گڈگورننس کا دعویٰ اور سانحہ راولپنڈی
گزشتہ کئی برسوں سےہم یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ کوئی ’’مسلمان دوسرے مسلمان‘‘ کو تکلیف پہنچانے کا سوچ ہی نہیں سکتا
30 برس سے کچھ ماہ پہلے تک میں ایک جونیئر رپورٹر ہوا کرتا تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں جرائم اور امنِ عامہ کی صورتِ حال پر نظر رکھنا میری ذمے داری ہوا کرتی تھی۔ میں ایک محنتی اور صحافت کے ساتھ جنون کی حد تک وابستہ شخص تھا۔ اس کے باوجود جیسے ہی محرم کا مہینہ شروع ہوتا، ہمارے سٹی ایڈیٹر مجھے بارہا راولپنڈی جانے پر مجبور کرتے۔ مجھ سے تقاضا کرتے کہ میں راجہ بازار کے اِردگرد پھیلے محلوں سے متعلقہ پولیس والوں سے کرید کرید کر یہ پوچھتا رہوں کہ وہ یومِ عاشور کے موقع پر کسی ہنگامے کی توقع تو نہیں کر رہے اور اگر کسی گڑبڑ کے امکانات ہیں تو اس کے سدباب کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ جن دنوں کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ پاکستان میں فرقہ واریت کے ناسور کے حوالے سے کافی پر امن سمجھے جاتے تھے، اس کے باوجود میرے سٹی ایڈیٹر کو خالصتا پیشہ وارانہ بنیادوں پر بہت تشویش لاحق رہتی۔
اپنے اس ذاتی تجربے کی روشنی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے میں ان دنوں بہت مایوس محسوس کر رہا ہوں۔ موصوف کو Hands on حکمرانی کا بہت شوق ہے۔ لاہور میں ڈینگی کی وباء پھیلی تو وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر محاذ پر موجود پائے گئے۔ ان کے ہوتے ہوئے راولپنڈی میں یومِ عاشور کے موقعہ پر حالات کا یوں بے قابو ہو جانا کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی ذاتی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں نے راولپنڈی کے کئی سینئر صحافیوں سے تفصیلی گفتگوکی اور اس شہر کے سیاسی کارکنوں کو بھی غور سے سنا۔
ان سب کا بلا استثنیٰ اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ اس سال محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی پرانے محلوں کے قدیمی رہائشی ''اب کی بار کسی بڑے واقعے'' کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ بالآخر ''واقعہ'' عین اس مقام پر ہوا جہاں اس کے ہونے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ان سب لوگوں کی باتیں سننے کے بعد میں یہ بات مان ہی نہیں سکتا کہ گلی محلوں میں پیدل گھوم کر اطلاعات اکٹھا کرنے والے اسپیشل برانچ کے اہلکاروں نے ان خدشات کو اپنی روایتی رپورٹوں کے ذریعے حکام بالا تک نہیں پہنچایا ہو گا۔ یہ بات تو اب بلکہ عیاں ہو گئی ہے کہ شہری حکام کے پاس ٹھوس اطلاعات موجود تھیں۔ مگر کسی گڑبڑ کی پیش بندی کے ٹھوس انتظامات کہیں دکھائی نہ دیے۔
عمومی امن و امان کے حوالے سے ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہم یہ طے کر بیٹھے ہیں کہ کوئی ''مسلمان دوسرے مسلمان'' کو تکلیف پہنچانے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن کئی ملک اور ایجنسیاں ہیں۔ وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تعصب اور جھگڑے پھیلا رہے ہیں۔ اپنے مذموم منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ متحارب گروہوں کے سرکردہ رہنماؤں کو مروا دیتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں یا اجتماعات میں خودکش بھیج دیتے ہیں۔ ''بیرونی ہاتھوں'' پر سارا الزام دھر کر ہماری ریاست اور معاشرہ اپنی ذمے داریوں سے مکمل طور پر غافل ہو چکا ہے۔
