شیرازی برادران تنہا رہ گئے
سندھ میں نئے ضلع کے قیام نے مقامی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
لاہور:
ٹھٹھہ میں شیرازی برادران کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی وجہ سے یہاں پارٹی کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی ہے۔
عام انتخابات سے قبل شیرازی برادران نے پی پی پی کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا تو یہاں کی انتخابی نشستوں پر پی پی پی کی کام یابی یقینی نظر آرہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سید اویس مظفر ہاشمی نے شیرازیوں کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھا اور ٹھٹھہ پریس کلب کے سامنے بڑے جلسۂ عام کیا۔ جلسے کے بعد عام رائے یہی تھی کہ پیپلز پارٹی ہی تمام نشستیں جیتے گی، مگر جب شیرازی برادران نے ہر نشست پر کاغذات نام زدگی جمع کرائے تو سب کو بڑی حیرت ہوئی اور اسی دن سے شیرازیوں اور پی پی پی کے درمیان دوریاں بھی نظر آنے لگیں۔
کاغذاتِ نام زدگی جمع ہونے کے چند دنوں بعد ہی شیرازیوں کی اوطاق اور گھروں سے پیپلز پارٹی کے جھنڈے اترنا شروع ہو گئے اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شمولیت پر مقامی جیالے بھی خوش نہیں تھے اور انہیں یقین تھاکہ شیرازی اپنے مفاد کی خاطر پیپلز پارٹی کو جلد خیرباد کہہ دیں گے اور یہی ہوا۔
عام انتخابات میں شیرازی گروپ نے ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور پی پی پی نے قومی کی ایک اور سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کام یابی حاصل کی، مگر پھر پی ایس 84 پر شیرازی برادران نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی، جس میں شیرازی گروپ کے سید اعجاز شاہ شیرازی کام یاب قرار پائے، لیکن پی ایس 85 ساکرو کی سیٹ پر شیرازی گروپ کے امیدوار سید امیر حیدر شاہ کی کام یابی نے ساکرو تعلقہ کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ اس پر ہمیشہ پی پی پی کے امیدوار ہی کام یاب ہوتے رہے ہیں، جس میں تین بار سسی پلیجو اور اس سے قبل ان کے والد غلام قادر پلیجو کام یاب ہوئے ہیں۔
سسی پلیجو کو سابق دور حکومت میں اسی سیٹ سے کام یاب ہونے کے بعد صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی وزارت کے دور میں ساکرو سمیت ضلع ٹھٹھہ کے ہزاروں نوجوانوں اور خواتین کو ملازمتیں فراہم کیں اور کئی ترقیاتی اسکیمیں شروع کی تھیں۔ تعلقہ ساکرو کی سیٹ پر سسی پلیجو کی شکست کو عوام نے تسلیم نہ کیا اور سسی پلیجو نے بھی اس حلقے میں دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست دی، لیکن شیرازی گروپ کے سید امیر حیدر شاہ ہی کام یاب قرار پائے۔ اس کے خلاف ساکرو کی تقریباً چھے ہزار خواتین نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ انہیں شیرازیوں کے لوگوں نے ووٹ ڈالنے سے روکا ہے۔ دوسری جانب سسی پلیجو نے بھی الیکشن ٹریبونل میں درخواست دائر کی ہوئی ہے، جس پر جلد فیصلہ آنے والا ہے۔
انہوں نے الیکشن میں دھاندلیوں کے ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ اسی طرح 237 ٹھٹھہ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے کام یاب امیدوار صادق میمن کو دہری شہریت کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ضمنی الیکشن کی تیاریاں شروع ہوئیں تو شیرازیوں نے وڈیروں سے اپنے رابطے تیز کر دیے۔ پولنگ بڑے پُر امن اور خوش گوار ماحول میں ہوئی، جس میں پی پی پی کی امیدوار شمس النساء میمن نے شیرازی گروپ کے سید ریاض شاہ کو کئی ہزار ووٹوں سے شکست دے دی اور شیرازی گروپ کی جانب سے انتخابات میں جاتی سے کام یاب ہونے والے محمد علی ملکانی نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔
اس طرح پیپلز پارٹی کے پاس تین جب کہ شیرازی گروپ کے پاس تین نشستیں ہیں جب کہ ساکرو کی نشست پر الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنا ہے۔ ملکانیوں کی علیحدگی کے بعد شیرازیوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا اور انہوں نے ایک بار پھر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ سید اویس مظفر کی جانب سے سجاول کو ضلع بنانے کے اعلان پر شیرازیوں نے سخت احتجاج کیا اور مختلف ریلیاں بھی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر نکالیں، مگر سجاول کو ضلع بنا دیا گیا۔ اس پر مقامی لوگوں نے خوشی میں ریلیاں بھی نکالیں۔ ضلع کے قیام پر ٹھٹھہ کی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔
پچھلے دنوں سید اویس مظفر سے گھارو میں شیرازی برادری کی اہم شخصیت حاجی خان خاصخیلی، وڈیرہ زمان خاصخیلی نے سید اویس مظفر، سسی پلیجو اور غلام قادر پلیجو سے ملاقات کی اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد عبدالغنی، رئیس حسین ھلایو، رسول بخش جاکھرو، طفیل تھہیم جیسی اہم شیرازی برادری کی شخصیات نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھاکہ شیرازی برادری کو جنگ شاہی سے ووٹ دلانے والے کارکن غلام نبی بلوچ نے بھی شیرازی برادران سے تعلق ختم کر کے اپنے ساتھیوں سمیت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس صورت حال میں متوقع بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کام یابی واضح نظر آرہی ہے۔
