بہترگورننس سے درپیش مسائل پر قابوپایا جاسکتا ہے
وزیراعظم تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں: شرکاء کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
تحریک انصاف کی حکومت کو اتحادی جماعتوں کی جانب سے ناراضی کا سامنا ہے جنہیں منانے کیلئے حکومت کی جانب سے کوششیں جاری ہیں مگر تاحال خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوسکی۔ یہ مسئلہ مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے اورا س پر بیشتر آراء سامنے آرہی ہیں۔ اس معاملے کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے ''حکومتی اتحاد اور اس کا مستقبل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
بیگم مہناز رفیع
(سینئر سیاستدان و تجزیہ نگار)
تحریک انصاف کو خوف ہے کہ اب اسے نچلی سطح پر ووٹ نہیں ملیں گے، یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جارہے۔میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا نظام لانے سے عوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے بغیر انتظامی امور ٹھیک طریقے سے نہیں چلائے جاسکتے لہٰذا جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔
عمران خان منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔وہ اکثر بتاتے ہیں کہ کس طرح کرکٹ میں کامیاب ہوئے اور پھر شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا۔ اُس کام میں ان کی کوئی اپوزیشن نہیں تھی مگر اب انہیں اپوزیشن کا سامنا ہے۔ مجھے کرکٹ کے میدان والے عمران خان نظر نہیں آرہے جو ہر چیلنج سے ٹکرانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جس شخص کو جدوجہد کی عادت ہوتی ہے اور جیتنے کا جذبہ ہوتا ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے لہٰذاعمران خان آج بھی ڈٹ جائیں تو ملک کو مسائل سے چھٹکارہ دلوا سکتے ہیں۔ عمران خان کو جماعت کے اندر سے بھی اپوزیشن کا سامنا ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو روایتی سیاست کے حامی ہیں۔ وہ ماضی میں اسی سسٹم کے عادی رہے اور ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے بناتے رہے ہیں۔
اب بھی وہ جلد از جلد فنڈز چاہتے ہیں۔ سابق حکومت نے بیوروکریسی کو بھی بہت نوازا تھا، اب بیوروکریسی عمران خان کے خلاف ہے اور انہیں ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ق لیگ الیکشن میں حکومت کے ساتھ تھی۔ پرویز الٰہی کو یقین تھا کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنیں گے اور وہ بارہااپنی کارکردگی کو شہباز شریف کی کارکردگی سے بہتر قرار دیتے رہے۔ عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا دیا جو کسی کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ق لیگ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے، دیگر اتحادی بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کرے، میرے نزدیک عمران خان کو اتحادی جماعتوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے چاہئیں مگر اتحادیوں کو بھی ملکی مفاد میں سوچنا چاہیے۔
کرپشن پر جتنے لوگ پکڑے گئے وہ ایک ایک کرکے باہر آرہے ہیں اور حکومت کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں نکلوا سکی۔ یہ سوالیہ نشان ہے۔ عمران خان بے بس نظر آرہے ہیں، انہیں مافیا کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ عمران خان کو نئے صوبوں کی بات کرنی چاہیے۔ اگر وہ اس بار نئے صوبے نہیں بنا سکیں گے تو وہ لوگ جو صوبوں کے حق میں ہیں، آئندہ الیکشن میں ان کا ساتھ دیں گے اور اس طرح ان کا ووٹ بینک بھی متاثر نہیں ہوگا۔ نئے الیکشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے، عمران خان کو گڈ گورننس پر زور دینا ہوگا۔ اگر لوگوں کو سہولیات ملتی رہیں تو وہ ان کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)
