ٹارگٹ کلنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش ناکام

سندھ کی پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

یوم عاشور پر گڑ بڑ کے خدشات کے پیش نظر حکومت ، سیاسی و مذہبی جماعتیں اعصاب شکن صورت حال سے دو چار تھے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
عاشورہ محرم کراچی سمیت پورے سندھ میں خیریت سے گزر گیا ہے ۔

اس پر سندھ کی پولیس ، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ عاشورہ محرم پر گڑ بڑ کے خدشات کے پیش نظر حکومت ، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور سندھ کے عوام اعصاب شکن صورت حال سے دو چار تھے کیونکہ انٹیلی جنس کے اداروں نے کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں کو انتہائی حساس قرار دیا تھا ۔ اس حوالے سے بعض شر پسند عناصر کی منصوبہ بندی اور سازشوں کی بھی رپورٹس موصول ہوئی تھیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عاشورہ محرم سے قبل کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا رخ شیعہ اور سنی مسالک سے تعلق رکھنے والے بعض اہم افراد کی طرف موڑ دیا گیا تھا اور دو دن میں تقریباً 20 افراد کو قتل کردیا گیا تھا ۔

دہشت گردوں نے ٹارگٹ کلنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تاکہ وہ عاشورہ محرم کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی اپنی سازش میں کامیاب ہو سکیں ۔ اس پر سندھ پولیس اور رینجرز نے بروقت کارروائی کی اور حالات کو مزید خراب ہونے سے روکا ۔ کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ شیعوں اور سنیوں کے قتل میں ایک ہی سیاسی گروہ ملوث ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کرائے جائیں ۔ رینجرز حکام نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شاہد حیات کے مؤقف کی تائید کی ۔ کراچی پولیس کے سربراہ نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اس ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا ۔

اگرچہ یہ دہشت گرد گرفتار نہیں ہوئے ہیں لیکن ان کی ٹارگٹ کلنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش ناکام ہو گئی ۔ عاشورہ سے پہلے اس طرح کا قتل عام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے زیادہ پریشان کن تھا لہذا انہوں نے عاشورہ کے موقع پر امن وامان بر قرار رکھنے کے لیے بہت سخت اقدامات کئے ۔ نہ صرف امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوںکے روٹس کی کڑی نگرانی کی گئی بلکہ شہر کے مختلف علاقوں میں بھی دہشت گردوں کا پیچھا کیا گیا اور پولیس اور رینجرز نے مبینہ مقابلے میں 9 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا ۔ پولیس نے ان سے خودکش جیکٹس اور خطرناک اسلحہ بھی برآمد کیا ۔ بہرحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اجتماعی کوششیں کامیاب رہیں ۔

پورے پاکستان میں اگرچہ امن وامان کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے لیکن اس حوالے سے کراچی سب سے زیادہ حساس جگہ ہے ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کی کارروائی کے ڈانڈے بالآخر کراچی کی بدامنی سے جا کر ملتے ہیں ۔ جب تک کراچی میں امن قائم نہیں ہو گا ، تب تک پورے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ گزشتہ پچیس، تیس سال سے کراچی میں جاری دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا اور اس معاملے پر پاکستان کی مقتدر قوتوں نے اپنے سیاسی اور مخصوص مفادات کی خاطر سمجھوتہ کئے رکھا ۔




یہی وجہ ہے کہ مفتی منیب الرحمن جیسے ممتاز عالم دین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ راولپنڈی میں ہونے والا افسوس ناک واقعہ کراچی میں بولٹن مارکیٹ میں رونما ہونے والے واقعہ کا تسلسل ہے ۔ اگر بولٹن مارکیٹ کے واقعہ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے سزا دے دی جاتی تو راولپنڈی کا واقعہ رونما نہیں ہوتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی فرقہ وارانہ ، نسلی یا لسانی تصادم نہیں ہے بلکہ کچھ اور قوتیں ہمیں لڑانا چاہتی ہیں ۔ اس بات کا ادراک کراچی کی پچیس تیس سال کی صورت حال کا بغور جائزہ لینے سے ہو جاتا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لیے سیاسی مصلحتوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور یہاں ہونے والے ٹارگیٹڈ آپریشن کو کامیاب بنایا جائے ۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں اور تیسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے ، جو زیادہ سخت ہوگا لیکن پہلے دو مراحل میں وہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے ہیں ، جن کی توقع تھی ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران تھوڑے وقفے کے لیے ٹارگٹ کلنگ میں کمی ہوئی تھی لیکن اس کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے ، جو گزشتہ سات سال سے مسلسل جاری ہے اور جس میں کوئی لمبا وقفہ نہیں آیا ہے ۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کا یہ دعویٰ بھی مشکوک ہو گیا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے خوف سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد یا تو بھاگ گئے ہیں یا گرفتار ہو چکے ہیں ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ کارروائیاں کراچی کے علاقہ لیاری میں کیں مگر لیاری کے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے اور گزشتہ ہفتے مختلف گروہوں کی لڑائی میں 20 سے زیادہ افراد مارے گئے ۔ کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی بے گناہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ نہیں رک سکی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک ہونے والے ٹارگیٹڈ آپریشن کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا اور اس بات کا کھوج لگانا ہو گا کہ کہیں بعض قوتیں ماضی کی طرح آپریشن کا رخ کسی دوسری طرف موڑنے میں تو کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تاکہ اصل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو بچایا جا سکے۔ ٹارگیٹڈ آپریشن کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع کرنے سے پہلے گزشتہ دو مراحل کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا ۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے حکومت سندھ کے کہنے پر اگرچہ تاخیر سے ہی سہی ، چیف سیکرٹری سندھ کا تبادلہ کردیا ہے لیکن وہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے حوالے سے سندھ حکومت اور صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر اب بھی زیادہ توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ سندھ کی سیاسی قوتیں بار بار اس بات کی نشان دہی کر رہی ہیں کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کی سمت اگر درست نہ کی گئی تو تیسرا مرحلہ بھی پہلے والے دو مراحل کی طرح مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گا ۔ اب اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ کراچی کے مسئلے کا حقیقی ادراک نہ کیا جائے اور آپریشن کو محض ایک رسمی کارروائی بنا دیا جائے ۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ آپریشن کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے سے پہلے ایک بار پھر سندھ حکومت ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سندھ کی سیاسی قوتوں کے ساتھ مشاورت کرے ۔ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کی سرپرستی سیاسی جماعتوں اور حکومت میں بیٹھے ہوئے بعض افراد تو نہیں کر رہے ہیں جن کا مقصد صرف لوٹ مار مچانا اور عوام کو دہشت گردی کے چنگل میں پھنسانا ہے۔
Load Next Story