سانحہ راولپنڈیکچھ ذمہ داری عوامی رہنماؤں کی بھی بنتی ہے

راجا بازار راولپنڈی میں ہونے والے بدنما واقعات محض انتظامی نااہلی نہیں ہماری کوتاہی کا بھی نتیجہ ہے۔

ٹیلی ویژن سکرین پر آنے والے شعبدے باز رہنما کشت وخون اور لوٹ مار کے دوران کہاں غائب تھے۔ فوٹو : فائل

میاں نوازشریف کو تیسری باروزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے چھ ماہ ہونے کو ہیں مگر جون سے اب تک ہر آنے والا دن میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کیلئے پہلے سے بڑی مشکل لے آتا ہے۔

خارجہ محاذ پر ورثے میں ملی چند لڑائیاں، رنجشیں اور ان کے برے اثرات سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف وزیر اعظم پاکستان کو ابھی قدرے کامیابی کی امید پیدا ہی ہوتی ہے تو توانائی کا ورثے میں ملا اژدھا اپنے زہر آلود اثرات کی پھنکار سناتا دکھائی دیتا ہے ۔

ڈرون حملوں اور توانائی کے بحران سے نجات حاصل کرنے کی کوششیں ابھی پوری قوم کو یکجہتی کے ایک ہار میں پرونے کے لئے ابھی جاری ہی تھیں کہ داخلی محاذ پر حکیم اللٰہ محسود کی ہلاکت اور اب سانحہ راولپنڈی نے تو جیسے حکومت وقت کی منصوبہ بندیوں کے استوار کردہ تمام محل دھڑام سے زمیں بوس کر دیئے۔ دسویں محرم کے روز راجا بازار راولپنڈی میں ہونے والے بدنما واقعات کو ہم سب یک زبان ہو کر محض انتظامی نااہلی قرار دے رہے ہیں مگر درحقیقت ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کے دیکھیں تو یہ انتظامی نااہلی کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی ،سماجی اور انسانی نااہلی ہے کہ ڈی سی او اور سی پی او کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ یہاں ہر بڑے شہر میں امن کمیٹیاں،انجمن تاجران ،شہری دفاع،طلبہ تنظیمیں،مقامی کونسلرز،صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین سمیت مختلف اشکال اور صورتوں میں اتنے نمائندہ افراد اور شخصیات ہیں کہ شاید ہی یہ کسی اور معاشرے میں ہو۔

ہر نوع اور درجے کے ان معززین شہر کا ذاتی مسئلہ حتٰی کہ ان کے کسی قریبی عزیز کا جنازہ ہو تو صفوں کی تعداد اور اگر شادی ہو تو بارات میں شامل گاڑیوں کی تعداد کی گنتی میں فکرمند رہتے ہیں کہ ان کی معاشرے میں حیثیت اور اثرورسوخ کہیں کم دکھائی نہ دے ، مگر افسوس صد افسوس کہ اس ملک میں جب کسی مسجد یا امام بارگاہ کی مشتعل افراد کے ہاتھوں توڑ پھوڑ یا جلانے جیسے انتہائی قابل نفرت عمل کا ارتکاب ہوتا ہے تو فرزند شہر اور فرزند صوبہ کہلانے اور پورے کے پورے علاقے اور شہر اپنی مٹھی میں سمجھنے اور اس کا برملا اظہار کرنے والے سانحہ راولپنڈی کے روز کہیں نظر نہ آئے۔

ٹیلی ویژن سکرین پر آنے کے شوقین ان شعبدہ باز عوامی رہنماوں سے جب چند سینئر صحافیوں نے سیدھا سا سوال پوچھا کہ آپ تین گھنٹے تک جاری رہنے والے کشت وخون اور لوٹ مار کے دوران کہاں تھے اور آپ نے عوامی نمائندے کی حیثیت سے موقع پر پہنچ کر مشتعل افراد کو ایسا کرنے سے کیوں نہ روکا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ فرزند راولپنڈی کہلائے جانے کے دعویدار شیخ رشید احمد نے تو ایکسپریس نیوز سے ایک براہ راست ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران راولپنڈی کے عوام کے دل کی آواز کے عین مطابق پوچھے گئے اس سوال کا جواب نہ بن پڑنے پر ٹیلی فون بند کرکے لائیو پروگرام سے بھاگ جانے میں عافیت جانی۔