حکومت کہیں نہیں جارہی اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔ اتحادی جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رہیں گی اور یہ حکومت پانچ سال مکمل کرے گی۔ نئے انتخابات مسائل کا حل نہیں، ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے اور عمران خان کا متبادل کوئی لیڈر موجود نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک، عمران خان تبدیلی کے وعدے کو پورا کرنے کی طرف نہیں آسکے بلکہ انہوں نے ہر موقع پر مصلحت سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے مایوسی کا عالم ہے۔جو لوگ عمران خان کی تبدیلی کے ویژن کے ساتھ تھے وہ اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے وہ سیاسی لیڈر جنہوں نے عوام میں تبدیلی کے نعرے پر اپنی مقبولیت بنائی، وہ بھی اب وزیر اعظم کے قریبی حلقے میں شامل نہیں ہیں۔ اس سب کے باوجود لوگوں کو صرف عمران خان سے امید ہے کہ وہ تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ان کے ارد گرد موجود لوگ روایتی سیاستدان ہیں جو تبدیلی نہیں ، مفادات کی سیاست چاہتے ہیں۔
عمران خان اقتدار میں رہنے کیلئے سمجھوتے کر رہے ہیں جس سے عوام میں ان کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔عمران خان کے اتحادیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، ماسوائے یہ کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ البتہ ق لیگ و دیگر اتحادی اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا ہے۔ڈاکٹر محبوب الحق کے مطابق حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے عام آدمی کو کتنافائدہ مل رہا ہے۔ عمران خان چور ، ڈاکو کو پکڑنے اور روشن مستقبل کی جتنی مرضی باتیں کریں، اگر عوام کو ریلیف نہیں مل رہا تو ان باتوںکا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو ان میں دلچسپی ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافہ تو آئی ایم ایف وسابق حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے مگر موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس کی وجہ سے شہریوں کو ملنے والی سہولیات میں کمی آرہی ہے۔ اس وقت سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گلی محلوں میں کوڑے کے ڈھیر ہیں، سٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود نہیں ہیں، اس کے علاوہ بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ حکومت کے خلاف ہو رہے ہیں۔ سابق دور حکومت میں جنوبی پنجاب کے لوگ نظر انداز ہوتے تھے مگر اب مرکزی و شمالی پنجاب کے لوگ نظر انداز ہورہے ہیں، اب وسائل جنوبی پنجاب میں خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ باقی حصوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔عمران خان نے عوام سے بہت سارے وعدے کیے جو تاحال پورے نہیں ہوئے۔ میرے نزدیک ابھی بھی وقت ہے اور وہ ڈیلور کر سکتے ہیں۔
بیڈ گورننس کا حل تحریک انصاف کے منشور میں کیے گئے دو وعدوں پر عمل کرنے میں ہے۔پہلا وعدہ مقامی حکومتوں کا نظام جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ ملائیشیا، سنگاپور یا دنیا میں جہاں بھی گورننس کا ماڈل کامیاب ہے، وہاں بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں۔ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو مارشل لاء دور میں گورننس بہتر رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مارشل لاء دور میں بلدیاتی ادارے قائم کیے گئے جبکہ سیاستدان بلدیاتی ادارے نہیں بننے دیتے۔ وہ لوکل باڈیز کو اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ اب بھی عمران خان پر دباؤ ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جائیں۔
سڑکیں، کوڑا کرکٹ، صحت و دیگر مسائل کا تعلق مقامی اداروں سے ہے، ایم این اے یا ایم پی اے سے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے 2 برس میں مقامی ادارے قائم کرنے کیلئے کیا کیا؟اس حوالے سے حکومتی کارکردی صفر ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔شہباز شریف، عثمان بزادر کے مقابلے میں بہت متحرک تھے۔ ان کے متحرک ہونے کے باوجود پنجاب میں گورننس کے مسائل تھے۔ ہمارے صوبوں کا حجم بہت بڑا ہے، پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی نئے صوبے بنانے چاہئیں۔ اگر عمران خان عوام کے ہمدرد ہیں اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر سوچ رہے ہیں تو انہیں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا چاہیے۔