ٹھٹھہ میں شیرازی برادران کا ساتھ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی وجہ سے یہاں پارٹی کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی ہے۔
عام انتخابات سے قبل شیرازی برادران نے پی پی پی کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کیا تو یہاں کی انتخابی نشستوں پر پی پی پی کی کام یابی یقینی نظر آرہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سید اویس مظفر ہاشمی نے شیرازیوں کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھا اور ٹھٹھہ پریس کلب کے سامنے بڑے جلسۂ عام کیا۔ جلسے کے بعد عام رائے یہی تھی کہ پیپلز پارٹی ہی تمام نشستیں جیتے گی، مگر جب شیرازی برادران نے ہر نشست پر کاغذات نام زدگی جمع کرائے تو سب کو بڑی حیرت ہوئی اور اسی دن سے شیرازیوں اور پی پی پی کے درمیان دوریاں بھی نظر آنے لگیں۔
کاغذاتِ نام زدگی جمع ہونے کے چند دنوں بعد ہی شیرازیوں کی اوطاق اور گھروں سے پیپلز پارٹی کے جھنڈے اترنا شروع ہو گئے اور ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شمولیت پر مقامی جیالے بھی خوش نہیں تھے اور انہیں یقین تھاکہ شیرازی اپنے مفاد کی خاطر پیپلز پارٹی کو جلد خیرباد کہہ دیں گے اور یہی ہوا۔
عام انتخابات میں شیرازی گروپ نے ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور پی پی پی نے قومی کی ایک اور سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر کام یابی حاصل کی، مگر پھر پی ایس 84 پر شیرازی برادران نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی، جس میں شیرازی گروپ کے سید اعجاز شاہ شیرازی کام یاب قرار پائے، لیکن پی ایس 85 ساکرو کی سیٹ پر شیرازی گروپ کے امیدوار سید امیر حیدر شاہ کی کام یابی نے ساکرو تعلقہ کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ اس پر ہمیشہ پی پی پی کے امیدوار ہی کام یاب ہوتے رہے ہیں، جس میں تین بار سسی پلیجو اور اس سے قبل ان کے والد غلام قادر پلیجو کام یاب ہوئے ہیں۔
سسی پلیجو کو سابق دور حکومت میں اسی سیٹ سے کام یاب ہونے کے بعد صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت بنایا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی وزارت کے دور میں ساکرو سمیت ضلع ٹھٹھہ کے ہزاروں نوجوانوں اور خواتین کو ملازمتیں فراہم کیں اور کئی ترقیاتی اسکیمیں شروع کی تھیں۔ تعلقہ ساکرو کی سیٹ پر سسی پلیجو کی شکست کو عوام نے تسلیم نہ کیا اور سسی پلیجو نے بھی اس حلقے میں دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست دی، لیکن شیرازی گروپ کے سید امیر حیدر شاہ ہی کام یاب قرار پائے۔ اس کے خلاف ساکرو کی تقریباً چھے ہزار خواتین نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ انہیں شیرازیوں کے لوگوں نے ووٹ ڈالنے سے روکا ہے۔ دوسری جانب سسی پلیجو نے بھی الیکشن ٹریبونل میں درخواست دائر کی ہوئی ہے، جس پر جلد فیصلہ آنے والا ہے۔
انہوں نے الیکشن میں دھاندلیوں کے ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ اسی طرح 237 ٹھٹھہ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے کام یاب امیدوار صادق میمن کو دہری شہریت کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ضمنی الیکشن کی تیاریاں شروع ہوئیں تو شیرازیوں نے وڈیروں سے اپنے رابطے تیز کر دیے۔ پولنگ بڑے پُر امن اور خوش گوار ماحول میں ہوئی، جس میں پی پی پی کی امیدوار شمس النساء میمن نے شیرازی گروپ کے سید ریاض شاہ کو کئی ہزار ووٹوں سے شکست دے دی اور شیرازی گروپ کی جانب سے انتخابات میں جاتی سے کام یاب ہونے والے محمد علی ملکانی نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔
اس طرح پیپلز پارٹی کے پاس تین جب کہ شیرازی گروپ کے پاس تین نشستیں ہیں جب کہ ساکرو کی نشست پر الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنا ہے۔ ملکانیوں کی علیحدگی کے بعد شیرازیوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا اور انہوں نے ایک بار پھر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ سید اویس مظفر کی جانب سے سجاول کو ضلع بنانے کے اعلان پر شیرازیوں نے سخت احتجاج کیا اور مختلف ریلیاں بھی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر نکالیں، مگر سجاول کو ضلع بنا دیا گیا۔ اس پر مقامی لوگوں نے خوشی میں ریلیاں بھی نکالیں۔ ضلع کے قیام پر ٹھٹھہ کی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔
پچھلے دنوں سید اویس مظفر سے گھارو میں شیرازی برادری کی اہم شخصیت حاجی خان خاصخیلی، وڈیرہ زمان خاصخیلی نے سید اویس مظفر، سسی پلیجو اور غلام قادر پلیجو سے ملاقات کی اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد عبدالغنی، رئیس حسین ھلایو، رسول بخش جاکھرو، طفیل تھہیم جیسی اہم شیرازی برادری کی شخصیات نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھاکہ شیرازی برادری کو جنگ شاہی سے ووٹ دلانے والے کارکن غلام نبی بلوچ نے بھی شیرازی برادران سے تعلق ختم کر کے اپنے ساتھیوں سمیت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس صورت حال میں متوقع بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کام یابی واضح نظر آرہی ہے۔