یہ غفلت اب خوف ناک حد تک ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیانت داری سے اس کڑی حقیقت کا اعتراف کر لیں کہ 1980 کی دہائی سے ہمارے معاشرے میں ''صحیح مسلمان'' کو تلاش کرنے کا مرض پھیل چکا ہے۔ سب سے خوفناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ''سچے مسلمان'' کی یہ تلاش پاکستان کا غریب اور ان پڑھ شہری نہیں کر رہا۔ یہ فریضہ پوری جنونیت کے ساتھ وہ لوگ نبھا رہے ہیں جو ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے نظر آتے ہیں۔ انھیں تاریخ اسلام پر کامل عبور کا دعویٰ بھی ہے۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں وہ مستند تفاسیر سے طویل حوالے ڈھونڈ لاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں تک اپنا زہریلا پیغام پھیلانے کی بھرپور مہارت بھی حاصل کر لی ہے۔ ان لوگوں کو ہمارے اخبارات اور ٹیلی وژن والے خوفِ فساد خلق کی وجہ سے نظرانداز کر دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر بھی لوگوں کا کوئی ایسا منظم گروہ نہیں ہے جو فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والوں کو انسانی بھائی چارے کو فروغ دینے کے جذبے کے ساتھ بے نقاب کرتا رہے۔ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی اس ضمن میں کوتاہیاں یقیناً قابلِ مذمت اور ناقابل معافی ہیں۔ مگر ریاست کا بنیادی فریضہ ہی اپنے شہریوں کی جان و مال کو تحفظ دینا ہے۔ ہماری ریاست نے اس فریضے کو فراموش کر دیا ہے۔ شہباز شریف صاحب سے منسوب نام نہاد ''گڈگورننس'' بھی اس ضمن میں قطعی بے بس نظر آتی ہے۔
میں یہ بات تسلیم کرنے کو بالکل تیار ہوں کہ مستعد ترین انتظامات بھی منظم طریقے سے بھڑکائی فرقہ وارانہ آگ کو بسا اوقات قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ مگر جب راولپنڈی کا واقعہ ہو گیا تو اس کے بعد کرفیو کے نفاذ کے باوجود جو افواہیں فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے پھیلائی گئیں ان کا تدارک بہت آسان تھا۔ شہباز شریف صاحب کو صرف اپنی صورت اور آواز کے ساتھ ٹی وی اسکرینوں پر آ کر بڑی شدت کے ساتھ ان افواہوں کی بس تردید کرنا تھی۔ ہماری ریاست جو بھی دعوے کرتی رہے مگر یہ بات نہیں جھٹلا سکتی کہ اس کے پاس جعلی IDs کے ذریعے فسادات بھڑکانے والے پیغامات بھیجنے والوں کا سراغ لگانے کی صلاحیت پوری طرح موجود ہے۔ میں وسیع تر قومی مفاد میں ان تفصیلات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو اس حوالے سے میرے جیسے عام شہری کے علم میں ہیں۔
حکومت کے کسی شخص کو بس چوکسی دکھانا تھی اور چند ہی گھنٹوں کی محنت کے بعد ان تمام افراد کو گرفتار کر کے لوگوں کے سامنے لایا جا سکتا تھا جو راولپنڈی میں کرفیو کے نفاذ کے بعد سراسر من گھڑت کہانیوں سے گھروں میں بیٹھے لوگوں کو اشتعال دلاتے رہے۔ اگر ریاست اپنے وسائل کو اس حوالے سے استعمال کرنے کو تیار نہ تھی تو موبائل فونوں کے ساتھ کم از کم راولپنڈی اور اسلام آباد میں انٹرنیٹ سروس کو بھی معطل کیا جا سکتا تھا۔ جو ہوا ا سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔ مگر ہماری ریاست اور شہباز شریف کی ''گڈگورننس'' ہمیں اس بات پر قائل تو کرے کہ وہ اب یہ بات جان چکی ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے ہمارے اپنے ہی چند جنونی افراد ہیں جن کا ہمارے پہلے سے موجود قوانین میں محاسبہ کرنے کے تمام تر امکانات موجود ہیں۔ ریاست اور حکومت کو بس ارادہ باندھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