ہمارے ہاں مفاد پرست طبقے نے عمران خان کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ مقامی حکومتیں قائم کرنے سے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ سمجھوتہ کرنے سے عمران خان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی۔ انہیں سب سے پہلے گورننس کے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا، اگر عوام ساتھ ہونگے تو مافیا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار)
جس طرح سیاسی جماعتیں سیاسی نظام کا اہم حصہ ہوتی ہیں اسی طرح سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اور پاکستان میں بھی جب جماعتیں انتخابی سیاست میں جاتی ہیں تو بسااوقات اتحاد کرتی ہیں۔ اس اتحاد کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ نظریہ کی بنیاد پر اتحاد بنتے ہیں۔ ایک جیسا نظریہ رکھنے والی جماعتیں انتخابات سے پہلے آپس میں اتحاد کرلیتی ہیں اور انتخابات میں اکٹھے شامل ہوتی ہیں جبکہ دوسرا اتحاد الیکشن کے بعد ہوتا ہے جو حکومت بنانے کیلئے ہوتا ہے۔ انتخابات سے پہلے بننے والے اتحاد سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں، ان میں زیادہ مجبوریاں نہیں ہوتی اور وہ خاص پروگرام کے تحت بنائے جاتے ہیں مگر الیکشن کے بعد بننے والے اتحاد غیر فطری ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی جماعتیں جن کا الیکشن میں مقابلہ کیا ہوتا ہے ان کے ساتھ بھی اتحاد بنانا پڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال ہم نے 2018ء کے انتخابات میں دیکھی کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف مدمقابل تھے مگر انتخابات کے بعد دونوں میں اتحاد بن گیا۔ غیر فطری اتحاد کی زندگی زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ جلد یا بعد دیر اس اتحاد نے اپنے منفی اثرات دکھانا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی نظام کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ غیر فطری اتحاد ہیں۔جب بھی اس طرح کے اتحاد بنائے گئے تو ان کا نقصان ہوا۔ ایسے اتحاد کے نتیجے میں بننے والی حکومت مضبوط نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ بڑے فیصلے کر سکتی ہے، اسے ہر وقت اپنے اتحادیوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور پھر وہ بلیک میل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وزیراعظم، وزیر اعلیٰ و سربراہ کو اپنے منشور سے ہٹ کر سمجھوتہ کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے جس سے نہ صرف انہیں سیاسی طور پر نقصان ہوتا ہے بلکہ ملک کو معاشی و سماجی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ باتیں موجودہ حکومتی اتحاد میں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ جلد بازی میں نمبر گیم پوری کرکے حکومت بنا لی گئی مگر اس طرح سے حکومت نہیں چلتی ، مصنوعی طریقے سے سیاسی نظام چلانے کے نتائج خطرناک ہوںگے۔ موجودہ بحران کا واحد حل نئے انتخابات ہیں، جو صاف و شفاف ہوں اور اس میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی طریقے سے ہی آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ وہ نظام کی خرابیوں کو دور کرسکیں۔
سارے اتحادی بند گلی میں جاچکے ہیں۔ ان حالات میں اگر 'ان ہاؤس' تبدیلی کی جاتی ہے تو وہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گی کیونکہ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے اثرات ہوں گے جبکہ دوسرا یہ کہ تبدیلی کے بعد بننے والی حکومت بھی آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ جو بھی آئے گا اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ ملکی سیاست میں کشمکش اور غیریقینی کی صورتحال فطری ہے کیونکہ یہ اتحاد غیر فطری ہے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز اور مقامی حکومتیں نہ بنانا، ہماری روایتی سیاست میں اتحادیوں کے مفاد میں رہا ہے۔ اب بھی وہ یہ چاہتے ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال میں حکومت کے خاتمے سے پہلے پہلے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