البتہ اس سے چند منٹ پہلے انھوں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ انھوں نے از خود انتظامیہ سے اس واقعے کے حوالے سے رابطہ نہ کیا۔ جہاں عوام کے منتخب نمائندے انتظامیہ سے از خود رابطہ کرنے کو اپنے لئے انا کا مسئلہ بنائے رکھیں اور دوسری طرف حکومت پنجاب کے ذمہ داران عوام کے منتخب نمائندوں کو محض اس لئے اہم میٹینگز میں شرکت کی دعوت نہ دیں کہ وہ تو حکومتی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور گیارہ مئی کے عام انتخابات میں عوام کی جانب سے بھاری ووٹوں سے مسترد کئے گئے عناصر کو اہم اجلاسوں میں بٹھا کر عوام کی قسمت کے فیصلے کئے جاتے رہیں تو پھر آج ہم بحیثیت قوم اورسماج بے سمت ہیں تو اس میں قصور کسی اور کا نہیں ہمارا اور ہمارے نمائندوں کا ہے۔

سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے جتنا افسوس کیا جائے کم ہے مگر اب ازالے کی واحد صورت یہ ہے کہ آئندہ کسی وطن دشمن کو معاملات اپنے کنٹرول میں نہ لینے دیں اور یہ بہت ہی ممکن ہے جب ہم بحیثیت انسان،عوامی رہنما،تاجر لیڈرسماجی ورکر، انتظامی اہلکار و افسران یا منتخب نمائندہ کے طور پر اپنی اپنی جگہ پر اپنا قومی فرض ادا کریں ۔ ناخوشگوار واقعات یا صورتحال میں موقع سے بھاگ کر جان بچانے کے بجائے اپنا قومی فرض سمجھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں۔

سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے میڈیا کے کردار کو سراہا نہ جانا کسی بڑی کوتاہی سے کم نہیں کہ وطن عزیز کی حالیہ تاریخ میں ایسا موقع بہت سی آنکھوں نے پہلے نہ دیکھا ہوگا کہ آگ اور خون کی اس ہولی کے دوران ہمارے میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ ٹیلی ویژن چینلز نے ریٹنگ کی روایتی دوڑ میں پڑنے کے بجائے قومی ذمہ داری کو اہم جانا، اس کے مثبت اثرات بھی پوری قوم نے دیکھے ، البتہ سانحہ راولپنڈی کے دوتین روز بعد بعض اینکر پرسنز نے پھر ریٹنگ کی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے ٹاک شوز میں فرقہ واریت کو ہوا دینا شروع کر دی جس کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا جانا بہت ضروری ہیں۔

سانحہ راولپنڈی سے توجہ ہٹانے کیلئے ہی سہی آرٹیکل چھ کے اطلاق کا پنڈوا باکس کھول دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کیلئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہ تھا کہ وہ خود سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے متاثرین میں شامل ہیں اب وزارت عظمیٰ کا قلمدان ہاتھ میں سنبھالے ایسے شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا حکم دینا احساس رکھنے والے شخص کیلئے آسان نہ تھا اور اس احساس کی بدولت انھوں نے براہ راست از خود ہائیکورٹس کے ججز پر مشتمل خصوصی عدالت قائم کرنے کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب معاملے کا رخ موڑ دیا ۔ اب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ جو بھی فیصلہ کرے اس پر وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے گا کہ عدالت ان کی اپنی قائم کردہ نہیں۔

البتہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری اور ان پر آرٹیکل چھ کے اطلاق کا مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اب اس پنڈورا بکس کے ضمنی اثرات اور اس آئینی غداری کے طوفان کی لپیٹ میں آنے والوں کے اثرورسوخ اور سیاسی و سماجی و عالمی دباؤ کا بھی انہیں جوانمردی سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ آرٹیکل چھ کے اطلاق کے حوالے سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف کاروائی کے فیصلے سے اگر قابل ذکر نتائج حاصل نہ ہوئے تو یہ میاں نواز شریف کے سیاسی کیریئر اور ان کی سیاسی بصیرت کا بھی امتحان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت کسی نامعلوم معاہدے کے تحت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سیاسی اعتبار سے ٹف ٹائم نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے مگر تحریک انصاف کے عمران خان اور ان کے سیاسی پیروکار ایسا کسی صورت کرنے کو تیار نہیں۔

نیٹو سپلائی رکوانے کے لئے وہ تیئس نومبر کو سڑکوں پر نکلنے کیلئے اپنی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں ۔دفاع پاکستان کونسل نے بھی انہیں بھر پور تعاون کا یقین دلادیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے چند بڑے شہروں کی حد تک احتجاج ضرور کامیاب ہوگا۔ البتہ 23 نومبر کی شام عمران خان اور ان کے ساتھی آئندہ احتجاج کے حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں یہ انتہائی اہم ہو گا اور توقع کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے معتمد خاص پاکستان تحریک انصاف کے امریکی ڈروں حملوں کے خلاف ظاہر کیے جانے والے متوقع غم وغصے کو انتہائی سمجھ داری سے حکومت پاکستان کے خلاف احتجاج کی صورت بننے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ وطن عزیز کے موجودہ حالات مزید توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کے ہرگز متحمل نہیں ہیں۔
Load Next Story