے والے اتنے بڑے سانحے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت پنجاب نے اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے سزا نہ دی تو احتجاجی تحریک شروع کرکے سندھ اور پنجاب کے درمیان گاڑیوں کی آمد و رفت مکمل طور پر بند کردیں گے۔ سنی ایکشن کمیٹی کے راہ نما علامہ محمد رمضان نعمانی کا کہنا تھاکہ منظم طریقے سے مساجد، مدارس پر حملہ کر کے نمازیوں کو قتل اور املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اہل سنت کی معیشت تباہ کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کو واقعہ کا ازخود نوٹس لینا چاہیے تاکہ شہریوں کی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔
Load Next Story