خوف و ہراس کی وجہ سے سیاسی نظام میں جمود ہے، سیاسی و معاشی بہتری کیلئے سیاسی نظام ٹھیک کرنا ہوگا، اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہی کام کرنے دیا جائے اور نیب و دیگر اداروں کے ذریعے خوف کی فضا پیدا نہ کی جائے۔ اس وقت نئے انتخابات کی ضرورت ہے، اگر نہ کروائے گئے تو ناقابل تلافی معاشی نقصان ہوگا۔حکومت اگر نئی کمیٹی کے ذریعے اتحادیوں کو منا بھی لیتی ہے تو ایک ماہ بعد کوئی دوسری جماعت ناراض ہوجائے گی۔ اتحادیوں کو معلوم ہے کہ حکومت بڑی کمزور پوزیشن پر کھڑی ہے اور انہیں اپنی اہمیت کا معلوم ہے، اسی لیے وہ حکومت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
حکومت میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی بحرانی کیفیت ہے۔ اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکی۔ اس کے علاوہ امریکا، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا و دیگر ممالک سے تعلقات بھی میں مسائل درپیش ہیں۔ حکومت کی معاشی، سیاسی و خارجہ پالیسی میں کنفیوژن نظر آرہی ہے، معلوم ہی نہیں کہ حکومت کی سمت کیا ہے؟ اس کی وجہ حکومت بنانے میں بنیادی خرابیاں ہیں جن کے اثرات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(سیاسی تجزیہ نگار)
اداروں کے بجائے شخصیات کو مضبوط کرنے کی وجہ سے آج ملک مسائل سے دوچار ہے۔ سب شخصیات کو خوش کرنے میں لگے رہے اور اداروں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے سیاست، معیشت اور سکیورٹی کے حوالے سے آؤٹ لک 2020ء کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں 2020ء کے حوالے سے پیش گوئی کی جو کافی حد تک پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2020ء میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے بڑھ جائے گی،پیداوار کم ہوگی، غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہوگااور سیاسی صورتحال کشیدہ ہوگی ۔
اب حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ بلوچستان میں اختر مینگل، پنجاب میں ق لیگ، کراچی میں ایم کیو ایم حکومت سے ناراض نظر آتی ہے اور ان کی وجہ سے اس وقت سیاست ماحول میں کشمکش ہے۔ اندرونی تناؤ کے اثرات بیرونی سطح پر بھی ہو رہے ہیں۔ کوالالمپور سمٹ میں نہ جانا اور پھر وزیراعظم کی جانب سے اسے بڑی غلطی قرار دینا مناسب نہیں، قومی سطح پر ایسی غلطیاں دنیا کی نظر میں معمولی نہیں ہوتیں۔
یہاں نئے شفاف انتخابات کی بات ہوئی، میرے نزدیک یہ حل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں کتنے الیکشن شفاف ہوئے؟ یہ طریقہ موجود ہے کہ وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کریں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں مگر سوال یہ ہے کہ کیا بیرونی و اندرونی چیلنجز کے پیش نظر یہ ممکن ہے؟ سول ملٹری قیادت کا ایک پیج پر ہونا خوش آئند قرار دیا جارہا تھا مگر اب تو اس کے علاوہ بہت سارے چیلنجز سامنے آگئے ہیں۔ اتحاد تو ماضی میں بھی بنے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟عمران خان ایک منفرد شخصیت رکھتے ہیں اور سفارش کو نہیں مانتے۔ وہ اتحادیوں کے کہنے پر اداروں کے سربراہان نہیں لگاتے جس کی وجہ سے بھی مسائل ہیں۔
ایم کیو ایم نے دوبارہ مردم شماری اور اپنے مراکز کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان کے مراکز تو رینجرز نہیں واپس کر رہی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ دوبارہ پرانی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ وہ نائن زیرو جہاں کوئی نہیں جاتا تھا اب سب جاسکتے ہیں۔ ریلوے کا معاملہ بھی ہے۔ ان تمام حالات میں کہیں میرٹ نظر نہیں آرہا۔ موجودہ حالات میں بیورو کریسی پس پردہ رہ کر اپنا کام کر رہی ہے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو میرٹ پر لگائے گئے ہیں۔ اتحادی جماعتیں حکومت کو بلیک میل کر رہی ہیں، سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت نے ان سے کیا وعدے کیے جو پورے نہیں ہورہے ؟ اتحادی جماعتوں کو حکومت سے کیا گیا معاہدہ سامنے لانا چاہیے تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا وعدے کیے گئے ہیں۔
عمران خان کو ان سے بلیک میل نہیں ہونا چاہیے بلکہ سختی دکھانی چاہیے، اگر انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا ہے تو ان کے مطالبات مان کر بار بار بلیک میل ہوتے رہیں۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی کا ہدف5.28 ٹریلن ڈالر مقرر کرنے کا کہا ہے جبکہ حکومت نے کہا کہ 4.5 ٹریلین سے آگے نہیں جاسکتے۔ آئی ایم ایف نے اس ہدف کو اگلی قسط سے مشروط کردیا ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہاں قومی اتحاد کی بات تو کی جاتی ہے مگر یہ اتحاد قومی معاملات کو نہیں دیکھ رہا۔ غربت، بے روزگاری، معاشی چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کو موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔
