سیاست دانوں کا عوام سے رابطہ
حلقہ بندیوں نے قبائل اور برادریوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنا دیا ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے مقامی سطح پر سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔
حکومت سندھ کی ہدایات پر خیرپور ضلع میں ہونے والی حلقہ بندیوں پر یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مختلف افراد نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی داخل کروائے ہیں۔ ان میں صوبے کی حکم راں جماعت پیپلز پارٹی سے وابستہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ خیرپور میں بلدیاتی انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ کے درمیان ہو گا۔ حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد خیرپور میں تین شہروں، خیرپور، گمبٹ، کنگری کو میونسپل کمیٹی جب کہ فیض گنج، رانی پور، صوبھو ڈیرو، کنب، نارو سمیت دیگر شہروں کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ ضلع کی 76یونین کونسلوں کی تعداد بڑھا کر 100 کر دی گئی ہے۔
خیرپور شہر کی 5 یونین کونسلوں شاہ لطیف، لقمان، بھرگڑی، جیلانی اور بخاری کو وارڈز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ان حلقہ بندیوں کے بعد مقامی آبادی کی طرف سے انتظامیہ پر مفادات اور من مانی کا الزام عائد کیا جارہا ہے اور مختلف برادریاں اور قبائل ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں۔ عوامی شکایات اور تجاویز کو اہمیت نہ دی گئی تو یہاں بلدیاتی الیکشن کے دوران خون خرابے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلدیاتی انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور عوام کے ساتھ رابطے بڑھائے جارہے ہیں۔
ضلع میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سیدہ نفیسہ شاہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے رکن صوبائی اسمبلی پیر محمد راشد زاہ نے مقامی راہ نماؤں اور کارکنوں ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ عام انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کے اسمبلی تک نہ پہنچنے والے سیاسی راہ نما بھی بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ذاتی مفادات اور عہدوں کے حصول کی خاطر سیاسی میل جول اور رابطے بڑھا رہے ہیں۔
خیرپور میں حلقہ بندیوں کے دوران من مانی کے باوجود پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ فنکشنل سے کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ پیر محمد راشد اس وقت عوامی مسائل کے حل اور اپنے حلقے کے مغویوں کی بازیابی جیسے معاملات پر احتجاجی مظاہروں کی خود قیادت کررہے ہیں، جس سے عوام پر ان کا اچھا اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ، صوبائی وزیر منظور حسین وسان، اراکین قومی اسمبلی نواب خان وسان، ڈاکٹر مہرین بھٹو، اراکین صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی، نعیم احمد کھرل، ڈاکٹر رفیق بھانبھن، غزالہ سیال اور دیگر نے خیرپور کے مختلف علاقوں کا دورہ شروع کر دیا ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ خیرپور آئے اور سابق رکن قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ کے والد معروف سیاسی، سماجی شخصیت سید امید علی شاہ المعروف ڈاڈا شاہ کی 34 ویں برسی کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر قائم علی شاہ نے کہاکہ متحدہ سے لندن اور دبئی میں ہونے والی بات چیت ناکام نہیں ہوئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ متحدہ صوبائی حکومت میں شامل ہو۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ قاسم آباد کو ضلع بنانے کا معاملہ زیر غور ہے۔ حکومت بلدیاتی انتخابات شفاف طریقے سے کروانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ڈاڈا شاہ کو عوام دوست اور سیاست کے میدان میں اپنا راہ نما بتایا۔
گذشتہ ہفتے صوبائی وزیر منظور حسین وسان نے بھی اپنے حلقے کا دورہ کیا اور کارکنوں کے ساتھ مقامی لوگوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے مختلف تقریبات میں شرکت کی اور اس موقع پر کہاکہ کارکن بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کریں۔ ہم اس میں بھرپور حصہ لیں گے اور کام یابی حاصل کریں گے۔
حکومت سندھ کی ہدایات پر خیرپور ضلع میں ہونے والی حلقہ بندیوں پر یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مختلف افراد نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی داخل کروائے ہیں۔ ان میں صوبے کی حکم راں جماعت پیپلز پارٹی سے وابستہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ خیرپور میں بلدیاتی انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ کے درمیان ہو گا۔ حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد خیرپور میں تین شہروں، خیرپور، گمبٹ، کنگری کو میونسپل کمیٹی جب کہ فیض گنج، رانی پور، صوبھو ڈیرو، کنب، نارو سمیت دیگر شہروں کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ ضلع کی 76یونین کونسلوں کی تعداد بڑھا کر 100 کر دی گئی ہے۔
خیرپور شہر کی 5 یونین کونسلوں شاہ لطیف، لقمان، بھرگڑی، جیلانی اور بخاری کو وارڈز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ان حلقہ بندیوں کے بعد مقامی آبادی کی طرف سے انتظامیہ پر مفادات اور من مانی کا الزام عائد کیا جارہا ہے اور مختلف برادریاں اور قبائل ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں۔ عوامی شکایات اور تجاویز کو اہمیت نہ دی گئی تو یہاں بلدیاتی الیکشن کے دوران خون خرابے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلدیاتی انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور عوام کے ساتھ رابطے بڑھائے جارہے ہیں۔
ضلع میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سیدہ نفیسہ شاہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے رکن صوبائی اسمبلی پیر محمد راشد زاہ نے مقامی راہ نماؤں اور کارکنوں ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ عام انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کے اسمبلی تک نہ پہنچنے والے سیاسی راہ نما بھی بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ذاتی مفادات اور عہدوں کے حصول کی خاطر سیاسی میل جول اور رابطے بڑھا رہے ہیں۔
خیرپور میں حلقہ بندیوں کے دوران من مانی کے باوجود پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ فنکشنل سے کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ پیر محمد راشد اس وقت عوامی مسائل کے حل اور اپنے حلقے کے مغویوں کی بازیابی جیسے معاملات پر احتجاجی مظاہروں کی خود قیادت کررہے ہیں، جس سے عوام پر ان کا اچھا اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ، صوبائی وزیر منظور حسین وسان، اراکین قومی اسمبلی نواب خان وسان، ڈاکٹر مہرین بھٹو، اراکین صوبائی اسمبلی نصرت سحر عباسی، نعیم احمد کھرل، ڈاکٹر رفیق بھانبھن، غزالہ سیال اور دیگر نے خیرپور کے مختلف علاقوں کا دورہ شروع کر دیا ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ خیرپور آئے اور سابق رکن قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ کے والد معروف سیاسی، سماجی شخصیت سید امید علی شاہ المعروف ڈاڈا شاہ کی 34 ویں برسی کی تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر قائم علی شاہ نے کہاکہ متحدہ سے لندن اور دبئی میں ہونے والی بات چیت ناکام نہیں ہوئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ متحدہ صوبائی حکومت میں شامل ہو۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ قاسم آباد کو ضلع بنانے کا معاملہ زیر غور ہے۔ حکومت بلدیاتی انتخابات شفاف طریقے سے کروانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ڈاڈا شاہ کو عوام دوست اور سیاست کے میدان میں اپنا راہ نما بتایا۔
گذشتہ ہفتے صوبائی وزیر منظور حسین وسان نے بھی اپنے حلقے کا دورہ کیا اور کارکنوں کے ساتھ مقامی لوگوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے مختلف تقریبات میں شرکت کی اور اس موقع پر کہاکہ کارکن بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں کریں۔ ہم اس میں بھرپور حصہ لیں گے اور کام یابی حاصل کریں گے۔