بیگم مہناز رفیع
(سینئر سیاستدان و تجزیہ نگار)
تحریک انصاف کو خوف ہے کہ اب اسے نچلی سطح پر ووٹ نہیں ملیں گے، یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جارہے۔میرے نزدیک مقامی حکومتوں کا نظام لانے سے عوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے بغیر انتظامی امور ٹھیک طریقے سے نہیں چلائے جاسکتے لہٰذا جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔
عمران خان منفرد شخصیت کے حامل ہیں۔وہ اکثر بتاتے ہیں کہ کس طرح کرکٹ میں کامیاب ہوئے اور پھر شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا۔ اُس کام میں ان کی کوئی اپوزیشن نہیں تھی مگر اب انہیں اپوزیشن کا سامنا ہے۔ مجھے کرکٹ کے میدان والے عمران خان نظر نہیں آرہے جو ہر چیلنج سے ٹکرانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جس شخص کو جدوجہد کی عادت ہوتی ہے اور جیتنے کا جذبہ ہوتا ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے لہٰذاعمران خان آج بھی ڈٹ جائیں تو ملک کو مسائل سے چھٹکارہ دلوا سکتے ہیں۔ عمران خان کو جماعت کے اندر سے بھی اپوزیشن کا سامنا ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو روایتی سیاست کے حامی ہیں۔ وہ ماضی میں اسی سسٹم کے عادی رہے اور ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے بناتے رہے ہیں۔
اب بھی وہ جلد از جلد فنڈز چاہتے ہیں۔ سابق حکومت نے بیوروکریسی کو بھی بہت نوازا تھا، اب بیوروکریسی عمران خان کے خلاف ہے اور انہیں ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ق لیگ الیکشن میں حکومت کے ساتھ تھی۔ پرویز الٰہی کو یقین تھا کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنیں گے اور وہ بارہااپنی کارکردگی کو شہباز شریف کی کارکردگی سے بہتر قرار دیتے رہے۔ عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنا دیا جو کسی کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ق لیگ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے، دیگر اتحادی بھی چاہتے ہیں کہ حکومت ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاسداری کرے، میرے نزدیک عمران خان کو اتحادی جماعتوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنے چاہئیں مگر اتحادیوں کو بھی ملکی مفاد میں سوچنا چاہیے۔
کرپشن پر جتنے لوگ پکڑے گئے وہ ایک ایک کرکے باہر آرہے ہیں اور حکومت کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں نکلوا سکی۔ یہ سوالیہ نشان ہے۔ عمران خان بے بس نظر آرہے ہیں، انہیں مافیا کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ عمران خان کو نئے صوبوں کی بات کرنی چاہیے۔ اگر وہ اس بار نئے صوبے نہیں بنا سکیں گے تو وہ لوگ جو صوبوں کے حق میں ہیں، آئندہ الیکشن میں ان کا ساتھ دیں گے اور اس طرح ان کا ووٹ بینک بھی متاثر نہیں ہوگا۔ نئے الیکشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے، عمران خان کو گڈ گورننس پر زور دینا ہوگا۔ اگر لوگوں کو سہولیات ملتی رہیں تو وہ ان کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)
حکومت کہیں نہیں جارہی اور نہ ہی قبل از وقت انتخابات ہوں گے۔ اتحادی جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رہیں گی اور یہ حکومت پانچ سال مکمل کرے گی۔ نئے انتخابات مسائل کا حل نہیں، ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے اور عمران خان کا متبادل کوئی لیڈر موجود نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک، عمران خان تبدیلی کے وعدے کو پورا کرنے کی طرف نہیں آسکے بلکہ انہوں نے ہر موقع پر مصلحت سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے مایوسی کا عالم ہے۔جو لوگ عمران خان کی تبدیلی کے ویژن کے ساتھ تھے وہ اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے وہ سیاسی لیڈر جنہوں نے عوام میں تبدیلی کے نعرے پر اپنی مقبولیت بنائی، وہ بھی اب وزیر اعظم کے قریبی حلقے میں شامل نہیں ہیں۔ اس سب کے باوجود لوگوں کو صرف عمران خان سے امید ہے کہ وہ تبدیلی لاسکتے ہیں۔ ان کے ارد گرد موجود لوگ روایتی سیاستدان ہیں جو تبدیلی نہیں ، مفادات کی سیاست چاہتے ہیں۔
عمران خان اقتدار میں رہنے کیلئے سمجھوتے کر رہے ہیں جس سے عوام میں ان کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔عمران خان کے اتحادیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، ماسوائے یہ کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ البتہ ق لیگ و دیگر اتحادی اپنے مطالبات منوانے کیلئے حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا ہے۔ڈاکٹر محبوب الحق کے مطابق حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس سے عام آدمی کو کتنافائدہ مل رہا ہے۔ عمران خان چور ، ڈاکو کو پکڑنے اور روشن مستقبل کی جتنی مرضی باتیں کریں، اگر عوام کو ریلیف نہیں مل رہا تو ان باتوںکا کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو ان میں دلچسپی ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافہ تو آئی ایم ایف وسابق حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے مگر موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس کی وجہ سے شہریوں کو ملنے والی سہولیات میں کمی آرہی ہے۔ اس وقت سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گلی محلوں میں کوڑے کے ڈھیر ہیں، سٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود نہیں ہیں، اس کے علاوہ بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے لوگ حکومت کے خلاف ہو رہے ہیں۔ سابق دور حکومت میں جنوبی پنجاب کے لوگ نظر انداز ہوتے تھے مگر اب مرکزی و شمالی پنجاب کے لوگ نظر انداز ہورہے ہیں، اب وسائل جنوبی پنجاب میں خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ باقی حصوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔عمران خان نے عوام سے بہت سارے وعدے کیے جو تاحال پورے نہیں ہوئے۔ میرے نزدیک ابھی بھی وقت ہے اور وہ ڈیلور کر سکتے ہیں۔
بیڈ گورننس کا حل تحریک انصاف کے منشور میں کیے گئے دو وعدوں پر عمل کرنے میں ہے۔پہلا وعدہ مقامی حکومتوں کا نظام جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ ملائیشیا، سنگاپور یا دنیا میں جہاں بھی گورننس کا ماڈل کامیاب ہے، وہاں بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں۔ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو مارشل لاء دور میں گورننس بہتر رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مارشل لاء دور میں بلدیاتی ادارے قائم کیے گئے جبکہ سیاستدان بلدیاتی ادارے نہیں بننے دیتے۔ وہ لوکل باڈیز کو اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ اب بھی عمران خان پر دباؤ ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جائیں۔
سڑکیں، کوڑا کرکٹ، صحت و دیگر مسائل کا تعلق مقامی اداروں سے ہے، ایم این اے یا ایم پی اے سے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے 2 برس میں مقامی ادارے قائم کرنے کیلئے کیا کیا؟اس حوالے سے حکومتی کارکردی صفر ہے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔شہباز شریف، عثمان بزادر کے مقابلے میں بہت متحرک تھے۔ ان کے متحرک ہونے کے باوجود پنجاب میں گورننس کے مسائل تھے۔ ہمارے صوبوں کا حجم بہت بڑا ہے، پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی نئے صوبے بنانے چاہئیں۔ اگر عمران خان عوام کے ہمدرد ہیں اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر سوچ رہے ہیں تو انہیں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا چاہیے۔
ہمارے ہاں مفاد پرست طبقے نے عمران خان کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ مقامی حکومتیں قائم کرنے سے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ سمجھوتہ کرنے سے عمران خان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی۔ انہیں سب سے پہلے گورننس کے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا، اگر عوام ساتھ ہونگے تو مافیا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔
ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار)
جس طرح سیاسی جماعتیں سیاسی نظام کا اہم حصہ ہوتی ہیں اسی طرح سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اتحاد غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اور پاکستان میں بھی جب جماعتیں انتخابی سیاست میں جاتی ہیں تو بسااوقات اتحاد کرتی ہیں۔ اس اتحاد کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ نظریہ کی بنیاد پر اتحاد بنتے ہیں۔ ایک جیسا نظریہ رکھنے والی جماعتیں انتخابات سے پہلے آپس میں اتحاد کرلیتی ہیں اور انتخابات میں اکٹھے شامل ہوتی ہیں جبکہ دوسرا اتحاد الیکشن کے بعد ہوتا ہے جو حکومت بنانے کیلئے ہوتا ہے۔ انتخابات سے پہلے بننے والے اتحاد سوچ سمجھ کر بنائے جاتے ہیں، ان میں زیادہ مجبوریاں نہیں ہوتی اور وہ خاص پروگرام کے تحت بنائے جاتے ہیں مگر الیکشن کے بعد بننے والے اتحاد غیر فطری ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی جماعتیں جن کا الیکشن میں مقابلہ کیا ہوتا ہے ان کے ساتھ بھی اتحاد بنانا پڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال ہم نے 2018ء کے انتخابات میں دیکھی کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف مدمقابل تھے مگر انتخابات کے بعد دونوں میں اتحاد بن گیا۔ غیر فطری اتحاد کی زندگی زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ جلد یا بعد دیر اس اتحاد نے اپنے منفی اثرات دکھانا ہوتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی نظام کے مضبوط نہ ہونے کی وجہ غیر فطری اتحاد ہیں۔جب بھی اس طرح کے اتحاد بنائے گئے تو ان کا نقصان ہوا۔ ایسے اتحاد کے نتیجے میں بننے والی حکومت مضبوط نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ بڑے فیصلے کر سکتی ہے، اسے ہر وقت اپنے اتحادیوں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور پھر وہ بلیک میل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وزیراعظم، وزیر اعلیٰ و سربراہ کو اپنے منشور سے ہٹ کر سمجھوتہ کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے جس سے نہ صرف انہیں سیاسی طور پر نقصان ہوتا ہے بلکہ ملک کو معاشی و سماجی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ باتیں موجودہ حکومتی اتحاد میں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ جلد بازی میں نمبر گیم پوری کرکے حکومت بنا لی گئی مگر اس طرح سے حکومت نہیں چلتی ، مصنوعی طریقے سے سیاسی نظام چلانے کے نتائج خطرناک ہوںگے۔ موجودہ بحران کا واحد حل نئے انتخابات ہیں، جو صاف و شفاف ہوں اور اس میں سیاسی جماعتوں کو سیاسی طریقے سے ہی آگے بڑھنے دیا جائے تاکہ وہ نظام کی خرابیوں کو دور کرسکیں۔
سارے اتحادی بند گلی میں جاچکے ہیں۔ ان حالات میں اگر 'ان ہاؤس' تبدیلی کی جاتی ہے تو وہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گی کیونکہ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے اثرات ہوں گے جبکہ دوسرا یہ کہ تبدیلی کے بعد بننے والی حکومت بھی آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ جو بھی آئے گا اس کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ ملکی سیاست میں کشمکش اور غیریقینی کی صورتحال فطری ہے کیونکہ یہ اتحاد غیر فطری ہے۔ ایم این ایز، ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز اور مقامی حکومتیں نہ بنانا، ہماری روایتی سیاست میں اتحادیوں کے مفاد میں رہا ہے۔ اب بھی وہ یہ چاہتے ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال میں حکومت کے خاتمے سے پہلے پہلے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
خوف و ہراس کی وجہ سے سیاسی نظام میں جمود ہے، سیاسی و معاشی بہتری کیلئے سیاسی نظام ٹھیک کرنا ہوگا، اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہی کام کرنے دیا جائے اور نیب و دیگر اداروں کے ذریعے خوف کی فضا پیدا نہ کی جائے۔ اس وقت نئے انتخابات کی ضرورت ہے، اگر نہ کروائے گئے تو ناقابل تلافی معاشی نقصان ہوگا۔حکومت اگر نئی کمیٹی کے ذریعے اتحادیوں کو منا بھی لیتی ہے تو ایک ماہ بعد کوئی دوسری جماعت ناراض ہوجائے گی۔ اتحادیوں کو معلوم ہے کہ حکومت بڑی کمزور پوزیشن پر کھڑی ہے اور انہیں اپنی اہمیت کا معلوم ہے، اسی لیے وہ حکومت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
حکومت میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی بحرانی کیفیت ہے۔ اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکی۔ اس کے علاوہ امریکا، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا و دیگر ممالک سے تعلقات بھی میں مسائل درپیش ہیں۔ حکومت کی معاشی، سیاسی و خارجہ پالیسی میں کنفیوژن نظر آرہی ہے، معلوم ہی نہیں کہ حکومت کی سمت کیا ہے؟ اس کی وجہ حکومت بنانے میں بنیادی خرابیاں ہیں جن کے اثرات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر زمرد اعوان
(سیاسی تجزیہ نگار)
اداروں کے بجائے شخصیات کو مضبوط کرنے کی وجہ سے آج ملک مسائل سے دوچار ہے۔ سب شخصیات کو خوش کرنے میں لگے رہے اور اداروں پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے سیاست، معیشت اور سکیورٹی کے حوالے سے آؤٹ لک 2020ء کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں 2020ء کے حوالے سے پیش گوئی کی جو کافی حد تک پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2020ء میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے بڑھ جائے گی،پیداوار کم ہوگی، غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہوگااور سیاسی صورتحال کشیدہ ہوگی ۔
اب حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ بلوچستان میں اختر مینگل، پنجاب میں ق لیگ، کراچی میں ایم کیو ایم حکومت سے ناراض نظر آتی ہے اور ان کی وجہ سے اس وقت سیاست ماحول میں کشمکش ہے۔ اندرونی تناؤ کے اثرات بیرونی سطح پر بھی ہو رہے ہیں۔ کوالالمپور سمٹ میں نہ جانا اور پھر وزیراعظم کی جانب سے اسے بڑی غلطی قرار دینا مناسب نہیں، قومی سطح پر ایسی غلطیاں دنیا کی نظر میں معمولی نہیں ہوتیں۔
یہاں نئے شفاف انتخابات کی بات ہوئی، میرے نزدیک یہ حل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں کتنے الیکشن شفاف ہوئے؟ یہ طریقہ موجود ہے کہ وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کریں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں مگر سوال یہ ہے کہ کیا بیرونی و اندرونی چیلنجز کے پیش نظر یہ ممکن ہے؟ سول ملٹری قیادت کا ایک پیج پر ہونا خوش آئند قرار دیا جارہا تھا مگر اب تو اس کے علاوہ بہت سارے چیلنجز سامنے آگئے ہیں۔ اتحاد تو ماضی میں بھی بنے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟عمران خان ایک منفرد شخصیت رکھتے ہیں اور سفارش کو نہیں مانتے۔ وہ اتحادیوں کے کہنے پر اداروں کے سربراہان نہیں لگاتے جس کی وجہ سے بھی مسائل ہیں۔
ایم کیو ایم نے دوبارہ مردم شماری اور اپنے مراکز کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ان کے مراکز تو رینجرز نہیں واپس کر رہی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ دوبارہ پرانی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ وہ نائن زیرو جہاں کوئی نہیں جاتا تھا اب سب جاسکتے ہیں۔ ریلوے کا معاملہ بھی ہے۔ ان تمام حالات میں کہیں میرٹ نظر نہیں آرہا۔ موجودہ حالات میں بیورو کریسی پس پردہ رہ کر اپنا کام کر رہی ہے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو میرٹ پر لگائے گئے ہیں۔ اتحادی جماعتیں حکومت کو بلیک میل کر رہی ہیں، سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت نے ان سے کیا وعدے کیے جو پورے نہیں ہورہے ؟ اتحادی جماعتوں کو حکومت سے کیا گیا معاہدہ سامنے لانا چاہیے تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا وعدے کیے گئے ہیں۔
عمران خان کو ان سے بلیک میل نہیں ہونا چاہیے بلکہ سختی دکھانی چاہیے، اگر انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا ہے تو ان کے مطالبات مان کر بار بار بلیک میل ہوتے رہیں۔ آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولی کا ہدف5.28 ٹریلن ڈالر مقرر کرنے کا کہا ہے جبکہ حکومت نے کہا کہ 4.5 ٹریلین سے آگے نہیں جاسکتے۔ آئی ایم ایف نے اس ہدف کو اگلی قسط سے مشروط کردیا ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہاں قومی اتحاد کی بات تو کی جاتی ہے مگر یہ اتحاد قومی معاملات کو نہیں دیکھ رہا۔ غربت، بے روزگاری، معاشی چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کو موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